• صارفین کی تعداد :
  • 3961
  • 10/11/2008
  • تاريخ :

سورۂ یوسف ( ع ) کی چوتھی،پانچویں،چھٹی  آیت

قرآن کریم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

سوره یوسف 6 ۔ 4

نبی رحمت حضرت محمد مصطفی (ص) اور ان کی آل پاک پر درود و سلام کے ساتھ آسان و عام فہم تفسیر قرآن کے سلسلہ وار پروگرام " پیام قرآن " میں آج ہم اپنی گفتگو سورۂ یوسف ( ع ) کی چوتھی آیت سے شروع کر رہے ہیں خدا فرماتا ہے :

" اذ قال یوسف لابیہ یا ابت انی رایت احد عشر کوکبا و الشّمس و القمر رایتھم لی ساجدین "

[ یعنی قوم سے یوسف (ع) کا قصہ کہہ دیجئے کہ ] جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا : اے بابا ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند میرے سامنے سجدہ کر رہے ہیں ۔

عزیزان محترم ! قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ان کے خواب کے ساتھ شروع ہوا ہے جس میں ان کو ایک درخشاں مستقبل کی خوش خبری سنائي گئی ہے پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں خواب تین طرح کے ہیں : ایک وہ خواب ہے جس میں خدا کی جانب سے کوئی بشارت دی جاتی ہے ، دوسری قسم کے وہ خواب ہیں جن میں شیطان غم و اندوہ کے ذریعہ ڈراتا ہے اور تیسری قسم کے وہ خواب ہیں جن میں انسان اپنی روزمرہ کی مشکلیں اور پریشانیاں خواب میں مجسم کرتا ہے اور وحشت کھاتا ہے ۔

 

 چنانچہ انبیاء ( علیہم السلام ) و اولیاء خدا کے خواب بھی سچائی رکھتے ہیں یعنی یا تو عین " وحی الہی " ہوتے ہیں جیسے حضرت ابراہیم (ع) نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسعیل (ع) کو ذبح کررہے ہیں یا پھر کسی ایسی حقیقت کے ترجمان ہوتے ہیں جو آئندہ رونما ہونے والی ہو جیسے حضرت یوسف (ع) کا یہی خواب کہ جس میں ایک ایسی خوش خبری سنائی گئی ہے کہ جس کا ظہور داستان کے آخری حصے میں ہوا ہے اور ان کے تمام گیارہ بھائیوں نے اور باپ اور ماں نے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے کہ جس کو جناب یوسف (ع) نے " اپنے خواب کی تاویل " قراردیا ہے یہاں ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ خداوند عالم نے جناب یوسف (ع) کی پیغمبرانہ حیات کے آغاز میں ہی خواب کے ذریعہ ان کا بلند مقام انہیں دکھا دیا تھا اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یوسف (ع) اپنا روشن مستقبل یعنی ان سے مخصوص الہی ولایت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو زندگی میں پیش آنے والے انقلابات کو آسانی سے تحمل کرلیں گے سختیاں ان کے پائے استقامت کو متزلزل نہیں کرسکیں گی ۔جی ہاں! یہ خدا کی حکمتوں میں سے ہے کہ وہ اپنے مخصوص بندوں کو ان کے درخشاں مستقبل اور مقام تقرب کی بشارت دے دیتا ہے اسی لئے سورۂ یونس ( ع) کی آیت چونسٹھ میں خدا فرماتا ہے " لہم البشری فی الحیاۃ الدنیا و فی الاخرۃ " یعنی مؤمن با تقوی کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی بشارت ہی بشارت ہے ۔

قرآن کریم

اور اب سورۂ یوسف ( ع) کی پانچویں آیت خدا فرماتا ہے :

قال یٰبنیّ لا تقصص رءیاک علی اخوتک فیکیدوالک کیدا" انّ الشّیطان للانسان عدوّ مبین "

[ یعنی جناب یوسف (ع) کے والد جناب یعقوب (ع) نے ] کہا : اے بیٹے ! اپنا خواب بھائیوں سے بیان نہ کرنا کہ وہ تمہارے خلاف فریب کا جال بچھائیں ، یقینا" شیطان ،انسان کا کھلا دشمن ہے ۔

عزیزان محترم ! جناب یوسف (ع) کے والد حضرت یعقوب (ع) بھی اللہ کے نبی تھے لہذا جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے خواب سن کر وہ سمجھ گئے کہ اللہ نے یوسف (ع) کو ایک عظیم کام کے لئے منتخب قراردیا ہے اور وہ ایک دن سلطنت پر فائز ہوں گے اور چونکہ وہ اپنے بچوں میں سب سے زیادہ یوسف (ع) کو ہی عزيز رکھتے تھے جانتے تھے کہ یہ بات ان کے بھائیوں کو ناگوار گزرتی ہے یوسف (ع) کے خواب میں گیارہ ستاروں کی بات صاف طور پر ان کے گیارہ بھائیوں کی طرف اشارہ تھی جو ان کے بھائي ضرور سمجھ لیتے اس لئے کہیں یہ چیز بھائیوں کے دل میں یوسف (ع) کے لئے کینہ و حسد نہ پیدا کردے باپ نے بیٹے کو بڑی شفقت کے ساتھ سمجھایا کہ وہ اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بھی بیان نہ کریں اور پھر خواب کی تعبیر کے طور پر الہی لطف و کرامت کی انہیں بشارت دی تا کہ جناب یوسف (ع) ایک بڑی ذمہ داری کے لئے خود کو تیار کرلیں ۔

 

