• صارفین کی تعداد :
  • 3970
  • 10/12/2008
  • تاريخ :

یوسف کی ساتویں،آٹھویں،نویں،دسویں آیات کی تفسیر

قرآن

 بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

رحمت عالم حضرت محمد مصطفی (ص) اور ان کے اہلبیت نجباء (ع) پر درود و سلام کے ساتھ قرآن کریم کی آسان و عام سلسلہ وار تفسیر پیام قرآن میں آج ہم اپنی گفتگو سورۂ یوسف کی ساتویں اور آٹھویں آیات کی تلاوت سے شروع کر رہے ہیں ۔ خدا فرماتا ہے :

 " لقد کان فی یوسف و اخوتہ ایات للسّائلین ؛ اذ قالوا لیوسف و اخوہ احبّ الی ابینا منّا و نحن عصبۃ انّ ابانا لفی ضلال مبین "

یقینا" یوسف اور ان کے بھائیوں کی داستان میں حقیقت کی جستجو میں رہنے والوں کے لئے ( ہدایت کی ) نشانیاں ہیں جس وقت کہ ان کے بھائیوں نے ( آپس میں ) کہا : یوسف اور ان کے ( حقیقی ) بھائی ( بنیامین ) کو ہمارے مقابلے میں بابا زیادہ چاہتے ہیں جبکہ ہم ( جماعت کے لحاظ سے ) ان سے زیادہ ، طاقتور ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے بابا صاف و صریحی غلطی پر ہیں ۔

 

عزیزان محترم ! ہم نے عرض کیا تھا ، قرآنی آیات کی روشنی میں ، حضرت یوسف (ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان جناب یوسف (ع) کے ایک خواب سے شروع ہوئی اور جناب یعقوب (ع) نے جناب یوسف (ع)  کے بلند مقام اور ایک روشن و تابناک مستقبل کے پیش نظر اس خواب کو کسی اور سے بیان کرنے کی ممانعت کر دی اور اپنے برگزیدہ بیٹے کو متوجہ کردیا کہ اس بلند و بالا منزل تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا اس کے لئے انہیں سخت و دشوار مراحل سے گزرنا ہو گا اب اس آیت میں واقعہ کو آگے بڑھانے سے پہلے قرآن نے اعلان کیا ہے کہ نشیب و فراز سے معمور حضرت یوسف (ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان میں حق و حقیقت کی جستجو میں رہنے والے سوالیوں کے لئے ہدایت و نصیحت کی بہت سی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو اللہ کی توحید و یکتائی پر دلالت کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ اللہ اپنے مخلص بندوں کا ولی و سرپرست ہے وہی ان کے امور کا محافظ اور عزت و کمال سے سر افراز کرنے والا ہے اگر بندۂ مخلص کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں تو بھی خدا اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتا جس منزل کمال تک پہنچانا ہوتا ہے پہنچا دیتا ہے ۔

 

بہرحال ، حضرت یوسف (ع) کے بھائیوں نے آپس میں کہا : یوسف (ع) اور ان کے حقیقی بھائي بنیامین سے ہمارے باپ یعقوب (ع) ہمارے مقابلے میں زيادہ محبت کرتے ہیں جبکہ ہم دس بھائی جو دوسری ماؤں سے ہیں ان سے بڑے ہیں اور جماعت اور مال و منال اور مویشی کے لحاظ سے ان سے زیادہ قوی ہیں اور گھر کے چلانے میں ہمارا زیادہ تعاون ہے اور ہم زیادہ محبت کے حقدار ہیں لہذا وہ  کہتے ہیں ہمارے باپ کھلی ہوئی غلطی پر ہیں یعنی بچوں کے حق میں ان کا طریقہ اور سلیقہ غلط ہے " لفی ضلال مبین " سے دینی اور مذہبی طور پر گمراہ ہونا مراد نہیں ہے کیونکہ بقول علامہ طباطبائی ( رح) حضرت یعقوب (ع) کے تمام بیٹے خدا پرست تھے اور نبیوں منجملہ اپنے باپ یعقوب (ع) کی نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور انہوں نے جناب یوسف (ع) کو باپ کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہی درمیان سے دور کیا تھا ۔

