حديث کي مماثل چيزيں ديگر قوموں ميں ہميں نہيں ملتي ہيں
قرآن مجيد کو خود رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے اپني نگراني ميں مدون کرايا
تاريخِ حديث
اس سلسلے ميں ياد رہے، رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کا ہميشہ طرز عمل يہ رہا کہ ايسے کام نہ کريں جو امت کي طاقت سے بالاتر اور ان کي استطاعت سے باہر ہوں- مثال کے طور پر "وصال" نامي روزے کا ميں آپ سے ذکر کروں گا- "وصال" کے معني يہ ہيں کہ چوبيس گھنٹے کي جگہ اڑتاليس گھنٹے کا روزہ رکھا جائے- اس سے رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم شدت سے منع فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ چوبيس گھنٹے کا بھي روزہ نہ رکھو بلکہ سحري کرو، اور اس پر بہت زور ديتے تھے- ايک مرتبہ صحابہ نے کہا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم آپ تو ہميں حکم ديتے ہيں يوں کرو مگر خود آپ کا طرز عمل اس کے برخلاف ہے- ہم بھي ويسا ہي کرنا چاہتے ہيں، تو حديث ميں ايک دلچسپ ذکر آيا ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے کہا اچھا کوشش کر کے ديکھو- آپ صلي اللہ عليہ و سلم نے چوبيس گھنٹے روزہ رکھا، افطار نہيں کيا اسے اور بڑھايا اور اڑتاليس گھنٹے گزرے، اب لوگوں کو شديد پريشاني ہوئ- حسن اتفاق سے شوال کا چاند 29 تاريخ کو نظر نہ آتا تو رسول صلي اللہ عليہ و سلم شايد 72 گھنٹے کا روزہ رکھتے پھر ان لوگوں کو پتہ چلتا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کي تقليد کرنے کي جو تم خواہش رکھتے ہو وہ تمہارے ليے مناسب نہيں ہے- امت کے ليے مصلحت يہي ہے کہ وہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کے حکم پر عمل کريں، يہ نہيں کہ رسول صلي اللہ عليہ و سلم کي تقليد ميں وہ کام کرنا چاہيں جو ان کے بس کي چيز نہيں- ممکن ہے کوئي ايک شخص ايسا کر سکے ليکن عوام الناس ضعيف اور کمزور لوگ ہوتے ہيں وہ ايسا نہيں کر سکتے- غرض حديث کي اہميت قرآن کي اہميت سے کسي طرح کم نہيں- اگر ان دونوں ميں فرق ہے تو اس قدر کہ حديث کا ثبوت ہميں اس طرح کا نہيں ملتا جس طرح قرآن کے متعلق ملتا ہے کہ متواتر چودہ سو سال سے اس کے ايک ايک لف1 ايک ايک نقطے اور ايک ايک شوشے کے متعلق ہميں کامل يقين ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کے زمانے کا جو قرآن تھا وہي اب بھي باقي ہے- حديث کے متعلق ايسا نہيں ہوا-
اس تمہيد کے بعد ميں آپ سے يہ عرض کروں گا کہ
قرآن کي مماثل چيزيں اور قوموں ميں بھي ملتي ہيں، مثلاً يہوديوں کے ہاں توريت اللہ کي نازل کردہ کتاب ہے يا مثلاً اور قوموں کي طرف خدا کي بھيجي ہوئ کتابيں ہيں، تو قرآن کے مماثل الہامي کتابوں کي مثاليں ہميں ملتي ہيں، ليکن حديث کي مماثل چيزيں ديگر قوموں ميں مجھے نظر نہيں آتيں-
