• صارفین کی تعداد :
  • 2712
  • 11/13/2013
  • تاريخ :

کربلا ميں جحت حق کي جانب سے اتمام جحت

امام حسین (ع) کی لازوال تحریک

 فرزندرسولخدا (ص) سيدالشہدا حضرت امام حسين عليہ السلام نےلشکر حر اور اسي طرح روز عاشورا اپنے اعوان وانصار اور دشمن کي فوج کے سامنے جو خطبے ديئے اس کے بعض اقتباسات کا ذکر کريں گے - 

  لوگوں ميں علم و آگہي پيدا کرنا اورغافل انسانوں پر حجت تمام کرنا ، امام حسين (ع) کا وہ شيوہ تھا جس پر آپ نے ہر جگہ اور ہر مناسب موقع پر استفادہ کيا - چنانچہ امام (ع) جب حر کے لشکر ميں شامل ہزاروں سپاہيوں کے محاصرے ميں تھے اور جب خطرے کا نزديک سے مشاہدہ کيا تو آپ نے ان کو موعظہ اور نصيحت کرنے کے لئے مناسب موقع جانا - امام حسين (ع) کے فصيح و بليغ خطبات،  شکوک وشبہات رفع کرنے کا ايک موقع ہيں اور اگر دل اسے قبول کرنے پر آمادہ ہے تو اس سے ضرور اثر قبول کرے گا - حضرت امام حسين (ع) اپنے خطبے کا آغاز،  اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا (ص) کي ايک حديث سے فرماتے ہيں -

 اے لوگو پيغمبر خدا (ص) نے فرمايا ہے ، ہر وہ مسلمان جو ايسے منھ زور سلطان يا بادشاہ کے بالمقابل قرار پاجائےجو حرام خدا کو حلال کرے اور عہد الہي کو توڑے اور قانون و سنت پيغمبر کي مخالفت کرے اور بندگان خدا کے درميان معصيت کو رواج دے ، ليکن اس کے رويے اور طرز عمل کا مقابلہ نہ کرے تو خداوند عالم پر واجب ہےکہ اسے بھي اس طاغوتي بادشاہ کے ساتھ جہنم کے شعلوں ميں ڈھکيل دے - اے لوگوں آگاہ ہوجاۆ کہ بني اميہ نے اطاعت پروردگار چھوڑکر اپنےاوپر شيطان کي پيروي واجب کر لي ہے انہوں نے فساد اور تباہي کو رواج ديا ہے اور حدود و قوانين الہي کو دگرگوں کيا ہے اور ميں ان بد خواہوں اور دين کو نابود کرنے والوں کے مقابلے ميں مسلمان معاشرے کي قيادت کا زيادہ حق رکھتا ہوں اس کے علاوہ تمہارے جو خطوط ہميں موصول ہوئے وہ اس بات کے آئينہ دار ہيں کہ تم نے ميري بيعت کي ہے اور مجھ سے عہدو پيمان کيا ہے کہ مجھے دشمن کے مقابلے ميں تنھا نہيں چھوڑوگے - اب اگر تم اپنے اس عہد پر قائم اور وفادار ہوتو تم رستگار وکامياب ہو- ميں حسين بن علي (ع) تمہارے رسول کي بيٹي فاطمہ زہرا کادلبند ہوں - ميرا وجود مسلمانوں کے  وجود سے جڑا ہوا ہے اور تمہارے بچے اور اہل خانہ،  ہمارے بچوں اور گھر کے افراد کي مانند ہيں - ميں تمہارا ہادي و پيشوا ہوں ليکن اگر تم ايسا نہ کرو اور اپنا عہدو پيمان توڑ دو اور اپني بيعت پر قائم نہ رہو جيسا کہ تم ماضي ميں بھي کرچکے ہو اور اس سے قبل تم نے ہمارے بابا ، بھائي اور چچازاد بھائي مسلم کے ساتھ بھي ايسا ہي کيا ہے - --- تم وہ لوگ ہو جو  نصيب کے مارے ہو اور خود کو تباہ کرليا ہے اور تم ميں سے جو کوئي بھي عہد شکني کرے اس نے خود اپنا ہي نقصان کيا ہے اور اميد ہے کہ خداوند عالم مجھے تم لوگوں سے بے نياز کردے گا -

