• صارفین کی تعداد :
  • 703
  • 7/9/2013
  • تاريخ :

مصر کا غيريقيني مستقبل

مصر کا غیریقینی مستقبل

مصر ميں سياسي غيريقيني (حصّہ اوّن)

مصر ميں سياسي غيريقيني (حصّہ دوّم)

مصر ميں ايک خاص طبقے سے صدر مرسي کے خلاف محاذ آرائي کي اور عالمي سامراج کي مدد سے  اس کي حکومت کا خاتمہ کرنے ميں يہ لوگ کامياب ہو گۓ - مصر کے سرمايہ داروں، کاروباري حضرات، فوج، عدليہ اور بيورو کريسي نے مل کر صدر مرسي کي حکومت کو ختم کر ديا ہے- ان پر الزام ہے کہ انہوں کے مصر کے معاشي حالات کو خراب کر ديا، ٹورازم کي انڈسٹري کو تباہ کر ديا، عالمي ادارے مصر کو قرضے نہيں دے رہے ہيں مگر غريبوں کيلئے صدر مرسي کي حکومت نے گندم کي ريکارڈ پيداوار حاصل کي اور اقوام متحدہ کے ادارہ فوڈ پروگرام نے مصر کي حکومت کو خصوصي شيلڈ دي اور آفر کي کہ اگر مصر يہ فالتو گندم کسي غريب ملک کو دينا چاہے تو اقوام متحدہ اس کي نقل و حمل کے اخراجات برداشت کريگا جبکہ اسکے برعکس سرمايہ دار ملک امريکہ، برطانيہ، آسٹريليا فالتو گندم دريا بُرد کر ديتے ہيں تاکہ عالمي منڈي ميں ان کي گندم کي طلب برقرار رہے-

اگرچہ صدر مرسي نے سياسي ناتجربہ کاري کي بنياد پر لازماً کچھ غلطياں کيں، صدارتي حکم کے تحت پورے ملک پر مرضي کا آئين نافذ کرنے کي کوشش کي اور جب اس ميں ناکامي ہوفي تو يہ آئين ريفرنڈم کے ذريعے منظور کرا ليا اور مخلوط حکومت ميں شامل دوسري جماعتوں کے وزراء کو اپنے اقدامات کے سلسلے ميں اعتماد ميں نہ ليا جس سے وہ سياسي تنہائي کا شکار ہوتے چلے گئے اور ان کے مخالفين نے احتجاجي مظاہرے شروع کر دئيے- يہ مصر کي بدقسمتي ہے کہ حسني مبارک جيسے آمر کو 28 سال دينے والوں نے اخوان المسلمون کي جمہوري حکومت کو ايک سال بھي دينا گوارا نہ کيا تو پھر کہاں کا عرب سپرنگ اور جمہوري انقلاب- لگتا ہے مشرق وسطيٰ ميں عرب سپرنگ محض عوام کے جذبات کے کتھارسس کا ايک ذريعہ تھا وگرنہ عالمي سرمايہ دارانہ نظام کے گماشتے وہ ممالک جہاں انکے سياسي، سٹرٹيجک اور معاشي مفادات ہوتے ہيں وہاں آزادانہ جمہوري نظام کے تحت منتخب عوامي ليڈروں کو قطعاً برداشت نہيں کرتے ہيں-

اگرچہ مرسي کا تختہ الٹ ديا گيا اور مخالفين کے مطالبات پورے ہوگئے اور فوجي بر سر اقتدار آ گئے ہيں ليکن مصر ميں بدستور بحران اورکشيدگي برقرار ہے- مصر کے مختلف شہروں بالخصوص قاھرہ ميں لاکھوں افراد مظاہرہ کررہے ہيں، مرسي کے حامي سڑکوں پرنکل کر فوجي بغاوت پراحتجاج کر رہے ہيں - حالات کو ديکھتے ہوئے فوج نے صوبہ سوئزاور جنوبي سينا ميں ہنگامي حالت کا اعلان کر ديا ہے جبکہ مصر کے عبوري صدر عدلي منصور نے پارليمنٹ کو تحليل کر ديا ہے- يہ سب کچہ ايسے عالم ميں ہو رہا ہے کہ اخوان المسلمين جو انتخابات ميں کاميابي کےنتيجے ميں گذشتہ ايک برس سے مصر پر حکومت کر رہي تھي ، فوجي بغاوت کے خلاف مظاہرے کر رہي ہے-

اگرچہ اخوان المسلمين نے اعلان کيا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کے حصول کے لئے تشدد سے کام نہيں لے گي ليکن ايسا نظر آتا ہے کہ مصر ميں انتقامي ماحول ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت اخوان المسلمين کے اراکين کي بڑے پيمانے پر گرفتاري کي لہر ہے-

