• صارفین کی تعداد :
  • 3248
  • 3/3/2010
  • تاريخ :

 سورۂ یوسف ( ع ) کی  54 ویں آیت کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

و قال الملک ائتونی بہ استخلصہ لنفسی فلمّا کلّمہ قال انّک الیوم لدنیا مکین امین


 بادشاہ نے کہا : انہیں [ یوسف (ع) کو ] میرے پاس لے آؤ میں ان کو اپنے امور میں مشیر بناؤں گا اور جب ان سے بات کی تو کہا : تم آج سے ہمارے نزدیک وقار و عزت کے ساتھ امین کی حیثیت سے رہوگے ۔

عزیزان محترم ! حضرت یوسف (ع) کے اخلاص اور فروتنی کے اظہار نے، شاہ مصر کی نگاہوں میں ان کی قدر و منزلت دو بالا کردی۔ ان کی بے گناہی اور علمی استغنا کے ساتھ تدبر و فراست سے وہ پہلے ہی متاثر ہو چکا تھا چنانچہ اپنے درباریوں کے درمیان ان کو اپنا مشاور بنانے کا اعلان کرتے ہوئے دربار میں بلایا اور کہا: میں آج سے آپ کو اپنے دربار میں ایک با وقار امین کی حیثیت سے جگہ دینا چاہتا ہوں، شاہ مصر نے حضرت یوسف ( ع) کے سامنے پیشکش کا یہ انداز شاید اس لئے اپنایا تھا کہ وہ جناب یوسف (ع) کے استغنا اور اپنی ضرورت کو محسوس کر چکا تھا اور یہ بھی چاہتا تھا کہ درباریوں کے درمیان ان کا مقام اور منزلت شروع سے ہی مستحکم ہو جائے تاکہ وہ یوسف (ع) کو شاہ کا مشیر خاص سمجھ کر ان کے احکام کی نافرمانی نہ کریں، حکومت کے امور میں تمکن اور اقتدار کے ساتھ امانت بے حد ضروری ہے اسی لئے یوسف (ع) کے سلسلے میں شاہ مصر نے ان دونوں خصوصیات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے ۔ جناب یوسف (ع) کی بلند منشی اور امانت وہ خصوصیات ہیں جو حکومت کا نظام چلانے میں بے حد مؤثر ہیں اگر حکام کے یہاں یہ دونوں باتیں موجود ہوں تو ملک و قوم کی ترقی یقینی ہے اور جہاں یہ باتیں نہ ہوں مصائب و مشکلات کا باعث بنتی ہیں ۔

اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

سورہ یوسف ۔ع ۔ (44,45) ویں آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (43) ویں آیت کی تفسیر