 امام حسين بن علي (ع) کا يہي وہ خطبہ تھا، جسے امام (ع) نے، حر اور ا سکے لشکر کے سپاہيوں کے سامنے ، کہ جس نے امام کا راستہ روک ديا تھا،  اتمام حجت کے لئے اور ان کو حق کي جانب بلانے کے لئے ارشاد فرمايا تھا -اس  خطبے کي چند خصوصيات قابل ذکر ہيں -اموي نظام حکومت کي خصوصيات بيان کرنے کے لئے پيغمبر خدا (ص) کے اقوال کا ذکر، امام کي عظمت و منزلت کا بيان ،اپنے قيام اور تحريک کے علل واسباب کا ذکر اورمعاشرے کے افراد کے ساتھ امام کے رابطے کي نوعيت اور اس تحريک کے روشن افق کو بيان کرنا اس خطبے ميں پيش کئے جانے والے موضوعات ہيں - 

  امام حسين (ع) کا قافلہ، ماہ محرم کي دوسري تاريخ کو کربلا ميں وارد ہوتا ہے - اس سرزمين پر امام (ع) اور ان کے خاندان اور اصحاب باوفا کے لئے حالات مزيد سخت ودشوار ہوجاتے ہيں دشمن امام (‏ع) اور ان کے بچوں پر پاني بند کرديتے ہيں تاکہ شايد امام اور ان کے ہمراہ اصحاب ، اپني استقامت کھو بيٹھيں اور ان کے سامنے تسليم ہوجائيں ليکن ايسے حالات ميں کربلا والوں نے ايثار وفداکاري کا ايسا اعلي ترين نمونہ پيش کيا جو رہتي دنيا تک کے لئے نمونۂ عمل بن گيا -

   امام (‏ع) اچھي طرح جانتےتھے کہ ميدان جنگ ميں بڑے اور عظيم حادثوں کا متحمل ہونے کے لئے عظيم قوت برداشت کي ضرورت ہے - اسي بناء پر ہر مقام پر اور ہر وقت اپنے ساتھيوں کو ايمان اور يقين کي بنياديں مستحکم ہونے کي تلقين فرماتے تھے اورشب عاشور ، اصحاب و انصار نے خود کوامام پر قربان کرنے کے لئے آمادہ کرليا تھا- شب عاشور ايسے اضطراب کي شب تھي جس کي مثال نہيں ملتي - اس شب امام حسين (‏ع) نے اپنے اصحاب کوبلايا اور واضح طور پران سے کہا کہ ہماري شہادت کا وقت نزديک ہے اورميں تم پر سے اپني بيعت اٹھائے ليتا ہوں لہذا تم رات کي تاريکي سے استفادہ کرو اور تم ميں سے جو بھي کل عاشور کے دن جنگ ميں ہمارا ساتھ نہيں دے سکتا اس کے لئے اپنے گھر اور وطن لوٹ جانے کا راستہ کھلا ہوا ہے - يہ تجويز درحقيقت امام حسين (ع) کي جانب سے آخري آزمائش تھي - اور اس آزمائش کا نتيجہ،  امام کے ساتھيوں ميں جنگ ميں شرکت کے لئے جوش وجذبے ميں شدت اور حدت کا سبب بنا اور سب نے امام (ع) سے اپني وفاداري کا اعلان کيا اور کہا کہ خون کے آخري قطرے تک وہ استقامت کريں گے اور آپ کے ساتھ رہيں گے، اوراس طرح سے اس آزمائش ميں سرافراز و  کامياب ہوں گے-

عاشور کي صبح آئي تو امام (ع) نے نماز صبح کے بعد اپنے اصحاب کے سامنے عظيم خطبہ ديا ايسا خطبہ جو ان کي استقامت اور صبر کا آئينہ دار تھا امام (ع) نے فرمايا اے بزرگ زادوں ، صابر اور پر عزم بنو - موت انسان کے لئے ايک پل اور گذرگاہ سے زيادہ کچھ نہيں ہے کہ جو رنج و مصيبت سے انسان کورہائي دلاکرجنت کي جاوداں اور دائمي نعمتوں کي جانب لے جاتي ہے - تم ميں سے کون يہ نہيں پسند کرے گا کہ جيل سے رہائي پاکر محل اور قصر ميں پہنچ جائے جب کہ يہي موت تمہارے دشمن کے لئے قصر اور محل سے جہنم ميں جانے کا باعث بنے گي - اس عقيدے کي جڑ خدا پر اعتماد اور يقين ہے اور يہ چيز صبر اور استقامت کے نتيجے ميں حاصل ہوتي ہے - پھرامام (ع) نے اپنے لشکر کو ترتيب ديا اور پھر تيکھي نظروں سے دشمن کے بھاري لشکر کو ديکھا اور اپنا سر خدا سے رازو نياز کے لئے اٹھايا اور فرمايا " خدايا مصائب و آلام اور سختيوں ميں ميرا ملجا اور پناہگاہ توہي ہے ميں تجھ پر ہي اعتماد کرتا ہوں اور برے اور بدترين و سخت ترين حالات ميں ميري اميد کا مرکز توہي ہے - ان سخت و دشوار حالات ميں صرف تجھ ہي سے شکوہ کرسکتا ہوں تو ہي ميري مدد کر اور ميرے غم کو زائل کردے اور آرام و سکون عطا کر -  صبح عاشور کي جانے امام (ع) کي اس دعا ميں ، تمام تر صبر و استقامت کا محور خدا پر يقين و اعتمادہے بيشک خدا پر يقين اوراعتماد ، سختيوں کو آسان اور مصائب و آلام ميں صبر و تحمل کي قوت عطا کرتا ہے -

