• صارفین کی تعداد :
  • 3280
  • 8/18/2011
  • تاريخ :

کتاب کا مطالعہ (حصّہ دوّم)

کتاب کا مطالعہ

ماں باپ کى دوسرى ذمہ دارى يہ ہے کہ وہ اپنى اولاد کى اس طريقے سے پرورش کريں کہ وہ علم و دانش حاصل کرنے، کتاب پڑھنے اور بحث و تحقيق کے شيدا بنيں ان کے گھر کا ماحول عملى ہونا چاہيے اور وہ اپنے بچوں کو قول و عمل سے مطالعہ کرنے کا شوق دلائيں بہتر يہ ہے کہ يہ طريقہ کاربچپن ہى سے شروع کرديا جائے اور بچے کے سکول جانے سے پہلے اسے اس طرز عمل کا عادى بنايا جائے پہلے آپ بچوں کو کتاب پڑھ کر سنائيں چھوٹے چھوٹے سادہ اور قابل فہم قصّوں اور کہانيوں کى کتابيں انہيں لا کرديں اگر يہ کتابيں تصويروں والى ہوں تو اور بھى بہتر ہے پھر ہر روز ماں باپ يا بڑى بہن يا بھائي اس کتاب کا کچھ حصہ چھوٹے بچے کو پڑھ کر سنائيں اور اگر اس کتاب ميں تصويريں بھى ہوں تو کتاب کے مطالب کى ان تصويروں کے ساتھ تطبيق کرکے بچوں کو بتائيں پھر اس سے کہا جائے کہ اس کہانى کا خلاصہ بتائے اور اگر اس ميں چھوٹے چھوٹے شعر بھى ہوں تو اسے وہ شعر ياد کرائے جائيں البتہ اس سلسلے ميں جلدى کا مظاہرہ نہيں کرنا چاہيے يا بچے کى استعداد اور خواہشکے مطابق اسے کہانياں پڑھ کر سنائي جائيں نہ کہ اس کى استعداد سے زيادہ کيوں کہ اگر اس کى استعداد اور فہم سے زيادہ اس پر ٹھونسنے کى کوششکى گئي تو وہ شروع ہى سے کتاب پڑھنے سے بيزار ہوجائے گا يہ سلسلہ اس وقت تک جارى رکھيں جب تک بچہ خود پڑھنا اور لکھنا سيکھ نہيں جاتا اس کے بعد کتاب پڑھنے کى ذمہ دارى خود بچے پر ڈال دى جائے کبھى کبھى کتاب کے متعلق اس کى رائے معلوم کى جائے کتاب کے مطالب کے بارے ميں اس گفتگو کى جائے يہ سلسلہ اس وقت تک جارى رکھيں جب بچہ خود بخود کتاب پڑھنے کا عادى ہوجائے يہاں پر والدين کى خدمت ميں چند نکات کى ياد دہانى ضرورى ہے .

بچے کہانياں پسند کرتے ہيں اور ان کے مطالب کو اچھى طرح سمجھتے ہيں البتہ کلى مطالب کو وہ اچھى طرح نہيں سمجھتے اس لحاظ سے بچوں کى کتابيں حتى المقدور کہانيوں کى صورت ميں ہونى چاہيے ہر بچہ ايک الگ شخصيت کا مالک ہے تمام افراد کى استعداد اور ذ وق برابر نہيں ہوتے مختلف عمروں ميں ان ميں تبديلى آتى رہتى ہے لہذا ماں باپ پہلے اپنے بچے کى استعداد اور ذوق کو سمجھيں اور پھر اسى کے مطابق اس کے ليے کتابيں لائيں مشکل اور بوريت سے بھر پور مطالب اس پر ٹھونسنے سے پرہيز کريں کيوں کہ ممکن ہے ايسا کرنا اسے کتابيں پڑھنے سے بيزار کردے چونکہ بچے کى شخصيت کى تعمير ہو رہى ہوتى ہے اور کتاب اس پر گہرا اور عميق اپر چھوڑتى ہے لہذا اسے ہر طرح کى کتاب نہيں دى جاسکتى ماں باپ پہلے خود خود وہ کتاب پڑھيں، اس کے مطالب پر مطمئن ہونے کے بعد وہ بچے کے سپردکريں اگر بچے نے کوئي گندى کتاب پڑھى تو يہ اس کى روح پر برا اثر ڈالے گى جب کہ اس کى دوبارہ تربيت کرنا اور اسے سدھارنا بہت مشکل کا م ثابت ہوگا بچے جرائم کى کتابيں جن ميں پوليس، قتل، اور چورى ڈاکہ کى باتيں ہوں بڑے شوق سے پڑھتے ہيں ليکن اس طرح کى کتابيں نہ فقط يہ کہ بچوں کے ليے سودمند نہيں ہيں بلکہ انہيں قتل ، جرم اور چورى و غيرہ کے طريقے سکھاتى ہيں جس سے ان کى سلامتى ، اور روحانى و نفسياتى سکون تباہ و برباد ہوجاتا ہے اور اسى طرح جنسى قوت کو تحريک دينے والى کتابيں بھى بچوں کے ليے نقصان وہ ہيں کيوں کہ ممکن ہے ان کتابوں سے ان کى جنسى قوت وقت سے پہلے بيدا ر ہوجائے اور انہيں تباہى و بربادى کى وادى ميں دھکيل دے ايک صاحب اپنى يادداشتوں ميں لکھتے ہيں: ... ...ميرى دادى اماں تھيں جو مجھ سے بہت محبت کر تى تھيں رات کو ميں ان کے پاس ہوتا اور ان سے کہانى سنانے کى ضد کرتا وہ مجھے سلانے کے ليے ہر رات ايک کہانى سناتيں وہ مجھے جن بابا کى کہانى سناتيں اور اسى طرح دوسرى ڈراؤنى کہانياں ان کہانيوں نے ميرى روح اور نفسيات پر اپنا اثر چھوڑا ميں اسى پريشانى کن حالت ميں سوجاتا اور خواب ميں بھى يہ افکار مجھے پريشان کرتے رہتے ميں ان تحريک آميز اور فرضى کہانيوں اور افسانوں کو بہت پسند کرتا انہوں نے ميرى روح کو بہت حساس اور پريشان کرديا ميں بزدل اور ڈرپوک بن گيا تنہائي سے مجھے خوف آتا ميں غصيّلہ اور زود رنج ہوگيا يہ کيفيت ابھى بھى مجھ ميں باقى ہے کاش والدين اس طرح کى جھوٹى اور تحريک آميز کہانياں اپنے بچوں کو نہ سنائيں ميں نے يہ پکاارادہ کيا ہوا ہے کہ اپنے بچوں کو اس طرح کى کہانياں نہيں سنا ؤ ں گا ميں عموماً انہيں قرآنى قصے اور ديگر سچى کہانياں سناتا ہوں۔

کتاب پڑھنے کا مقصد صرف وقت گزارى نہيں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد اسکے مطالب و سمجھنا او ر ان سے استفادہ کرناہے يہ بات اہم نہيں ہے کہ بچہ کتنى کتاب پڑھتا ہے بلکہ اہم يہ ہے کہ اسنے يہ کتاب کس طريقے سے پڑھى ہے کيا سرسرى طور پر پڑھ کرگزرکيا ہے يا غور فکر سے اور سمجھ کر اس نے پڑھى ہے ماں باپ کو اس سلسلے ميں پورى توجہ رکھنى چاہيے بچے سے کبھى کبھى کتاب کے مطالب کے متعلق سوال کرتے رہنا چاہيے اور ان مطالب کے صحيح يا غلط ہونے کے بارے ميں بھى اس کى رائے معلوم کرتےرہنا چاہيئے نيز چاہيئے کہ اس سے دريفات کيا جائے اس سے اس نے کيا نتيجہ حاصل کيا ہے

 

بشکريہ :  مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي


متعلقہ تحريريں:

بچوں کي خوراک سے متعلق چند باتوں کو ہميشہ ذہن ميں رکھيں

 بچوں کو منظم کيسے کيا جائے؟ (حصّہ دوّم)

بچوں کو منظم کيسے کيا جائے؟

انگوٹھا چوسنا

اسلام ميں عورت کا حق وراثت