نویں آیت

اور اب سورۂ یوسف کی نویں آیت ، برادران یوسف (ع) کا قول نقل کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :

اقتلوا یوسف اواطرحوہ ارضا" یخل لکم وجہ ابیکم و تکونوا من بعدہ قوما" صالحین

[ یعنی یوسف (ع) کے بھائیوں میں سے ایک نے ،آپس میں کہا ) یوسف کو قتل کردو یا کسی دور دراز علاقے میں ڈال آؤ تاکہ باپ کی تمام تر توجہ صرف تمہیں حاصل ہو اور پھر ( توبہ کرکے) اچھی اور نیکوکار قوم کی طرح رہو ۔

عزیزان محترم ! حضرت یوسف (ع) کے بھائیوں کے درمیان چل رہی گفتگو کو قرآن نے نقل کیا ہے انہوں نے پہلے تو یوسف (ع) اور بنیامین کے ساتھ باپ کی حد سے سوا محبت پر اعتراض کرتے ہوئے ان کو " کھلی غلطی " کا مرتکب قراردیا پھر اس صورت حال سے نجات کے لئے ان میں سے ایک بھائی نے کہا کہ یوسف کو قتل کردیا جائے دوسرے نے کہا کہ نہیں ان کو باپ سے جدا کردیں اور کسی دور دراز علاقے میں چھوڑ آئیں کہ وہ باپ کے پاس پلٹ کر نہ آ سکیں آہستہ آہستہ بابا انہیں فراموش کردیں گے اور ہم سب بھی توبہ کرکے نیکوکاروں کی سی زندگی گزاریں گے ۔ گویا یوسف (ع) کو قتل کرنا یا باپ سے دور کردینا ان لوگوں کی نظر میں بھی گناہ تھا جبھی تو کہہ رہے تھے کہ بعد میں توبہ کرکے اچھے انسانوں کی طرح رہیں گے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا و رسول (ص) کے منکر نہیں تھے بھائی سے حسد کے تحت گناہ پر آمادہ تھے اور اس خیال خام میں مبتلا تھے کہ جان بوجھ کر گناہ کرکے بھی اگر توبہ کرلیں تو گناہ بخشا جا سکتا ہے ! جبکہ بعد مین توبہ کرلینے کی نیت سے کیا جانے والا گناہ ، خدا نہیں بخشتا ، کیونکہ اس صورت میں " توبہ " اخلاص کے ساتھ خدا کی طرف برگشت کے بجائے توبہ گناہ کی نیت کا جزء بن جاتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء کی سترہویں آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ ان ہی کی توبہ قبول کرتا ہے جو" یعملون السّوء بجہالۃ "  نادانی کے تحت کوئی برائی کا کام کر گزرتے ہیں اور گناہ کی طرف متوجہ ہوتے ہی توبہ کرلیتے ہیں اور اللہ ان کی توبہ قبول کرلیتا ہے ۔

اور اب سورۂ یوسف کی دسویں آیت :

قال قائل منہم لاتقتلوا یوسف والقوہ فی غیابت الجبّ یلتقطہ بعض السّیّارۃ ان کنتم فاعلین

ان میں سے ایک نے کہا : یوسف کو قتل نہ کرو اگر کچھ کرنا ہے تو ان کو کنویں کے اندر گہرائی میں ڈال دو کہ کوئی مسافر ان کو اپنے ساتھ لے جائے ۔