حضرت امام حسين بن علي (ع) يہ ديکھ رہے تھے کہ دشمن پوري قوت سے جنگ کےلئے آمادہ ہے يہاں تک کہ بچوں تک پاني پہنچنے پر بھي روک لگارہا ہے اور اس بات کا منتظرہے کہ ايک ادني سا اشارہ ملے تو حملے کا آ‏‏غاز کردے - ايسے حالات ميں امام (ع) نہ صرف جنگ کا آ‏غازکرنا نہيں چاہتے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے دشمن کي سپاہ کو وعظ و نصيحت کريں تاکہ ايک طرف وہ حق و فضيلت کي راہ کو باطل سے تشخيص دے سکيں تو دوسري طرف کہيں ايسا نہ ہو کہ ان کے درميان کوئي نادانستہ طورپر امام کا خون بہانے ميں شريک ہوجائے اور حقيقت سے آگاہي اور توجہ کے بغير تباہي اور بدبختي کا شکار ہوجائے - اسي بناء پر امام حسين (ع)  اپنے لشکرکو منظم کرنے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوئے اور خيموں سے کچھ فاصلے پر چلے گئے اور انتہائي واضح الفاظ ميں عمر سعد کے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے فرمايا - اے لوگوں ميري باتيں سنو اور جنگ و خون ريزي ميں عجلت سے کام نہ لو تاکہ ميں اپني ذمہ داري کو يعني تم کو وعظ ونصيحت کرسکوں اور اپنے کربلا آنے کا تمہيں سبب بتادوں اگر تم نے ميري بات قبول نہيں کي اور ميرے ساتھ انصاف کا راستہ اختيار نہيں کيا تو پھر تم سب ہاتھ ميں ہاتھ دے کر اپني باطل فکر اور فيصلے پر عمل کرو اور پھر مجھے کوئي مہلت نہ دو ليکن بہرحال تم پر حق مخفي نہ رہ جائے - ميرا حامي و محافظ وہي خدا ہے کہ جس نے قرآن کو نازل کيا اور وہي بہترين مددگار ہے -

يہ ہے ايک امام اور خدا کے نمائندے کي محبت و مہرباني کہ جواپنے خونخوار دشمن کے مقابلےميں، حساس ترين حالات ميں بھي انہيں دعوت حق دينے سے دستبردار نہيں ہوئے -  امام (ع) نے  روزعاشورا باوجوديکہ موقع نہيں تھا تاہم لوگوں کو وعظ ونصيحت کي اور اپنے راہنما ارشادات سے لوگوں کو حق سے آگاہ فرماتے رہے اور يہ کام آپ  پيہم انجام دے رہے تاکہ شايد دشمن راہ راست پر آجائيں - امام (ع) اپنے خطبے ميں لشکر عمر سعدکو يہ بتاتے ہيں کہ کوفے اور عمر سعد کے لشکر کے افراد يہ نہ سوچ ليں کہ ميں ان خطبوں اور وعظ و نصيحت کے ذريعے کسي ساز باز يا سمجھوتے کي بات  کررہا ہوں - نہيں- ميرا ہدف ومقصد ان خطبوں اور بيانات سے يہ ہےکہ ميں تم پر حجت تمام کردوں اور کچھ ايسے حقائق اور مسائل ہيں کہ جنہيں امام کے لئے منصب امامت اور ہدايت و رہبري کے فرائض کے سبب لوگوں کو آگاہ کرنا اور انہيں ان سے باخبر کردينا ضروري تھا -    

 


متعلقہ تحریریں:

 کربلا حيات بخش کيوں ہے ؟

واقع کربلا کے موقع پر رونما ہونے والے واقعات کا خاکہ