• صارفین کی تعداد :
  • 2354
  • 11/14/2013
  • تاريخ :

لطم اور قمہ زنی3

لطم اور قمہ زنی 3

لطم اور قمہ زنی1

لطم اور قمہ زنی 2

 

سۆال:

لطم کے معني کيا ہيں اور کيا يہ لفظ لغت و شريعت کے لحاظ سے قمہ‏زني يا زنجيرزني پر دلالت کرتا ہے؟

 

جواب:

لطم ثُلاثي مجرد کا مصدر ہے جس کے ماضي کا صيغہ لَطَمَ بنتا ہے - عربي لغات کي کتابوں ميں لطم کے بارے ميں آيا ہے کہ اس کے معني {ضربُ الخدِّ و صَفَحاتِ الجسمِ بِبَسطِ اليدِ او بِالكفِّ مَفتوحةً}- (1) ہيں"لطم يعني ضربه زدن با کف دست و سيلي زدن"- (2)؛ يعني: رخساروں اور بدن کے مختلف حصوں پر کھلے ہاتھ اور ہتھيلي کے ساتھ طمانچے اور تھپڑ مارنا" اور اس کا مفہوم قمہ اور چاقو يا زنجير کے ساتھ سر، سينے اور بدن پر خراش اور زخم وارد کرنا ہرگز نہيں بنتا!

اس معني و مفہوم کو ابن سدير کي روايت سے بھي سمجھا جاسکتا ہے کيوں کہ روايت کي ابتدا ميں چہرے پر خراش کے لئے کفارہ مقرر کيا گيا ہے-

اس روايت ميں چہرے يا بدن پر طمانچے مارنے کے عمل کو کفارے کے دائرے سے خارج کرديا گيا ہے اور اس کے لئے استغفار کا حکم ہے- اس سے مراد يہ ہے کہ لطمہ يا طمانچہ خدش سے بالکل مختلف ہے- اور لغت عرب ميں خدش کي تشريح ميں آيا ہے کہ «خدش يعني، خراش ڈالنا، پارہ پارہ کرنا، پھاڑنا، مخدوش کرنا اور زخمي کرنا- (3) چنانچہ اگر ان اعمال کے حامي افراد اپنے اعمال کے لئے سند و حديث ميں کوئي دليل ڈھونڈنا چاہيں تو انہيں لطم کي بجائے خدش کے موضوع پر وارد ہونے والي روايات ڈھونڈنا ہوں گے- گو کہ عزاداري اور مصيبت و الم و ماتم کے اظہار پر دلالت کرنے والي کوئي بھي روايت قمہ‏زني، زنجيرزني اور اس قسم کے دوسرے کسي فعل و عمل کے اثبات کے لئے بروئے کار نہيں لائي جاسکتي اور ان اعمال کو ثابت نہيں کرتي- اس کي وجہ بھي بالکل واضح ہے اور وہ يہ ہے کہ اس قسم کے افعال کے لئے تاريخ اسلام ميں کوئي نمونہ نہيں ملتا اور اسي سلسلے ميں ہماري ديني روايات و احاديث ميں ان کا کوئي بھي ثبوت ميسر نہيں ہے-

 

حوالہ جات:

1- کتاب‏العين، ج 7، ص 433-

2- ويقال لطمت المرأة وجهها لطما من باب ضرب: ضربته بباطن کفها (لسان‏العرب، ج 12، ص 542؛ مجمع‏البحرين، ج 6، ص 162)-

3- فرہنگ فارسي عميد-

 

ترجمہ : فرحت حسین مہدوی


متعلقہ تحریریں:

عزادار حسين عليہ السلام کے آنسوۆں کي عظمت

عاشقان حسين عليہ السلام کے ليۓ انعام