• صارفین کی تعداد :
  • 4886
  • 7/21/2008
  • تاريخ :

حقوق نسواں اور این جی اوز

میزان

حقوق نسواں این جی اوز اور خواتین کے حقوق کی بحالی کے لئے سب سے پہلے عورتوں میں شعور اور اعلیٰ صلاحیتیں پیدا کرنے کے اقدامات کرتی ہیں اور ان اقدامات کے سلسلے میں مختلف سیمینارز، کانفرنسیں اور ورک شاپس کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان NGOs کی اعلیٰ کوششوں میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں۔

1۔ تربیتی اقدامات

خواتین کو مختلف بنیادی مہارتوں کی تربیت دلوائی جاتی ہے تاکہ ان میں نہ صرف قوت فیصلہ مضبوط ہوسکے بلکہ وہ معاشرے کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے کاموں میں حائل انتظامی رکاوٹوں کو دور کرنے میں بھی ان کی مسلسل مدد کرتی ہے۔

2۔ اقدامات برائے صحت

خواتین کی صحت کو اولین اہمیت دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صحت کے مراکز قائم کئے جاتے ہیں جہاں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ماں، بچے کی بہتر نگہداشت اور مناسب غذا کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کے فوائد سے آگاہ کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے خاص طور پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ٹریننگ دی جاتی ہے جو دیگر علاقوں میں اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔

3۔ تعلیم کا فروغ

تعلیم کے فروغ کے لئے مختلف پرائمری سکول، تعلیم بالغاں سینٹرز اور مختلف ٹیکنیکل ادارے قائم کئے جاتے ہیں تاکہ مجبور خواتین کو کم وقت میں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوسکیں۔ جدید طریقہ کار سے عورتوں کو ہنر سکھایا جاتا ہے جس میں گھریلو صنعتی دستکاری، سلائی، کڑھائی، مویشیوں کی افزائش اور ان کو پالنے کے طریقے شامل ہیں۔

این جی اوز کی سرگرمیاں اور معاشرتی کردار

مثبت کردار

این جی اوز کے وجود میں آنے سے اب تک جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ لوگوں کے شعور میں بیداری

2۔ ماس میڈیا اور تعلیمی اداروں میں عورتوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ

3۔ اسی طرح ٹی وی، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا میں عورتوں کا اضافہ

4۔ میڈیا سے وابستہ خواتین کا دوسری عورتوں کی پیشہ وارانہ رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا۔

5۔ میڈیا میں عورتوں کی اس شمولیت سے عورتوں کے مسائل کی کوریج میں اضافہ ہونا۔

6۔ پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو عورتوں کے بارے میں غلط رجحانات جیسے لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنا، لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دینا، عورتوں کو گھروں میں ہی بند رکھنا، ان پر تشدد، محنت پر اجرت کم ملنا وغیرہ سے آگاہ کیا جانا۔

این جی اوز کا منفی کردار

پاکستان میں کام کرنے والی اکثر این جی اوز اس اہم موقع پر منفی کردار ادا کررہی ہیں۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ میں جو کردار ان این جی اوز نے ادا کیا ہے اس سے ملک کی اور اسلام کی کچھ خدمت نہیں ہوئی بلکہ یوں کہیے کہ اس سے حقوق نسواں کا بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس رپورٹ اور جاری شور شرابے سے ہمارے دشمنوں کو مواقع اور ماحول مل گیا ہے جسے وہ کشمیر کے مقابلے کے علاوہ قرضوں کی معافی میں رکاوٹ کے لئے بھی استعمال کریں گے۔ جس سے پاکستان کی معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا۔

یقینا پوری دنیا کی طرح پاکستان میں خواتین کے کچھ مسائل خصوصی توجہ کے حامل ہیں جن پر توجہ دینی چاہئے لیکن مساوات مرد و زن کی نام لیوا کو ان معاملات کو عدالتوں میں لے جانے کا مشورہ دیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں جس سے پاکستان کی بھرپور بدنامی ہوتی ہے۔