جناب یعقوب (ع) کی احتیاط اور بیٹے کو بھی احتیاط کی تاکید کا ذکر کرنے کے بعد آیت نے مجموعی طور پر ایک بھائی کی ترقی و کامرانی دیکھ کر دوسرے بھائیوں کے دلوں میں  عشق و محبت کی درونی رقابت سے قطع نظر کینہ و حسد کی ایک بیرونی وجہ بھی بیان کردی ہے جو باہمی رقابت کو ہوا دے کر کینہ و دشمنی میں تبدیل کردیتی ہے اور اس وجہ کا نام شیطان ہے جو باوا آدم (ع) کے وقت سے ہی انسان کا کھلا دشمن ہے اور وسوسے پیدا کرکے ایک کو دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے سیدھی راہ ٹیڑھی نظر آنے لگتی ہے اور آدمی منحرف و گمراہ ہو جاتا ہے ۔اس آیت کے پیش نظر والدین کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں اپنے بچوں کے درمیان بیجا امتیاز یا ایک کے سامنے دوسرے کی برائی اور دل آزادی ، باہمی حسد اور جلن کا باعث نہ بننے پائے حتی علم و فن کے میدان میں بھی مسئلے کی حساسیت کو مد نظر رکھنا چاہئے اور اگر کسی وجہ سے کسی بچے کو کوئی امتیاز حاصل ہو تو اس کے اظہار میں دوسرے بھائیوں کی انا کو ٹھیس نہ لگنے کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے جیسا کہ جناب یعقوب (ع) نے جناب یوسف (ع) کو سمجھایا تھا کہ وہ اپنا خواب دوسرے بھائیوں سے بیان نہ کریں ۔

 

اور اب سورۂ یوسف کی چھٹی آیت خدا فرماتا ہے :

" و کذالک یجتبیک ربک و یعلمک من تاویل الاحادیث ویتم نعمتہ علیک و علی ال یعقوب کما اتمہا علی ابویک من قبل ابراہیم و اسحاق ان ربک علیم حکیم ۔"

اور [ جناب یعقوب (ع) بیٹے سے کہتے ہیں ] جیسا کہ تم نے خواب دیکھا ہے تمہارے پروردگار نے تم کو ( اپنے مخلص بندوں میں شامل کرکے اپنی نبوت کے لئے ) منتخب کرلیا ہے اور تم کو واقعات کی تاویل  ( یعنی خواب و بیداری کے حقائق  ) سے آگاہ کردیا ہے اور اپنی نعمتیں ( یعنی الہی ولایت ) تم پر اور خاندان یعقوب (ع) پر اسی طرح تمام کرے گا کہ جیسے اس سے پہلے تمہارے باپ ( دادا) ابراہیم و اسحاق پر تمام کی ہے بیشک تمہارا پروردگار بڑا ہی دانا اور حکمت والا ہے ۔

 

عزیزان گرامی ! بظاہر حضرت یعقوب (ع) کی طرف سے یہ پیشین گوئیاں علم غیب کی بنیاد پر ہیں جو خداوند عالم اپنے نبیوں اور ولیوں کو عطا کرتا ہے اور جناب یوسف (ع) کے خواب سے بھی اس خیال کو تقویت حاصل ہوتی ہے چنانچہ جناب یعقوب ( ع)  بیٹے سے کہتے ہیں کہ تمہارے خواب کے مطابق اللہ نے تم کو اپنے مخصوص بندوں میں شامل کرلیا ہے اور تم کو تاویل یعنی وہ حقیقت جو ظاہر کے پردہ میں پوشیدہ ہے ،تعلیم دی ہے اور الہی نعمت یعنی ولایت تم کو عطا ہوگی مصر میں تم کو اور تمہارے خاندان کو ملک و عزت حاصل ہوگی کیونکہ اللہ بندوں کے حال سے آگاہ ہے اور حکمت و تدبیر کا مالک ہے ظاہر ہے جناب یعقوب (ع) کی یہ تمام گفتگو الہی علم کے تحت تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی خدا کے مخلصین میں تھے اور انہیں بھی تاویل کا علم تھا ۔

 

اور اب آخر میں زير بحث آیات سے ہم کو جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

1۔ اللہ اپنے مخلص بندوں کو عالم خواب میں بھی حقائق سے آگاہ کرتا ہے اور نبیوں کا خواب سچا ہوتا ہے ۔

2۔ ماں باپ کو اپنے بچوں سے عشق و محبت کی بنیاد پر اپنے رشتے کو مستحکم کرنا چاہئے تا کہ بچے ان پر اعتماد کریں اور اپنی کوئی بات ان سے چھپانے کی کوشش نہ کریں ۔

3۔ بچوں کے درمیان امتیاز ،بھائیوں اور بہنوں کے درمیان آپس میں رقابت اور کینہ و حسد کا باعث نہ بننے پائے  ۔والدین کوشش کریں کہ آغوش میں " برادران یوسف " کے بجائے عباس ( ع) اور حسین  ( ع) جیسے بھائی تربیت کریں ۔

4۔ خواب کی باتیں ، ہر ایک سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ممکن ہے کہیں خواب فتنہ انگیز بن جائے ۔

5۔ خداوند عالم انسانوں کے درمیان سے اپنے بہترین بندوں کو منتخب کرتا اور نبوت و رسالت عطا کرتا ہے اور علم و حکمت اور ولایت و حکومت سے نوازتا ہے ۔

6۔ اپنے خاندان میں امامت و ولایت کی برقراری سے متعلق حضرت ابراہیم (ع) کی دعا خدا نے قبول کرلی اور ان کی نسل میں اسحاق ( ع) اور اسمعیل ( ع) اور دونوں کی اولاد میں خدا نے اپنی نبوت و رسالت اور امامت قیامت تک کے لئے قراردے دی ۔

                             اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

 تفسیر سوره بقره

 تفسیر سوره بقره

 تفسیر سوره بقره

 دعوت مطالعہ

فہم قرآن کے لۓ چند شرائط