بدھ مت ميں ايسي چيز موجود ہے مگر اس کي اہميت وہ نہيں ہے جو ہمارے ہاں حديث کي ہے- بدھ مت کي اساسي اور بنيادي کتاب اسي قسم کي ہے جيسے ہمارے ہاں ملفوظات کے نام سے مشہور مجموعے ہيں جن ميں کسي ولي، کسي بزرگ يا کسي مرشد کے اقوال کو ان کے مريدوں ميں سے کسي نے قلم بند کيا ہے- گوتم بدھ کے ملفوظات بھي صرف ايک شخص کے جمع کردہ ہيں ليکن حديث کے مماثل کوئي ايسي چيز نہيں ملتي کہ بہت سے اہل ايمان اپنے مشاہدات اور اپنے محسوسات کو جمع کر کے بعد والوں تک پہنچانے کي کوشش کريں، جيسا کہ حديث کے مجموعوں ميں کوشش کي گئ ہے- يہ بات دوسروں کے ہاں مفقود ہے- گويا حديث ايک ايسا علم ہے اور حديث کے مندرجات ايسي چيزيں ہيں جن کے مماثل کوئي اور چيز دوسرے مذاہب ميں ہميں نظر نہيں آتي ان حالات ميں تقابلي مطالعے کا امکان باقي نہيں رہتا لہٰذا براہ راست رسول اکرم صلي اللہ عليہ و سلم کي حديث کي تاريخ ہي پر اکتفا کرنا پڑے گا-
حديث کے سلسلے ميں اولاً چند اصطلاحوں کا بيان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے- ايک لفظ حديث ہے اور ايک لفظ سنت، اب يہ دونوں تقريباً مترادف الفاظ سمجھے جاتے ہيں- حديث سے مراد وہي ہے جو سنت کا مفہوم ہے- يعني رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کي بيان کردہ چيزيں، رسول صلي اللہ عليہ و سلم کے عمل کردہ امور جن کا تذکرہ کسي مشاہدہ کرنے والے کي طرف سے ہوکہ ميں نے ديکھا کہ رسول صلي اللہ عليہ و سلم نے يہ کہا يا يوں کيا اور تيسرے وہ امور جنہيں ہمارے مۆلفين "تقرير" کي اصطلاح سے تعبير کرتے ہيں- يعني وہ امور جن کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے برقرار رکھا اور اس سے مراد يہ ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے اپنے کسي صحابي کو کوئي کام کرتے ہوئے ديکھا اور اسے منع نہ کيا يا خاموش رہے، تو گويا اپني خاموشي سے آپ نے اس عمل کو برقرار رکھا- يعني آپ کے سکوت سے بھي اسلامي قانون بن جاتا ہے کيونکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کا يہ فريضہ ہے کہ وہ کسي برائ کو ديکھيں تو "نہي عن المنکر" کريں يعني اپنے صحابي کے کسي ايسے فعل کو جو اسلام کے مطابق نہيں ہے آپ معاف تو کر ديں گے کہ اس صحابي نے غفلت سے يا ناواقفيت سے کيا ہے ليکن اسے روکيں گے ضرور کہ آئندہ ايسا نہ کرے- مختصر يہ کہ حديث سے متعلق تين چيزيں پائ جاتي ہيں، ايک رسول اللہ کا قول، دوسرا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کا عمل، تيسرا رسول اللہ کا کسي دوسرے کے قول و فعل کو برقرار رکھنا يعني اصطلاحي طور پر رسول اللہ کي "تقرير" پہلي دو اصطلاحوں يعني حديث اور سنت ميں اب تو کوئي فرق نہيں ليکن ابتدا ميں فرق تھا- حديث کے معني بولنا يعني قول اور سنت کے معني ہيں طرز عمل- اب گويا قول اور فعل دونوں ايک ہي طرح کي چيزيں ہو گئي ہيں کيونکہ بارہا صحابہ کي نقل کردہ روايت ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کا قول بھي ہوتا ہے اور رسول اللہ کا عمل بھي مگر اس کے ليے حديث کو حديث اور سنت ميں تقسيم کر کے ان کو الگ الگ کر کے جمع کرنا ناممکن بات تھي- اس ليے کثرت استعمال سے حديث سے مراد قول بھي ہے اور عمل بھي- اسي طرح سنت سے مراد قول بھي ہے اور عمل بھي- اب عملاً ان ميں کوئي فرق باقي نہيں ہے، جہاں تک ميرے علم ميں ہے-
مصنف : ڈاکٹر مرتضيٰ مطھري
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان