• صارفین کی تعداد :
  • 4329
  • 11/26/2012
  • تاريخ :

شيخ مفيد کا وظيفہ انجام دينا

شیخ مفید

شيخ مفيد کا مرتبہ   

شيخ مفيد کون ہيں ؟

حضرت امام زمانہ (عج) کي نظر ميں شيخ مفيد کا مرتبہ

امير المۆمنين حضرت علي (ع) شيخ مفيد کے مقتديٰ

مرحوم آيت اللہ نجفي مرعشي رحمۃ اللہ عليہ جو کہ ايک محقق عالم تھے، فرماتے تھے کہ:

”‌ شيخ مفيد نے خود کو مباحثہ و مناظرہ کے لئے وقف کر رکھا تھا اور مختلف مناظرے دوسرے تمام اديان و مذاہب کے علماء سے انجام ديتے تھے ، يہاں تک کہ ايک بار ايک گروہ مناظرہ کے لئے آيا اور شيخ مفيد سے وقت مانگا ، شيخ مفيد نے فرمايا : ”‌ ميرے پاس وقت نہيں ہے “ - ان لوگوں نے کہا: اے شيخ ! ہم بڑي دور سے آئے ہيں اور واپس جانا چاہتے ہيں ، شيخ مفيد نے تھوڑاسا سوچ کر کہا : ”‌ ميرے پاس صرف صبح کي اذان سے پہلے دوگھنٹے وقت ہے اور اس وقت جتنے دن بھي چاہو آسکتے ہو ، ان لوگوں نے بھي کہا کہ کوئي چارہ نہيں ہے ، دن ميں سوئيں گے اور رات ميں مناظرے کے لئے آئيں گے - 

کيا شيخ مفيد سوتے نہ تھے ؟

آپ کے حالات ميں لکھا ہے کہ آپ کي مجلس درس ميں ابو العلاء معرّي ( جو کہ اہل سنت کے علماء ميں سے ہے ) سے ليکر صوفيوں تک شرکت کرتے تھے آپ اس قدر حضور ذہن اور حاضر جوابي کے مالک تھے کہ خاص و عام کے لئے ضرب المثل تھے ، کسي وقت جلسہ درس ميں کتاب سے شاہد و دليل نہ لاتے تھے اور کبھي کبھي جو لغوي استدلالات آپ سے نقل ہوئے ہيں کسي لغوي کتاب ميں پائے نہيں جاتے - خلاصہ يہ کہ اپني عمر اہل بيت (ع) کے نقش قدم پر گزاري اور آيہ ”‌ يہدون بامرنا “ (12) يعني ”‌ وہ لوگ ہماري طرف ہدايت کرتے ہيں “ کا نمونہ عمل تھے ، اور ائمہ عليہم السلام کي تمام روايتيں بھي اسي محور ”‌ يھدون “ ( ہدايت بسوئے حق ) کے اردگرد گھومتي ہيں -

عالم کي فضيلت عابد پر 

ايک روايت معاويہ بن عمار سے نقل ہوئي ہے کہ :

”‌ قلت لابي عبد اللہ عليہ السلام رجل راويۃ لحديثکم يبث ذالک في الناس و يشدہ في قلوبھم و قلوب شيعتکم و لعلّ عابداً من شيعتکم ليست لہ ہٰذہ الراويۃ ايھا افضل قال الرّاويۃ لحديثنا يشدّ بہ قلوب شيعتنا افضل من الف عابد “ (13) راوي نے امام عليہ السلام سے عرض کيا :

”‌ آيا جو عابد حضرات اہل بيت عليہم السلام سے روايت نہيں کرتا ( آپ حضرات کي روايتيں نقل کرنے کے ذريعہ لوگوں کي ہدايت نہيں کرتا ) وہ افضل و برتر ہے يا جو آپ حضرات کي روايات کو نقل کرتا ہے اور اس کے ذريعہ آپ کے شيعوں کے قلوب و عقائد کو محکم و مضبوط کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمايا کہ ہماري احاديث کا راوي ہزار عابد سے افضل و برتر ہے “ -

