• صارفین کی تعداد :
  • 2451
  • 11/15/2013
  • تاريخ :

لطم اور قمہ زنی4

لطم اور قمہ زنی4

لطم اور قمہ زنی 1

لطم اور قمہ زنی2

لطم اور قمہ زنی 3

 

سۆال:

مصيبت ميں گريبان چاک کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کے حوالے سے وارد ہونے والي روايت کي تفصيل کيا ہے؟

 

جواب:

يہ خالد بن سدير کي روايت ہے جو علماء کي نگاہ ميں ايک معتبر روايت نہيں ہے اس روايت کا مکمل کچھ يوں ہے: خالد بن سدير کہتے ہيں کہ ميں نے امام (ع) سے اس مرد کے بارے ميں سوال کيا جو اپنے والد يا والدہ يا بھائي يا کسي قريبي رشتہ دار کي مصيبت ميں اپنا لباس پھاڑ ديتا ہے؛ ميں نے پوچھا کہ کيا يہ عمل صحيح ہے؟

حنان بن سدير کے بھائي خالد بن سدير کہتے ہيں:

{قَالَ لَا بَأْسَ بِشَقِّ الْجُيوبِ قَدْ شَقَّ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَلَى أَخِيهِ هَارُونَ وَ لَا يشُقَّ الْوَالِدُ عَلَى وَلَدِهِ وَ لَا زَوْجٌ عَلَى امْرَأَتِهِ وَ تَشُقُّ الْمَرْأَةُ عَلَى زَوْجِهَا وَ إِذَا شَقَّ زَوْجٌ عَلَى امْرَأَتِهِ أَوْ وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ فَكفَّارَتُهُ حِنْثُ يمين وَ لَا صَلَاةَ لَهُمَا حَتَّى يكفِّرَا وَ يتُوبَا مِنْ ذَلِك وَ إِذَا خَدَشَتِ الْمَرْأَةُ وَجْهَهَا أَوْ جَزَّتْ شَعْرها أَوْ نَتَفَتْهُ فَفِي جَزِّ الشَّعْرِ عِتْقُ رَقَبَةٍ أَوْ صِيامُ شَهرين مُتَتَابِعَينِ أَوْ إِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكيناً وَ فِي الْخَدْشِ إِذَا دَمِيتْ وَ فِي النَّتْفِ كفَّارَةُ حِنْثِ يمين وَ لَا شَي‏ءَ فِي اللَّطْمِ عَلَى الْخُدُودِ سِوَى الِاسْتِغْفَارِ وَ التَّوْبَةِ وَ قَدْ شَقَقْنَ الْجُيوبَ وَ لَطَمْنَ الْخُدُودَ الْفَاطِمِياتُ عَلَى الْحُسَينِ بْنِ عَلِي (ع)وَ عَلَى مِثْلِهِ تُلْطَمُ الْخُدُودُ وَ تُشَقُّ الْجُيوبُ}- (1)

امام (ع) نے فرمايا: لباس پھاڑنے ميں کوئي حرج نہيں ہے؛ موسي (ع) نے اپنے بھائي ہارون کے لئے اپنا لباس پھاڑ ديا- البتہ باپ اپنے بيٹے کے لئے اور شوہر اپني بيوي کي موت پر قميص نہيں پھاڑ سکتا؛ جبکہ بيوي اپنے شوہر کي موت پر لباس پھاڑ سکتي ہے اور اگر باپ اپنے بيٹے کے غم ميں اور مرد نے اپني بيوي کے سوگ ميں لباس پھاڑ ڈالے تو اس کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے- اور ان دو کي نماز قابل قبول نہيں ہے جب تک کہ کفارہ ادا نہيں کرتے- جب عورت اپنے چہرے کو ناخنوں سے خراش دے يا اپنے بالوں کو کاٹ دے يا نوچ لے تو بال کاٹنے کے عوض اس کو ايک غلام آزاد کرنا پڑے گا يا دو ماہ تک مسلسل روزہ رکھنا پڑے گا يا پھر ساٹھ مسکينوں کو کھانا کھلانا پڑے گا- اگر چہرے کو خراش دے اور چہرے سے خون نکلے اور اسي طرح اگر اپنے بال نوچ لے تو اس کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے ليکن اگر وہ چہرے پر لطمہ (طمانچہ) مارے تو اس کو استغفار کرنا چاہئے- اور لطم کا کوئي کفارہ نہيں ہے- اور بےشک بني ہاشم کي سيدانيوں (فاطميات) نے امام حسين (ع) پر کپڑے پھاڑ ڈالے اور اپنے چہروں پر تمانچے رسيد کئے اور امام حسين (ع) کي مانند شخصيات پر منہ پر طمانچے رسيد کئے جاتے ہيں اور گريباں چاک کئے جاتے ہيں-

 

حوالہ جات:

1- وسائل الشيعہ، ج 15، ص 583؛ تهذيب الاحکام، ج8، ص 325-

 

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی


متعلقہ تحریریں:

واقع کربلا کے موقع پر رونما ہونے والے واقعات کا خاکہ

 کربلا حيات بخش کيوں ہے ؟