• صارفین کی تعداد :
  • 1269
  • 10/20/2014
  • تاريخ :

کيا داعش واقعي ايک سني گروہ ہے؟

کیا داعش واقعی ایک سنی گروہ ہے؟

مغربي ذرائع ابلاغ کي جانب سے عراق کے علاقے موصل پر داعش کے تکفيري دہشت گردوں کے حملوں اور قبضے کے بعد اس طرح کي شہ سرخياں چلائي گئيں ، ملاحظہ کريں،

سني جہادي گروہ نے موصل پر قبضہ کر ليا-سني جہاديوں نے عراق کے شمال کو اپنے تسلط ميں لے ليا،-

مغربي ذرائع ابلاغ اور ان کے زر خريد عرب ذرائع ابلاغ نے عراق ميں تکفيري دہشت گردوں کے حملوں کو سني مسلمانوں جہاديوں کا حملہ قرار ديا اور اس بات کو پھيلانے کي کوشش کي کہ عراق ميں شيعہ اور سني مسلمانوں کے درميان کوئي جنگ شروع ہو چکي ہے-واضح رہے کہ جس دہشت گرد گروہ کو سني مسلم گروہ قرار ديا جا رہا ہے اس کا نام داعش ہے اور وہ القاعدہ کا باغي گروہ ہے جو آپس ميں چند ہزار ڈالروں کي تقسيم کے معاملے پر ايک دوسرے سے جدا ہو گيا ہے-ليکن سوال پھر يہي پيداہوتا ہے کہ کيا واقعي داعش سني عقيدہ مسلمان گروہ کا نام ہے؟بہت سے ماہرين سياسيات کا خيال ہے کہ نہيں ايسا نہيں ہے ليکن اس گروہ پر کئي ايک سواليہ نشان موجود ہيں کيونکہ يہ گروہ خود کو اسلامي گروہ کہتا ہے ليکن در اصل اس کي حرکات اور کاروائياں دہشت گرد ي پر انحصار کرتي ہيں-

داعش کون ہے؟ کيا ہے؟ اس بارے ميں مختصر تاريخ ملاحظہ فرمائيں:

داعش: (دولۃ الاسلاميہ في العراق والشاما)

عرب تکفيري دہشت گردوں پر مشتمل يہ گروہ \"دولہ الاسلاميہ في العراق و الشام\" يا "داعش" کے نام سے معروف ہے- اس دہشت گروہ نے شام اور عراق ميں خلافت کے نظام پر مبني اسلامي حکومت تشکيل دينے کو اپنا مشن بيان کر رکھا ہے- اس گروہ کي زيادہ تر سرگرمياں انہيں دو اسلامي ممالک يعني عراق اور شام ميں مرکوز ہيں- داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادي کے نام سے جانا جاتا ہے-

داعش کي تشکيل:

15اکتوبر2006ء کو عراق ميں سرگرم بعض تکفيري دہشت گرد گروہوں نے آپس ميں اتحاد قائم کيا جس کا نام "دولہ الاسلاميہ في العراق" رکھا گيا اور ابو عمر البغدادي کو اس کے سربراہ کے طور پر متعين کيا گيا- يہ دہشت گرد گروہ 2006 ء ميں اپني تشکيل سے لے کر آج تک بے شمار دہشت گردانہ اقدامات کي ذمہ داري قبول کر چکا ہے- 19 اپريل2010ء کو ابو عمر البغدادي کي ہلاکت کے بعد ابوبکر البغدادي کو اس گروہ کے نئے سربراہ کے طور پر پيش کيا گيا- ابوبکر البغدادي کے سربراہ بننے کے بعد اس گروہ کي جانب سے عراق ميں دہشت گردانہ کاروائيوں ميں انتہائي تيزي آ گئي اور جب2011ء ميں شام ميں سياسي بحران رونما ہوا تو اس گروہ سے وابستہ تکفيري دہشت گرد بڑي تعداد ميں شام پہنچنا شروع ہو گئے اور اس طرح شام ميں بھي اس گروہ کي دہشت گردانہ سرگرميوں کا آغاز ہو گيا-


متعلقہ تحریریں:

داعش کي سرگرميوں کي روک تھام

داعش کے خلاف عالمي اتحاد