يہ روايت معاويہ بن عمار سے نقل ہوئي ہے جو کہ زرارہ اور محمد بن مسلم کے مانند اصحاب ائمہ عليہم السلام کے بزرگوں ميں سے اوثقات ميں سے ہيں -

حضرت امام زمانہ (عج) شيعوں سے چاہتے ہيں کہ لوگوں کي ہدايت کے لئے کوشش کريں ، البتہ اس کام کے چند مقدمات ہيں جن ميں سے ايک حسن معاشرت ( سماج کے ساتھ اچھا برتاۆ ) اور زيادہ علم کا ہونا ہے - اور پختہ ارادہ رکھيں کہ دوست و دشمن کے ساتھ نرمي و مداوا کريں -

ان خطوط ميں کئي مرتبہ حضرت امام زمانہ (عج) نے لفظ ”‌ صدق “ ( سچ ) شيخ مفيد کو خطاب کرکے استعمال کيا ہے ، وہ ايک ايسا لفظ ہے کہ ہم جيسوں پر صادق آنے کے لئے کئي سال گزر جاتے ہيں -

اگر ”‌ ميں “ يعني غرور ختم ہوگيا اور ملاک و معيار ”‌ يہدون بامرنا “ ( ہمارے حکم سے ہدايت کرتے ہيں ) رہا تو پھر خشن اور غير خشن لباس ، لذيذ اور سادہ غذا انسان کے لئے کوئي فرق نہيں رکھتا ، واقعاً شيخ مفيد ہونا بہت مشکل ہے-

شيخ مفيد يہ سوچتے تھے کہ حضرت امام زمانہ (عج) ان سے کيا چاہتے ہيں اور اس کو انجام ديا-

آج علماء پر وثوق و اعتماد حاصل نہ ہونے کے سبب بہت سے يہودي اور عيسائي ہيں ، يا يہ کہ شيعہ ہيں ليکن غفلت ميں زندگي بسر کر رہے ہيں -

عالم اگر ثقہ و معتمد ہو تو لوگوں کو فوج در فوج دين خدا ميں داخل کرسکتا ہے ليکن ( انسان اس قدر بے معتبر ہوجائے ) يہاں تک کہ اس کے بيوي بچے بھي اس پر اطمينان نہ رکھتے ہوں تو کوئي کام انجام نہيں دے سکتا -

اب ہم سب کو چاہئے کہ حضرت ولي عصر (عج) کي ولادت باسعادت کي مناسبت سے يہ دو کام انجام دينے کي کوشش کريں :

1- حضرت امام زمانہ (عج) سے عہد باندھيں کہ ہم ايسے ہوں -

2- خود حضرت امام زمانہ (عج) سے مدد طلب کريں کہ حضرت (عج) ہمارے لئے دعا کريں اور ہماري کمک فرمائيں کہ ہم ايسے ہي بنيں-

اور ان کي بنياد تين چيزيں ہيں :

1- بہت زيادہ تعليم و تعلم ، اور ہم جانتے ہيں کہ اس مہينے ( ماہ شعبان ) کے بعد ماہ مبارک رمضان ، ماہ عبادت ہے اور سب سے زيادہ بڑي عبادت تعليم و تعلم ہے-

2- انسان کو چاہئے کہ اس ”‌ ميں ہونے “ يعني غرور و انانيت پر خط کھينچ دے اور اسے ترک کردے-

3- ہم کوشش کريں کہ حديث کے ”‌ راويۃ “ ہوں ، وہ راويہ جو کہ ”‌ يشد بہ قلوب شيعتنا “ کا مصداق ہو ، يعني جو راويت حديث کے ذريعہ ہمارے شيعوں کے قلوب و عقائد کو محکم کرے - ”‌ الرّاويۃ “ کي تاء ، تاءِ مبالغہ ہے يعني بہت زيادہ روايت کرنے والا-

ميں دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولي عصر (عج) کي برکت سے خداوند تعاليٰ ہم سب پر لطف فرمائے اور ہم سب کو ان تين کاموں کے انجام دينے کي توفيق عطا فرمائے - ( آمين )

و صلي اللہ عليٰ سيدنا محمد و آلہ الطاہرين

بشکريہ مہدي ميشن ڈاٹ کام

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان