• صارفین کی تعداد :
  • 5782
  • 11/24/2008
  • تاريخ :

پاکستان میں دیہی خواتین کی حالت زار

دیہی خاتون

عورت بحیثیت مجموعی انسانیت کا نصف اور معاشرے کا وہ ناگزیر عنصر ہے جس کی گود قوموں کی پرورش کرتی ہے اور وہ پھلتی، پھولتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ حیات انسانی کا قیام و استحکام اور کائنات عالم کی رعنائی و زیبائی اسی کے وجود سے عبارت ہے۔ اسی لئے کہا گیا۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اس کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

 

مگر عصر حاضر میں عورت کی حیثیت اور مقام و مرتبہ کو جس قدر الجھا دیا گیا ہے اور فکری اضطراب اور عملی ہیجان و تصادم کا شکار کر دیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اس کی وجہ شاید ہر طبقہ میں عورت کی حیثیت کے بارے میں الگ الگ نظریہ اور اختلاف ہے۔ تجدد پسند گروہ اس نظریاتی اختلاف کی وجہ سے مسلسل تصادم اور عدم توازن میں گرفتار ہے۔

 

یہ بدیہی حقیقت ہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی ہر معاشرہ میں عورت کی بنیادی وابستگی اس کے خاندان اور اس کی عائلی زندگی رہی ہے لیکن جب کوئی مذہب یا معاشرہ کسی فرد کو کسی اجتماعی شعبہ سے وابستہ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ دوسرے تمام شعبہ ہائے حیات سے لاتعلق ہے کیونکہ معاشرے کے تمام شعبے ایک ہی حیات اجتماعی کے مختلف اجزاء ہیں جو آپس میں لازم و ملزوم اور باہم مربوط ہیں۔

 

ہر فرد کی ضروریات پورے معاشرے میں پھیلی ہوتی ہیں ان متنوع ضروریات کی تکمیل کی خاطر اسے تمام معاشرتی اداروں سے وابستہ ہونا پڑتا ہے۔ یہی حال عورت کا ہے کہ بنیادی طور پر عائلی زندگی کا مرکز و محور ہونے کے باوجود اسے دیگر معاشرتی و سماجی، اقتصادی و معاشی اور سیاسی و مذہبی شعبوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے حقوق نسواں کو دو حصوں عائلی اور اجتماعی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عائلی اور اجتماعی زندگی میں عورت چار حیثیتوں سے گزرتی ہے جس میں پہلے بیٹی، بہن اور پھر اسے بیوی اور ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔

 

اسلام کے نام پر حاصل کئے ملک عزیز پاکستان میں یہ صنف نازک اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی کے باوجود اپنے حقوق کے معاملے میں ہمیشہ نظر انداز ہوتی رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں اسے دو حصوں شہری اور دیہاتی عورت میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ شہری اور دیہی عورت کی یہ تقسیم بھی غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ ہے۔ ایک شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں ایک دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشرتی اور معاشی سہولیات اور ضروریات میسر نہیں ہیں۔ اکثر دیہاتوں اور قبیلوں میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

 

 ونّی جیسی قبیح رسم کے علاوہ نکاح کے معاملے میں جوانی اور بڑھاپے کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی جاتی۔ اجتماعی آبرو ریزی جیسے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے دکھائی دیتے ہیں جن میں سے بعض اشوز کو بعض نام نہاد NGO's میڈیا کے ذریعے ہائی لائٹ کرکے دنیا میں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں جن کی وجہ سے حقوق نسواں ایکٹ جیسے اسلام مخالف قوانین کو اسلام مخالف اسمبلیوں سے منظور کروایا جا چکا ہے جس کے خلاف شریعت ہونے پر پورے ملک کی مذہبی جماعتوں اور قانونی ماہرین کا اتفاق ہے۔

 

اسی طرح دیہاتوں میں نکاح کے موقع پر خواتین کے لئے شرعی حق مہر کے طور پر سوا بتّیس روپے کی اصطلاح زبان زد عام ہو چکی ہے جس کا شریعت اسلامیہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ اسلامی شعائر کی تضحیک کے مترادف ہے اس سے عورت کے مقام و مرتبہ کی تذلیل کی جاتی ہے۔ دیہاتی عورت کے مسائل میں سے معاشی مسئلہ سب سے اہم ہے، دیہاتوں اور گاؤں میں مردوں کے شانہ بشانہ کڑی اور تپتی دھوپ میں کام کرنے والی عورت کو آرام و آسائش اور اس کے بچوں کو تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات بالکل میسر نہیں۔

 

اکثر دیہاتی خاندان عورت کی تعلیم کے ہی مخالف ہیں اور رہی سہی کسر حکومت کی نام نہاد تعلیمی پالیسی اور عدم توجہ پورا کر دیتی ہے جس سے دیہاتوں کی اکثر خواتین تعلیم و تربیت کے زیور سے محروم رہتی ہیں اور ان کی تقدیر جاگیر دار اور وڈیرے کے رحم و کرم پر گروی رکھ دی جاتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پوری دنیا میں خواتین کے حقوق کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ ماہ لاہور میں بھی اپنے قیام کے دوران جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں ہزارہا افراد سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کو ان کے مقام و منصب کے مطابق حقوق کی منصفانہ ادائیگی اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اسوہ اہل بیت و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رہنمائی حاصل کرنے پر زور دیا۔

 

دیہی خواتین سمیت معاشرے کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق، کفالت اور سہولیات کی فراوانی حکومت کا اولین فرض ہے۔ حکومت وقت اگر پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور عوام کی خوشحالی اور غربت دور کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے تو ملک عزیز کے اطراف و اکناف میں موجود جہالت و ناخواندگی، ظلم و ناانصافی اور بنیادی حقوق کی پامالی کا جلد خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی کر کے اسے امانت اور دیانت داری کے ساتھ نافذ العمل کرنا ہوگا۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا ہوگا، سستے اور فوری انصاف کو آسان بنانا ہوگا، عورتوں کے وہ تمام شرعی حقوق مثلاً زمینوں اور جائیدادوں میں وراثت کا مکمل حق، مہر کی رقم کی مکمل ادائیگی، عورتوں پر جبر اور مار پیٹ جیسی جاہلانہ حرکت، بچیوں کی مرضی کے خلاف جبری شادیاں وغیرہ جیسے واقعات کی فوری روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ خواتین کے استحصال کی تمام شکلوں کا خاتمہ اور اس راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے ہم پاکستان کے اصل وقار کو بحال کرکے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

                     بشکریہ ماہنامہ دختران اسلام


متعلقہ تحریں :

 حقوق نسواں اور این جی اوز

آزادی نسواں کا مغربی تصور