• صارفین کی تعداد :
  • 6700
  • 2/3/2009
  • تاريخ :

بچوں کی بات سننے میں ہمیشہ پہل کریں اور انہیں اہمیت دیں

مسلمان بچی

والدین اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات نہیں سنتے، حالانکہ یہی شکایت بچوں کوبھی والدین سے ہے لہٰذا بات سننے میں والدین کو پہل کرنی چاہیے، مشہور ماہر امراض دماغ و نفسیاتی ڈاکٹر غزالہ موسیٰ نے اپنے کتابچے :

’’بچے آپ کی بات کیوں نہیں سنتے‘‘ میں مشہور مصنف اڈیل فیبر اور ایلین فرلش کی ایک مشہور زمانہ کتاب’’How to tolk so kids will listin and listen so kids will talk

کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چاہے آپ کے بچے کی باتیں غلط ہی کیوں نہ ہوں ان کی باتیں سنیں، بچے کو اظہار خیال کیلئے کم از کم کچھ وقت دیں۔ اس کے بعد اگر ضروری ہو تو اختلاف کریں۔ بچوں کی بات کو غور سے سننا انتہائی ضروری ہے، خصوصاً جب وہ اپنے احساسات کا اظہار کریں۔ ماہر نفسیات کے مطابق جب ہم بچے کے منفی احساس کو قبول کر لیتے ہیں تو اس کی شدت کم ہوجاتی ہے، کئی مرتبہ بچے اپنے منفی احساس کا بار بار اظہار کرتے ہیں، ہمیں ہر مرتبہ حوصلے سے بچے کی بات سن لینی چاہیے، بات سننے کے بعد بچے کو سمجھائیں کہ کس وجہ سے اس کی بات قابل عمل نہیں ہے، بچہ اپنا احساس ظاہر کر رہا ہو تو سر اور گردن اوپر نیچے ہلائیں ’’ہوں، ہوں‘‘ کرکے بات سنیں اگر اس کی بات سے اتفاق ہے تو ’’ٹھیک ’’ ’’صحیح‘‘ یا بالکل صحیح کہیں۔

 

قارئین! میں یہاں ایک مثال دینا چاہوں گی ، اگر آپ ایک بالٹی میں کوڑا ڈالیں تو اس میں سے کوڑا ہی نکلے گا، اگر آپ اس میں پھول ڈالیں تو اس میں سے پھول ہی نکلیں گے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کے ساتھ انتہائی نرم گفتگو کریں تو آپ بھی ان کے ساتھ انتہائی نرم گفتگو کریں، اگر آپ اپنے بچوں سے تعاون چاہتے ہیں تو آپ بھی ان کے ساتھ تعاون کریں، صحت مند گھریلو ماحول کے لئے اپنے بچوں کا آپس میں مقابلہ نہ کریں اور نہ ہی دوسرے بچوں سے مقابلہ کریں۔‘‘تعریف کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو نظر آ رہا ہے یا سنائی دے رہا ہے اسے بیان کریں اور پھر جو محسوس کرتے ہیں وہ بیان کریں، آپ اپنے بچے کو وضاحت، تعریف کرنے کی تربیت دیں، مثلاً اگر بچے کی خوشخطی خراب بھی ہے تو وہ الفاظ یا حروف ڈھونڈیں جو خوبصورت ہیں ان پر انگلی رکھ کر کہیں یہ لفظ مثلاً ’’الف‘‘ یا’’ب‘‘ یا’’P‘‘ یا ’’X‘‘ وغیرہ کتنا سیدھا اور خوبصورت ہے۔ بچے کی شخصیت پر بے جا تنقید نہ کریں بلکہ اس کے عمل میں نقص نکالیں اور شخصیت پر تنقید سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کریں۔ والدین کے لئے بہتر ہے کہ ماضی کی غلطیوں پر تنقید کرنے کی بجائے مستقبل کے لئے اچھی رہنمائی کریں اور غلطی کا احساس دلائے بغیر اصلاح کریں۔ والدین اور  بچوں کی ضروریات اور خواہشات کے درمیان جب بھی اختلاف رائے ہو تو مل بیٹھ کر مشاورت کرنی چاہیے اور والدین و بچے باری باری اپنے اپنے احساسات و خیالات کا اظہار کریں پھر دونوں ایک کاغذ پر ان مسائل کے ہر ممکن حل لکھتے جائیں، حل لکھتے ہوئے ان پر تنقید نہ کریں، والدین اپنے بچے کی تمام تجاویز کا جائزہ لیں اور دونوں علیحدہ علیحدہ بتا دیں کہ کون کونسی تجاویز ان کے لئے قابل عمل نہیں ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تروبیت اور معاشرے کا کامیاب ممبر بننے کیلئے چند تجاویز پر عمل درآمد بہت ضروری ہے۔

٭۔۔۔۔ بچے کو انتخاب کا حق دیں، بجائے بچے پر ہر چیز اور ہر کام مسلط کرنے کے، اسے انتخاب کرنے کا حق دیں۔

٭۔۔۔۔ہوم ورک، نہانا اور کوئی بھی دوسرا کام جو آپ کا بچہ نہیں کرتا اچانک بچے پر مسلط نہ کریں بلکہ اس کے وقت کے انتخاب میں بچے کو کچھ گنجائش دیں ۔

٭۔۔۔۔بچوں کے غلط اعمال کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، مثلاً کھانے کے برتن بے جگہ چھوڑ دینا، کوڑا کرکٹ جگہ جگہ ڈھیر کر دینا، کمرے میں گندگی ڈالنا، ایسے بھی بچے پر ضرور دے کر ایک دو دفعہ اسی کے ہاتھوں وہ کام کروائیں تو بچہ محسوس بھی نہیں کرے گا اور اصلاح بھی ہو جائے گی اور بہتر نتائج برآمد ہونگے

٭۔۔۔۔ نتائج اور سزا میں یہ فرق ہوتا ہے کہ نتائج بچے کی غلطی سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ سزا کا غلطی سے کوئی قدرتی تعلق نہیں ہوتا، اگر بچہ چھوٹا ہے توآپ کچھ وقت کے لئے اس سے بول چال بند کر دیں یا 20 دفعہ بیٹھکیں نکلوائیں، مارنا بھی ایک سزا اور یہ زیادہ نقصان دہ ہے

٭۔۔۔۔ بچے سزاؤں کی نسبت قدرتی نتائج کو بہتر طور پر قبول کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی غلطی اور نتائج میں تعلق نظر آجاتا ہے

٭۔۔۔۔ نتائج کے استعمال سے بچوں میں مثبت تبدیلیاں چند ہفتوں میں آتی ہیں، لیکن بچوں کی خود اعتمادی مضبوط ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو مظلوم نہیں سمجھتے

٭۔۔۔۔مائیں اکثر غصہ میں یا نارمل حالات میں بچوں کو بدتمیز کہتی ہیں یا ’’بدتمیزی نہ کرو‘‘ کہتی ہیں اس کے بجائے انہیں وضاحت کرنی چاہیے اور بہتر تجویز دینی چاہیے

٭۔۔۔۔ اپنے بچے کو وہ کام سکھائیں جو اسے نہیں آتا، مثلاً اگر وہ لاپرواہی سے کام کرتا ہے تو اس کا نام’’لاپرواہ‘‘ نہ رکھیں بلکہ اسے اپنے ساتھ لگا کر احتیاط سے کام کرنا سکھائیں۔ پہلے اس کو کرکے دیکھائیں اور پھر بتائیں، جتنا کام کرست کر رہا ہے اس کی وضاحت کے ساتھ تعریف کریں، غلطیاں نرمی اورتحمل سے درست کروائیں جو تھوڑی سی محنت آج اس بچے کی تربیت پر لگے گی وہ کل آپ سب کے کام آئے گی۔

٭۔۔۔۔بچوں کے آپس میں جھگڑے ہوں تو ان کے جھگڑوں کو وقتاً فوقتاً ایک نظر دیکھ لیں، جھگڑے تین طرح کے ہوتے ہیں، مثلا ایک وہ ہے جسے ’’ نوک جھونک‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بغیر کسی بڑے کی مدد کے خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کا انداز ہے کہ پہلی طرح کاجھگڑا ہے تو کوئی دخل انداز نہ کریں۔ دوسری طرح اگر جھگڑا بڑھتا جا رہا ہے تو والدین کو دخل اندازی دینی چاہیے اور سب بچوں کی بات غور سے سنیں اور شدید قسم کے جھگڑے پر 10 ، 20 منٹ کے لئے دونوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیں، بچوں کو اپنی اپنی جگہ پر مصروف رہنے کے لئے کوئی تجویز دے دیں یا کام پر لگا دیں، بچوں کی طرف دیکھ کر اکثر مسکرایا کریں

٭۔۔۔۔وضاحت کے ساتھ تعریف کرنے کے مواقع ڈھونڈتے رہیں ان کے ساتھ ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ کوئی کھیل بھی ضرور کھیلا کریں

٭۔۔۔۔بچوں کی تربیت میں عموماً ماں کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں اس لئے سب والدین اور گھر کے بڑے افراد سے میری اپیل ہے کہ میاں کے احترام اور مقام کا زیادہ خیال رکھیں، بات بات پر ماں پر تنقید نہ کریں، گھر کے سب بڑے ہر اچھے کام پر اپنے جیسے بڑوں کی تعریف کریں اور بچوں کے سامنے تنقید اور جھگڑا نہ کریں اسی میں سارے گھر اور معاشرے کا فائدہ ہے، بہترین معاشرہ اولاد کی، بچوں کی بہترین تربیت ہے۔

تحریر: شائستہ حسین ھاشمی

بشکریہ : https://www.newsurdu.ne


متعلقہ تحریریں :

نوزائیدہ بچوں کی فرسٹ ایڈ

ماں کا دودھ بچے کا حق اور اس کی صحت کا ضامن ہے