• صارفین کی تعداد :
  • 3073
  • 3/28/2013
  • تاريخ :

مغرب کا خواتين کے مالکانہ حقوق سے انکار

خاتون

يورپ کي تاريخ ميں عورتوں کے حقوق کي خلاف ورزي

مغربي ممالک ميں بيسويں صدي کي دوسري اور تيسري دہائي تک عورت اپنے اصل حقوق سے محروم تھي - عورت کو اس کا کوئي بنيادي حق حاصل نہيں تھا - اگر اس کا موازنہ اسلام کے اصولوں سے کريں تو اس کے مطابق اسلام عورت کو بےحد جائز بنيادي حقوق  عطا کرتا ہے -

ارشاد باري تعالي ہے کہ

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآۆُكُمْ وَأَبْنَاۆُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ : ’’ï·² تمہيں تمہاري اولاد (کي وراثت) کے بارے ميں يہ حکم ديتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکيوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکياں ہي ہوں (دو يا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائي حصہ ہے اور اگر وہ اکيلي ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور مورث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں ميں سے ہر ايک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطيکہ مورث کي کوئي اولاد ہو، پھر اگر اس ميت (مورث) کي کوئي اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کي ماں کے لئے تہائي ہے (اور باقي سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مورث کے بھائي بہن ہوں تو اس کي ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (يہ تقسيم) اس وصيت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کي ہو يا قرض (کي ادائيگي) کے بعد (ہوگي) تمہارے باپ اور تمہارے بيٹے تمہيں معلوم نہيں کہ فائدہ پہنچانے ميں ان ميں سے کون تمہارے قريب تر ہے، يہ (تقسيم) الله  کي طرف سے فريضہ (يعني مقرر) ہے بيشک الله خوب جاننے والا بڑي حکمت والا ہے‘‘ القرآن، النساء، 4 : 11

مغرب کي دنيا عورت کي حمايت کے متعلق بہت غلط دعوے کرتي ہے - وہاں پر عورتيں نہ صرف اپني راۓ تک کے  حقوق سے محروم ہيں بلکہ وراثت ميں ملنے والي جائيداد پر بھي ان کا کوئي حق  نہيں سمجھا جاتا - ساٹھ سے ستر سال پہلے تک مغرب ميں عورت  کو مرد کے زير تسلط تصور کيا جاتا تھا  اور انہيں ايسا کوئي بھي بنيادي حق حاصل نہ تھا جو کہ ايک مہذب معاشرے ميں کسي انسان کو حاصل  ہونا چاہيۓ -  پھر کچھ عرصے بعد انہوں نے عورت کو اس کے حقوق دينے شروع کيۓ مگر ساتھ ہي عورتوں کو گمراہ کرنے کي تياري بھي کر لي - انہوں نے عورت کو اپنے معاشرے ميں غيرمحفوظ کرکے چھوڑ ديا - اس صدي کي دوسري دہائي تک پورے يورپ ميں کسي بھي عورت کو حق راۓ دہي حاصل نہ تھا  اور جہاں کہيں جمہوريت کا دور دورہ تھا وہاں پر بھي عورت ان تمام حقوق سے محروم تھي - تقريبا 1916 سے 1918 عيسوي کے بعد يورپ کے ممالک نے آہستہ آہستہ يہ فيصلہ کيا کہ عورت کو راۓ دينے کا حق ، ان کے مالکانہ حقوق  اور مرد کے  مساوي سماجي حقوق ملنے چاہيۓ -  اس ليۓ کہا جاتا ہے کہ  يورپ کو بہت  دير سے سچائي کا احساس ہوا -

تحرير :  سيّدہ عروج فاطمہ

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان