• صارفین کی تعداد :
  • 2138
  • 1/23/2011
  • تاريخ :

منافقین کی خیانت

بسم الله

منافقین کی خیانت

رسول خدا صبح سویرے شیخان سے احد کی طرف (۶ کلومیٹر مدینہ سے) روانہ ہوئے۔ مقام شوط پر عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین کا سرغنہ اپنے چاہنے والے تین سو افراد کے ساتھ مدینہ لوٹ گیا۔ اس نے اپنے بہانہ کی توجیہ کے لیے کہا کہ… محمد نے جوانوں کی بات سنی ہماری بات نہیں سنی اے لوگو! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس لیے اپنے آپ کو قتل کئے جانے کے لیے پیش کر دیں۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام ان کے پیچھے پڑ گئے اور کہا کہ: اے قوم والو! خدا سے ڈرو۔ ایسے موقع پر جب دشمن نزدیک ہیں اپنے قبیلہ اور پیغمبر خدا کو تنہا نہ چھوڑو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اگر یہ جانتے کہ لڑائی ہونے والی ہے تو ہم تم کو نہ چھوڑتے۔ لیکن ہم کو معلوم ہے کہ کسی طرح کی جنگ نہیں ہوگی۔

عبداللہ بن عمرو نے جو کہ ان سے ناامید ہوچکے تھے کہا کہ تم خدا کے دشمن ہو، خدا تم کو اپنی رحمت سے دور کرے اور اپنے پیغمبر کو تم سے بے نیاز کر دے۔

ان تین سو افراد کے چلے جانے کے بعد قبیلہ بنی حارثہ اور قبیلہ بنی سلمہ کے افراد بھی سست پڑ گئے ان کا خیال بھی واپس جانے کا تھا کہ خدا نے ان کو استوار رکھا۔

صف آرائی

روز شنبہ ۷ شوال سنہ ۳ہجری کو رسول خدا نے احد میں نماز صبح ادا کرنے کے بعد لشکر کی صف آرائی شروع کر دی۔ کوہ احد کو پیچھے اور مدینہ کو اپنے سامنے قرار دیا۔ سپاہیوں کو مکمل طور پر ترتیب دینے کے بعد آپ نے تقریر فرمائی اور کہا کہ تعریف اور جزاء اس شخص کے لیے ہے جو اپنے فریضہ کو صبر و سکون اور واقفیت و یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے اس لیے کہ جہاد ایک سخت اور دشوار کام ہے اس میں بڑی مشکلات و پریشانیاں ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس میں صابر رہیں۔ مگر وہ لوگ جن کو خدا ہدایت و تقویت دے۔ خدا اس کا دوست ہے جو اس کافر مانبردار ہے اور شیطان اس کا دوست ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے۔

ہر چیز سے پہلے جہاں میں استقامت رکھو اور اس وسیلہ سے ان سعادتوں کو اپنے لیے فراہم کرو جن کا خدا نے وعدہ کیا ہے۔ اختلاف، کشمکش اور ایک دوسرے کو کمزور بنانے کا ارادہ ترک کردو کیونکہ یہ باتیں حقارت و ناتوانی کا سبب ہیں۔

پیغمبر نے ”عبداللہ بن جبیر“ کو ۵۰ تیر اندازوں کے سات درہ کوہ عینین کی پاسبانی پر معین فرمایا اور اس تنگ راستہ کی حفاظت کے لیے جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے فرمایا کہ چاہے ہم فتح یاب ہوں اور چاہے شکست کھا جائیں تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور دشمن کے سواروں کو تیر اندازی کے ذریعہ ہم سے دور کرتے رہونا۔ تاکہ وہ پیچھے سے ہم پر حملہ نہ کریں۔ اگر ہم قتل کر دیئے جائیں تو ہماری مدد نہ کرنا اور اگر ہم فتح یاب ہو جائیں اور ہم مالِ غنیمت حاصل کرنے لگیں تم ہمارے پاس نہ آنا تم اپنی جگہ مضبوطی سے ڈٹے رہنا۔ یہاں تک کہ ہمارا کوئی حکم آجائے۔

(مغازی ج۱ ص ۲۲۰، ۲۲۴)

دشمن اپنی صفوں کو منظم کرتے ہیں

ابوسفیان نے بھی اپنی صفوں کو منظم کرلیا پیادہ زرہ پوش دستہ خالد بن ولید کی کمان میں لشکر کے درمیان میں کچھ سواروں کا لشکر داہنی جانب اور ایک گروہ کو عکرمہ بن ابی جہل کی سرکردگی میں بائیں جانب قرار دیا۔ اور سپاہ پرچم اس نے قبیلہ بنی عبدالدار کے افراد کے سپرد کیا اور شرک و الحاد کے وجود کی حفاظت کے لیے حکم دیتے ہوئے کہا کہ: لشکر کی کامیابی پرچم داروں کی استقامت میں پوشیدہ ہے ہم نے بدر کے دن اسی وجہ سے شکست کھائی تھی اب اگر اپنے آپ کو تم اس کے لائق ثابت نہیں کرو گے تو پرچم داری کا یہ فخر کسی اور قبیلہ کو نصیب ہوگا ان باتوں سے اس نے بنی عبداللہ کے جاہلی احساسات کو مہمیز کیا یہاں تک کہ وہ آخری دم تک جان کی بازی لگانے کے لیے آمادہ ہوگئے۔

اب خوں چکاں جنگ کے دہانہ پر دونوں لشکر توحید و شرک ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان دونوں لشکروں کی توانائیوں کی نسبت آپس میں مندرجہ ذیل ہے۔

(مغازی ج۱ ص ۲۲۳)

لشکر اسلام لشکر مشرکین نسب سپاہ مسلمانوں کے مقابل کفار کی نسبت ۷۰۰ /۳۰۰۰

عنوان : تاریخ اسلام

پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان

بشکریہ پایگاہ اطلاع رسانی دفتر آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی


متعلقہ تحریریں :

دشمن کے لشکر کے ٹھہرنے کی جگہ

عباس کی رپورٹ

سیاسی پناہ گزین

جنگ احد کے مقامات

غزوہٴ بنی سلیم اور  غزوہ غطفان