• صارفین کی تعداد :
  • 3547
  • 11/14/2012
  • تاريخ :

جہيز اور گمانِ فاسد  

جہيز اور گمانِ فاسد

مہر کي زيادتي  

  کثرت مہر کے نقصانات  

جہيز اور خانہ تباہي

جہيز کے بارے ميں ايک غلط فہمي کا ازالہ  

 آج کچھ لوگ زيادتي جہيز کي طرح مہر کي زيادتي کو بھي اپني شان و عظمت کا سامان سمجھنے لگے ہيں جو سراسر غلط اور شريعت اسلامي کے خلاف ہے-

کہا گیا بے خبردار! عورتوں کے مہر ميں زيادتي نہ کيا کرو کيوں کہ اگر يہ دنيا ميں عزت اور اللہ کے نزديک پرہيزگاري ہوتي تو اس کے سب سے زيادہ مستحق نبي صلي اللہ عليہ و سلم ہوتے- ہمیں نہيں معلوم کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے بارہ اوقيہ سے زيادہ مہر پر اپني کسي بيوي سے نکاح کيا ہو يا اپني کسي بيٹي کا نکاح کرايا ہو-

 لہٰذا مذکورہ حديث پاک سے معلوم ہوا کہ زيادتي مہر کو اپني عزت و رفعت تصور کرنا غلط ہے-

مہر کتنا ہونا چاہيے  

 نکاح کے عوض عورت کا مہر کتنا باندھا جانا چاہيے تو اس بارے ميں شريعت اسلاميہ نے کم کي مقدار تو متعين کر دي ہے مگر زيادتي کي کوئي حد مقرر نہيں کي ہے- مہر کي کم سے کم مقدار دس درہم يا اس کے مساوي کوئي اور شئي ہے- ہدايہ ميں ہے:’’واقل المھر عشرۃ دراہم ‘‘- (ہدايہ-ج2- ص:322- باب المھر323)

 حديث شريف ميں ہے :’’روي جابر بن عبداللّٰہ قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليہ و سلم لاينکح النساء الاکفاء ولا يزوجہن الاولياء ولا مہردون عشرۃ دراہم‘‘- (درايہ-ج2- ص:324)

  تاہم يہ بات ضرور واضح ہوتي ہے کہ مہر کي مقدار اتني ہو جو مرد کي حيثيت کے مطابق اور اس کا ادا کرنا شوہر کے ليے آسان ہو، حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہيں رسول اکرم صلي اللہ عليہ و سلم نے فرمايا کہ بہترين مہر وہ ہے جس کا ادا کرنا آسان ہو-

  آئيے ہم ديکھتے ہيں محسن انسانيت صلي اللہ عليہ و سلم کي زوجات مطہرات کا مہر کتنا تھا- حديث پاک ميں ہے :’’عن ابي سلمۃ قال سالت عائشۃ کم کان صداق النبي صلي اللّٰہ عليہ و سلم قالت صداقہ لازواجہ اثني عشرۃ اوقيۃ و نش قالت اتدري ما نش؟ قلت لا قالت نصف اوقيۃ فتلک خمس مائۃ درہم رواہم مسلم‘‘- (مشکوٰۃ شريف- باب الصداق- ص277- طبقات النساء لابن سعد- ص:43- مسند عائشہ- ص:94)

يعني  ابي سلمہ نے  عائشہ رضي اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ و سلم کا اپني بيويوں کے متعلق سے مہر کتنا تھا تو انہوں نے فرمايا کہ حضور صلي اللہ عليہ و سلم کا مہر اپني بيويوں کے متعلق بارہ اوقيہ اور ايک نش تھا- بوليں کيا تم جانتے ہو کہ نش کيا ہے؟ ميں نے کہا نہيں ، فرمايا آدھا اوقيہ تو يہ پانچ سو درہم ہوئے-

 کسی حکيم نے یوں تشریح کی ہے کہ: ’’ايک اوقيہ چاليس درہم کا ہوتا ہے اور ايک درہم ساڑھے چار آنہ کا ہوتا ہے- جس کي قيمت باعتبار زمانہ تقريباً ايک سو پينسٹھ روپے ہوتے ہيں ‘‘-

تحرير: صابر رہبر مصباحي

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان