• صارفین کی تعداد :
  • 2611
  • 5/14/2008
  • تاريخ :

پاکستان ميں نئي امريکي سفارت کاري - ايک خطرناک کھيل

بش کی مشرف سے دوستی پاکستان سے دشمنی

 

صدر جارج بش کی حکومت خود اپنے ملک میں اور بین الاقوامی میدان میں سخت مشکلات کا شکار ہے اور کسی ایسے اقدام کے لیے بے چین ہے جس سے پے در پے شکستوں اور ہزیمتوں کے بعد کسی نوعیت کی سرخ روئی کا دعویٰ کیا جا سکے۔ عراق کی جنگ کے پانچ سال کے جتنے بھی جائزے آئے ہیں، وہ بش کی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جنگ غلط دعوؤں اور جھوٹ پر مبنی رپورٹوں کے سہارے سے شروع کی گئی ۔ یہ جانتے ہوئے کہ عراق کے پاس عمومی تباہی کے مہلک ہتھیار نہیں ہیں، ان معدوم ہتھیاروں اور ان کے مغربی دنیا کو خیالی خطرات کے نام پر فوج کشی کی گئی۔ صدام کے دور میں نہ صرف عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا، بلکہ عراق اور القاعدہ کا کسی سطح پر بھی کوئی رابطہ نہیں تھا، مگر القاعدہ کو بھی نشانہ بنانے کے لیے عراق پر حملہ کیا گیا اور عراق ہی نہیں پوری عرب دنیا میں القاعدہ کے ظہور اور سرگرمیوں کے لیے جواز فراہم کیا گیا۔ عراق کی جنگ میں ۳ہزار سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، اس سے دس گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی عراق کی جنگ میں کچھ کردار ادا کرنے کے باعث ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں جس سے پوری امریکی فوج کا ذہنی اور اخلاقی توازن درہم برہم ہے۔ مالی اعتبار سے 650 ارب ڈالر کے بلاواسطہ مصارف کے علاوہ جو بوجھ امریکی معیشت پر پڑا ہے، اس کا اندازہ چوٹی کے امریکی معاشی ماہرین کے خیال میں ۲ٹریلین (۲ ہزار ارب) ڈالر سے زیادہ ہے اور باقی دنیا کی معیشت پر اس کے علاوہ کم از کم ایک ٹریلین (ایک ہزار ارب) ڈالر کا بوجھ پڑا ہے۔

اس وقت جب دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ (۵ء۱ ارب افراد) غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے، امریکا نے صرف اپنے شوقِ جہاں بانی اور اسرائیل کو محفوظ کرنے کے لیے ہزاروں بلین ڈالر جنگ کی آگ میں جھونک دیے ہیں، اور اب عراق کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ کو دوسری طرف مبذول کرانے کے لیے افغانستان، ایران اور خصوصیت سے پاکستان اور اس کے شمالی علاقوں کو اپنی ترک تازیوں کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس سلسلے میں نئی جارحانہ محاذ آرائی روزافزوں ہے۔ اس کا آغاز گذشتہ سال ہی ہو گیا تھا اور پرویز مشرف کی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھا کر امریکا نے شمالی علاقہ جات میں بے دردی سے بلاواسطہ کاروائیوں کا سلسلہ تیز کیا۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ دو سال میں ۶۳ بار امریکی فوجی کارروائیوں کے ذریعے ہماری سرزمین کو ہماری آزادی اور حاکمیت کا مذاق اڑاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سیکڑوں افراد بشمول معصوم بچے، بوڑھے اور خواتین شہید ہوئے ہیں۔ ان میں سے 10 حملے ۳ نومبر 2007ء اور 18فروری 2008ء کے درمیان ہوئے ہیں جس سے پرویز مشرف اور امریکی قیادت کے گٹھ جوڑ اور آیندہ کے لیے پرویزمشرف کے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار پر باقی رکھنے کی خواہش کے محرکات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔

پاکستانی  عوام میں امریکا کے  خلاف نفرت

پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت پرویز مشرف اور ان کی پالیسیوں سے برأت کا مسلسل اظہار کر رہی ہے۔ راے عامہ کے تمام ہی جائزے بتا رہے تھے کہ 80 فی صد عوام ان سے نجات کے خواہاں ہیں اور یہی چیز 18 فروری کے انتخابات میں ثابت ہوگئی۔ پرویز مشرف کی طرح امریکی قیادت بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ 2007 ء کی بدلتی ہوئی فضا کے پیش نظر اس نے ملک کی دوسری سیاسی قوتوں سے جوڑ توڑ کا آغاز کردیا تھا، مگر یہ نقشہ آسمانی فیصلوں کے ذریعے درہم برہم ہو گیا۔ 18  فروری کے بعد سے امریکا پر ایک گونہ گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہے، اور اس کی پوری مشینری، صدر بش سے لے کر اس کے مقامی سفارت کاروں تک بشمول دانش وروں اور صحافیوں کی فوج ظفرموج، نئی حکمت عملی کے لیے فضا ہموار کرکے اور نومنتخب قیادت کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے سرگرم ہیں۔ پرویز مشرف اور ان کے سیاسی حلیف ابھی تک امریکی حکمت عملی میں کلیدی مقام رکھتے ہیں لیکن اس وقت ساری کوشش پیپلزپارٹی کی قیادت کو اپنا ہم نوا بنانے میں صرف ہورہی ہے۔ اس کے شریک چیرپرسن جناب آصف علی زرداری نئے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور نئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی خصوصی نشانہ ہیں۔ فوج کے سربراہ اور اعلیٰ قیادت بھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

نئی حکمت عملی کے دو پہلو ہیں:…اوّلاً، پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ میں حسب سابق آلہٴ کار بنائے رکھنے کے لیے سفارتی دباؤ اور معاشی لالچ کے تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مخلوط حکومت نے چونکہ محض عسکری قوت سے سیاسی مسائل کے حل کے بارے میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا اس لیے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ انتخابات کے فوراً بعد سفارت کاروں کی ایک فوج حملہ آور ہے اور پاکستان میں امریکی سفارت کاربھی سیاسی کارکنوں کی طرح متحرک ہیں۔ ایک طرف پرویز مشرف کو کسی نہ کسی حیثیت سے برسر ِاقتدار رکھنے اور ایم کیو ایم کو اقتدار میں شریک بنانے کی ہمہ جہتی کوشش ہے تو دوسری طرف نئی حکومت کو امریکی تائید کی لالی پوپ دینے کے لیے کونڈولیزا رائس نے کمال شفقت سے فوج کو سیاسی قیادت کے تحت کارفرما دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے (The need for Pakistan's military to be placed under civilian control)اور امریکی سینیٹرز اور سفارت کاروں نے معاشی اور فنی امداد میں تین گنا اضافے کی بات کی ہے۔ کانگرس نے اگلے پانچ سال کے لیے ۷ ارب ڈالر کی امداد کے پیکج کا دلاسہ دیا ہے۔ لیکن گاجرمولی والی اس سیاست کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھی والی بات کا بھی بھرپور اظہار کیا جا رہا ہے جو اس حکمت عملی کا دوسرا اور زیادہ خوف ناک ستون ہے۔

تمام شواہد اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف نے محض اپنی کرسی کو بچانے کے لیے امریکا کو یہ عندیہ دے دیا تھا کہ امریکا اور ناٹو کی افواج جب چاہیں پاکستان کی سرزمین پر اقدام کرسکتی ہیں۔ الیکشن کے بعد اس کھلی چھٹی کا راز فاش ہوگیا اور قوم کا مزاج بالکل سب کے سامنے ہے کہ یہ ناقابلِ برداشت ہے۔ نیز امریکا اور مشرف کی عسکری قوت سے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کی حکمت عملی کو بھی عوام نے صاف طور پر رد کر دیا ہے اور نومنتخب حکومت کے سب ہی عناصر سیاسی عمل اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو نمٹانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب امریکا کے لیے ایک بڑی شکست اور بش کی خارجہ پالیسی کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفارتی دباؤ اور معاشی لالچ کے ساتھ امریکا کی پوری قیادت پاکستان کو آنکھیں دکھانے اور اپنی مرضی سے پاکستان کی سرزمین پر فوج کشی کرنے کی دھمکیاں دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ نئی حکومت کو اس سفارتی دہشت گردی (diplomatic terrorism) کے ذریعے اسی طرح گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکیں جس طرح نائن الیون کے بعد اس وقت کے مطلق العنان حکمران جنرل پرویز مشرف کو کیا تھا۔

افغانستان میں امریکی افواج

اس یلغار کا ایک اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایڈمرل مائک مولین (Mike Mullen) نے جو امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہیں، فرمایا ہے کہ عراق میں مصروف ہونے کے باوجود ہمیں دوسرے خطرات سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں خصوصی نظر پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر رکھنا ضروری ہے جہاں سے خطرات کے پیغام پھوٹ رہے ہیں:اگر مجھے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا پڑے جہاں سے اگلا حملہ ہونے والاہے تو یہ وہ جگہ ہے جسے میں یقینا منتخب کروں گا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں القاعدہ ہے، جہاں ان کی قیادت ہے اور ہمیں اس چیلنج کو ختم کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرح سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیکل ہے ڈن (Michael Hayden) کا ارشاد ہے: القاعدہ قبائلی علاقے میں دوبارہ مجتمع ہوگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امریکا پر کسی دوسرے حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایک اور جاسوسی ایجنسی ایف بی آئی کے ڈائرکٹر روبرٹ موئیلر (Robert Meuller) کا ارشاد گرامی ہے کہ القاعدہ کے کارندے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں اور ”وہ راتوں رات خاموشی سے غائب نہیں ہوجائیں گے“۔

اس کورس میں جس بات کا سب سے زیادہ تذکرہ ہے، وہ یہ ہے کہ نائن الیون کے حملے کی منصوبہ بندی عراق میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ افغانستان میں ہوئی تھی۔ پانچ سال تک عراق کو تاراج کرنے کے بعد اب یہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ اصل خطرہ تو افغانستان اور پاکستان سے ہے اور ہم ناحق عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن سے ایک اہم رپورٹ کے مطابق :

گذشتہ 10  دنوں میں خطرے کے نئے احساس، یعنی فاٹا میں القاعدہ قائدین کا دوسرے نائن الیون کا منصوبہ بنانے پر واشنگٹن میں درجنوں اجتماعات میں گفتگو ہوچکی ہے۔اس بحث و مباحثے کی انتہا خود صدر جارج بش کا وہ بیان ہے جو انھوں نے اے بی سی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا ہے:افغانستان اور عراق نہیں، بلکہ پاکستان وہ جگہ ہے جہاں سے امریکا پر نائن الیون جیسا دوسرا حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔ موصوف کا ارشاد ہے کہ:پاک افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقے آج کل دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک ہے جہاں القاعدہ نے اپنے لیے محفوظ پناہ گاہیں قائم کرلی ہیں، اور امریکا پر حملہ کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔

جب نمایندے نے یہ سوال کیا کہ:

If there was another 9/11 plot being hatched, it was probably hatched in

Afghanistan and Pakistan and not in Iraq۔

بش کا جواب تھا:

I would say not in Afghanistan, I would say in... Pakistan.

                                                           

  تحریر: پروفیسر خورشید احمد


متعلقہ تحریریں:

  پاکستان ایٹمی اثاثے، مغرب کی تشویش

  ڈنمارک سے اسلامی ممالک اپنے تعلقات منقطع کر لیں : عرب پارلیمنٹ

   ایران کے خلاف صیہونی وزیر اعظم کے الزامات