(موسیٰ خان جلال زئی این جی اوز اور قومی سلامتی کے تقاضے ص 112)

حکومت کا کردار

دوسری طرف حکومت کو بھی فوری طور پر ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو تمام اہم اور ملکی مفاد کے لئے کام کرنے والے اداروں این جی اوز سے مل کر ان کی سفارشات لے اور ان کے قابل عمل ہونے میں موجودہ رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے نیز تمام انتظامی مشینری کو بھی موجودہ ضرورتوں سے آگاہ کیا جائے کہ کن لوگوں کو ٹی وی پر آنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور کن سے اجتناب کیا جاتا ہے تاکہ بیرونی دنیا میں ملک کی بدنامی کا موجب بننے والوں سے بچا جاسکے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا NGOs ہمارے حکمرانوں کی سزا ہے۔ آج مسلمان حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کوتاہیوں کی سزا پوری قوم کو اس طرح مل رہی ہے کہ سماجی خدمت کے نام پر غیر سرمایہ پر پلنے والی، غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہر دم کوشاں این جی اوز حقوق و آزادی نسواں کے پرکشش نعرے اور بائبل کارسپانڈس کورسز کے نام پر کام کررہی ہیں اور حکومت مکمل ’’شرح صدر اور یکسوئی‘‘ کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔

قصہ مختصر وہ لوگ جو واقعی انسانی حقوق اور انسانی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ ملکی اور مذہبی معاملات کو ملک کے اندر ہی حل کرنے کا فارمولہ ڈھونڈیں، حقوق نسواں اور تمام عوامی حقوق کے لئے شعور کی بیداری لازمی ہے یہ شعور تعلیم سے آتا ہے، مسائل خواہ کیسے ہی کہوں نہ ہو ان سب کے لئے شعور کی بیداری کی ضرورت ہے اور اس کے لئے حکومت کو اپنا مثبت و موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

تصویر کا دوسرا رخ

NGOs کا ملک میں سیلاب آ گیا ہے۔ یہ غیر ملکی یہودی اور عیسائی تنظیمیں ہیں جو این جی اوز کے ایجنڈے کے مطابق مسلم ممالک میں بڑی کثرت سے وارد ہورہی ہیں کچھ سرمایہ ان کو اقوام متحدہ سے ملتا ہے اور کچھ مقامی حکومتوں سے لیتی ہیں۔ یہ غیر ملکی سیکولر اور لبرل تہذیب، ملک میں پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ معاشرے میں رسوخ حاصل کر کے روشن خیالی کے نام پر لوگوں کو دین سے بیزار اور مادہ پرست بناتی جا رہی ہیں۔ اگر سیاسی این جی اوز کا کردار دیکھا جائے تو بظاہر تو ایسا خاص کام کرتی نظر نہیں آتیں بلکہ حکومت کے صحیح کاموں پر تنقید ان کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کے علاوہ آئی این جی اوز (International NGOs) کو عالمی بینک امداد فراہم کرتے ہیں۔

Nooki Suzuki نے اپنی کتاب میں NGOs کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ این جی اوز خواہ کسی بھی مقاصد کے لئے وجود میں آئیں انہیں فنڈز اسی وقت ملتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو مطلوبہ مقاصد کے لئے اہل ثابت کرتی ہیں فنڈز دینے والے ادارے خود بھی اہل افراد کو این جی اوز بنانے پر آمادہ کرتے ہیں اور حوصلہ افزائی کے طور پر دل کھول کر امداد دیتے ہیں۔ یہ فنڈز دینے والے ادارے ان سے کام کی رپورٹیں بھی مانگتے ہیں اور این جی اوز کی سرگرمیوں پر بھی ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔

                                                 تحریر: عافیہ سجاد


متعلقہ تحریریں:

 آزادی نسواں کا مغربی تصور