• صارفین کی تعداد :
  • 4787
  • 2/22/2010
  • تاريخ :

اصالتِ روح (حصّہ دوّم)

استاد شہید مرتضیٰ مطہری

سو فی صدی یہ نظریہ "دوئی" كا نظریہ ہے، اس لئے كہ روح اور بدن كو ایك دوسرے سے علیحدہ دو جوہر اور ان كے باہمی تعلق كو عرضی و اعتباری مانتا ہے۔ جیسے طائر كا گھونسلے اور سوار كا سواری سے تعلق اور كوئی جوہری یا طبیعی تعلق جو ان دونوں كے درمیان ذاتی وحدت و پیوند كی نشاندہی كرتا ہو اسے نہیں مانتا۔

لیكن یہ بات سبھی جانتے ہیں كہ كچھ دن گذرنے نہیں پائے تھے كہ خود افلاطون كے شاگرد ارسطونے اس نظریہ كو باطل كر دیا اور سب نے اس كی تائید كی ارسطو یہ سمجھا كہ افلاطون اور اس كے سابقین كی زیادہ تر توجہ روح اور بدن كے معاملات میں نظریہٴ "دوئی" پر مبنی ہے، اور ان لوگوں نے روح اور بدن كے باہمی تعلق اور وحدت كے بارے میں زیادہ غور نہیں كیا ہے۔ ارسطو اس نتیجہ پر پہنچا كہ روح اور بدن كے باہمی تعلق كو طائر كا گھونسلے یا سوار كا سواری جیسا تعلق نہیں مانا جا سكتا، بلكہ ان دونوں كا تعلق اس سے كہیں گہرا ہے۔

ارسطو نے روح اور بدن كے تعلق كو صورت و مادہ كے تعلق كے مانند اس فرق كے ساتھ جانا ہے كہ چوں كہ قوةٴ عاقلہ مجرو ہے لہٰذا وہ مادّے كا جزٴ نہیں بلكہ مادّے كے ساتھ ہے۔

اس بحث كا آخری نتیجہ یہ نكلتا ہے كہ ارسطو كے فلسفے میں روح كے قدیم اور بالفعل جوہر ہونے كا كوئی اثر نہیں ہے۔ روح قدیم نہیں بلكہ حادث اور ابتدا میں محض استعداد وقوة ہے اور كسی طرح كا قبلی علم اسے حاصل نہیں، وہ اپنی تمام معلومات و اطلاعات كو اسی كائنات میں قوة سے فعل میں لاتی ہے، جزئی اختلاف كے ساتھ ابن سینا كے فلسفے میں بھی انہیں معنوں كی جھلك ملتی ہے، وہ دوئی، علیحدگی اور بیگانگی جو افلاطون كے فلسفے میں موجود تھی، ارسطو اور ابن سینا كے فلسفے میں نسبتاً كافی حد تك كم ہو گئی اور اس موضوع كی اساس ارسطو كے مشہور نظریہٴ مادہ و صورت اور كون و فساد پر مبنی قرار پائی۔ اگر چہ اس نظریہ میں كچھ خاص امتیازات كی اصلی وجہ یہ دوئی كی جگہ روح اور بدن كے درمیان حقیقی تعلق اور وحدت كا قائل ہے اور یہ ایك اہم بات بھی ہے، لیكن اس كے باوجود بہت سے اہم اشكالات اور ابہامات سے بھی خالی نہ تھا۔ اشكالات مادہ اور صورت نیز كون اور فساد كے طبیعی تعلق كی كیفیت كے بارے میں ہیں، جن كا بیان مناسب موقعہ پر ہونا چاہیے، اس صورت حال میں ضروری تھا كہ علم و فلسفے كے میدان میں قدم اٹھائے جائیں تاكہ اس معمہّ كا حل ممكن ہو سكے یا كم سے كم اس موضوع كو معقول اور قابل قبول بنایا جا سكے۔ اب یہ دیكھنا ہے كہ یہ قدم كہاں سے اٹھائے گئے۔

یورپ میں فكری اور علمی تحوّل كے مقدمات فراہم ہوئے اور مكمل طور سے انقلاب آگیا انقلاب كی خصوصیت یہ ہے كہ ترو خشك كی تمیز نہیں كرتا۔ گذشتہ اعتقادات و مبانی بے اساس ہوگئے۔ انقلابیوں نے تمام اشیاء كے لئے نئے منصوبے تیار كیے یہاں تك كہ روح اور بدن كے مسئلہ میں بھی نئے نظریات قائم ہویے۔

فرانس كے مشہور فلسفی "دیكارت" نے روحاور بدن كی دوئی سے متعلق ایك خاص نظریہ پیش كیا، جس پر كچھ دن بعد ردو قبول كی بحث شروع ہوئی پھر نظریے كی تراش خراش اور اصلاح كی طرف توجہ كی گئی۔

دیكارت نے فكری ارتقا كی منزلیں طے كرنے كے دوران خود كو تین حقیقتوں كے ماننے پر مجبور پایا، خدا، نفس اور جسم۔ اس نے اس لحاظ سے كہ نفس، فكرو شعور ركھتا ہے اور بُعد (جہت) نہیں ركھتا… جسم بُعد ركھتا ہے اور فكرو شعور سے خالی ہے۔ اس طرح و یكارت نے نفس و بدن كو دوچیزیں جانا۔

دیكارت كے نظریے پر جو معقول اعتراض ہوا (سب سے پہلے خود یورپی افراد نے كیا) وہ یہ تھا كہ اس نے صرف دوئی اور روح و بدن كے ایك دوسرے سے جدا ہونے كے بارے میں بیان كیا اور اُس تعلق كے بارے میں جو روح اور بدن كے درمیان موجود ہے كوئی ذكر نہیں كیا ہے…دوسری بات یہ ہے كہ جب یہ دونوں ایك دوسرے سے جدا دومختلف چیزیں ہیں تو ایك دوسرے سے ملیں كیسی؟ روح اور بدن كے بارے میں قابل ذكر سب سے اہم مسئلہ اس تعلق كا ہے جو ایك لحاظ سے بدن اور روح یا روحی خواص كے درمیان موجود ہوتا ہے۔

 

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: خادم حسین

پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین


متعلقہ تحریریں :

اسلام  میں طلاق

خدا اپنے بندے کی بات سنتا ہے

يورپ کي موجودہ تمدن کي بنياد

دوسروں کی تقلید یا اپنی ثقافت پر فخر کریں