اس ميں کوئي شک نہيں کہ اخوان المسلمين جس نے دو ہزار گيارہ کے انتخابات ميں کاميابي کے بعد ايک تاريخي موقع حاصل کيا تھا، آساني سے چھوڑنا نہيں چاہتي -

اخوان المسلمين،گذشتہ برسوں ميں اپنے خيراتي کاموں اور عام خدمات  کے باعث معاشرے کے پسماندہ طبقے ميں کافي مقبول ہے لہذا اس ميں سماج کے بڑے طبقے کو  فوجيوں کےخلاف منظم کرنےکي صلاحيت موجود ہے-

اخوان المسلمين نے اعلان کيا ہے کہ بغاوت کےذريعے اقتدارميں آنے والي حکومت کے ساتھ تعاون نہيں کرے گي -اخوان المسلمين کي نظر ميں فوج نے اقتدار پرغاصبانہ قبضہ کيا ہے- ليکن مصر ميں تشويش کي سب سے بڑي بات يہ ہے کہ فوج نے اخوان المسلمين کے تين سو رہنماۆں کي گرفتاري کا فرمان جاري کرديا ہے ، پير کے دن مرسي اور ان کے بعض مشيروں پر مقدمہ بھي چلايا جانے والا ہے-

جبکہ مصرميں مرسي کےحاميوں اورمخالفين کے درميان جاري جھڑپوں ميں مرنے والوں کي تعداد بڑھتي جا رہي ہے-رپورٹوں کے مطابق سنيچر کي صبح تک تيس افراد ہلاک اور ايک ہزار سے زيادہ زخمي ہو چکے تھے جبکہ پورے ملک  پر غيريقيني صورت حال چھائي ہوئي ہے-

اسلام پسند اورليبرل ايک دوسرے کے مد مقابل آ گئے ہيں اور فوج ايک بار پھر پوري طاقت کے ساتھ ميدان ميں آ گئي ہے-

مصر ميں تمام معاشي اور دفتري سرگرمياں معطل ہيں  سفارتخانوں کے سفارت کار اور کارکن مصر سے جا چکے ہيں اس ملک ميں ايک بار پھرانقلابي ماحول پيدا ہوگيا ہے-

تمام شواہد سے يہي ثابت ہوتا ہے کہ مصرخطرناک راستے پر چل پڑا  ہے - اگرچہ مصري فوج نے سياست اور ملک چلانے کے پرانے تجربے کے پيش نظر قومي آشتي کي اپيل کي ہے ليکن فوجي بغاوت سے پہلے قانوني راستوں سے ميدان سياست ميں آنے والي پارٹيوں نے فوجيوں کي اپيل کو موقع پرستي سےتعبيرکيا ہے-

اخوان المسلمين کے رہنما محمد بديع نے فوج کے اقدام پراپنے پہلے ردعمل ميں فوجي کونسل کے تمام احکامات کو باطل قرار ديا ہے انھوں نے اپنے موقف ميں اعلان کيا ہے کہ اخوان المسلمين فوجي حکومت کےاحکامات نہيں مانے گي-

بہت سے سياسي ماہرين نے اسے فوج کے ساتھ اخوان المسلمين کي مقابلہ آرائي سے تعبير کيا ہے-

اس ميں کوئي شک نہيں کہ مصر کشيدگي اوربحران کے دور سے گزر رہا ہے اور اسے مصرکي سڑکوں پر بڑے پيمانے پرٹينکوں کي تعيناتي اورفضاۆں ميں ہيلي کاپٹروں کي پروازوں سے سمجھا جا سکتا ہے-

ليکن جو چيز ناقابل انکار ہے وہ يہ ہے کہ انقلاب مصر کا مستقبل مبھم اور  غيريقيني ہے اور مصر کا مستقبل کچھ زيادہ واضح نہيں اور کسي کو معلوم نہيں کہ مصر کس رخ پر گامزن ہو گا-کيا مصري فوج ، مبارک کے دور حکومت کے مانند ايک بار پھر من ماني کرے گي يا مصر ايسے راستے پر نکل پڑے گا جس کا نتيجہ ايک عرصے تک ملک ميں بدنظمي و انار کي ہوگا- (ختم ہوا)

 

بشکريہ: نواۓ وقت و اردو ريڈيو تھران

پيشکش  : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحریریں:

آلماتے ميں مذاکرات کا دوسرا دور

مذاکرات کا مقصد اسرائيل کے مفادات کا تحفظ حماس