جناب یوسف (ع) سے حسد کرنے والے بھائیوں میں ہرطرح کے لوگ تھے کوئی شدید حسد کے تحت قتل کردینا چاہتا تو کوئی انہیں باپ کی نگاہوں سے اوجھل کردینا ہی کافی سمجھتا تھا چنانچہ ان میں سے ایک نے قتل کی مخالفت کرتے ہوئے جناب یوسف (ع) کو ایسے کوئیں میں چھوڑ دینے کی رائے دی جو راستے میں ہو کہ کوئی راہ گیران کو اپنے ساتھ لے جائے اور ہمارا ہاتھ بھائی کے خون میں آلودہ نہ ہو اور نہ ہی راہ سے دور کنویں میں پڑے رہنے سے ان کی جان کے لئے خطرہ پیش آئے ۔ چنانچہ اسی مشورے پر تمام بھائیوں نے اتفاق کرلیا اور حضرت یوسف (ع) کی جان بچ گئی

یہاں سامعین کے لئے ایک قابل توجہ بات یہ ہے جناب یوسف (ع) کے قتل سے متعلق ایک بھائی کی مخالفت اور مناسب توجیہہ کے سبب یوسف (ع) کی جان بچ گئی جو اہل دنیا کے لئے کس قدر با برکت ثابت ہوئی حضرت یوسف (ع) نے قحط کے زمانے میں ہزاروں انسانوں کی جان بچائی اسی طرح قرآن کے مطابق جناب آسیہ (ع)  نے فرعون کے ہاتھوں سے حضرت موسیٰ  (ع) کی جان بچائی جنہوں نے فرعون کے شر سے قوم بنی اسرائیل کو نجات عطا کی اور یہ دونوں قرآنی واقعات اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں ؛ " جس کسی نے ایک شخص کو زندہ کیا گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا " ۔

خلاصہ:

اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

 1۔ قرآن میں یوں تو بہت سے حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں مگر فائدہ ان ہی کو حاصل ہوتا ہے جو حقائق کی جستجو میں ہوں ورنہ حقائق دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں کھلتیں ۔

2۔ کینہ و حسد ممکن ہے انسان کو خود اپنے بھائی کی جان لینے پر تیار کردے اور یہ صرف حضرت یوسف (ع) اور ان کے بھائیوں کی داستان سے ہی نہیں جناب ہابیل (ع) اور ان کے بھائی قابیل کی داستان سے بھی ثابت ہے حسد کی بنا پر ہی قابیل نے اپنے بھائی حضرت ہابیل (ع)  کو قتل کرکے روئے زمین پر پہلا انسانی خون بہایا تھا ۔

3۔ اولاد کو اپنے والدین کی محبت چاہئے ہوتی ہے اور اس کا فقدان ان کے اندر محرومی کا جذبہ پیدا کردیتا ہے اور وہ خطاؤ گناہ پر اترآتے ہیں ۔

4۔ حتی والدین کی جانب سے خود اپنے بچوں کے درمیان امتیازی سلوک جلن اور حسد کا باعث بن سکتا ہے جس سے احتیاط ضروری ہے ۔

5۔ اگر کسی غلط اور ناپسند چیز کو پوری طرح ختم کرنے کا امکان نہ ہو تو بھی جس حد تک کام کی قباحت و برائی کو کم کرسکتے ہیں کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ممکن ہے یہ کوشش مفید واقع ہو جیسا کہ جناب یوسف (ع) کے تمام بھائی جس وقت انہیں قتل کر دینے یا آبادی سے دور کردینے پر تیار تھے ایک بھائی نے قتل کی مخالفت کی اور جناب یوسف (ع) کی جان بچ گئی جو قحط کے دوران ہزاروں انسانوں کی جان بچانے کا باعث بنی ۔

6۔ کسی غلط کام پر اکثریت کا متفق ہوجانا ، غلط کو صحیح نہیں کرسکتا ، اکثریت کی اصلاح حق پرست اقلیت کا فریضہ ہے ۔

                                                      اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

تفسیر سوره بقره

 قرآن اور مستشرقين

 قرآن کا تبلیغی انداز

 قرآن حکيم ميں قرآن کے بارے ميں بيان