• صارفین کی تعداد :
  • 2726
  • 6/30/2012
  • تاريخ :

کيا رسول اللہ کے زمانے ميں بھي شيعہ تھے؟

بسم الله الرحمن الرحیم

سوال: کيا رسول اللہ کے زمانے ميں بھي شيعہ تھے؟

جواب: جي ہاں! بالکل تھے؛ رسول اللہ (ص) کے زمانے ميں چار افراد شيعيان علي کي عنوان سے پہچانے جاتے تھے: 1- حضرت سلمان فارسي (ع)  2- حضرت ابوذر غفاري (ع) 3- حضرت عمار ياسر (ع) 4- حضرت مقداد بن اسود (ع)

1- حضرت سلمان فارسي (ع)

سلمان فارسي واحد صحابي تھے جنہيں رسول اللہ (ص) «السلمان منا اهل البيت = سلمان ہم اہل بيت ميں سے ہيں» کا اعزاز بخشا تھا اور رسول اللہ (ص) نے ہي فرمايا تھا کہ سلمان ايمان کے دس درجوں ميں سے9 درجوں پر فائز ہيں!

2- حضرت ابوذر غفاري (ع)

رسول اللہ (ص) نے فرمايا کہ آسمانوں نے ابوذر سے زيادہ سچا آدمي نہيں ديکھا.

3- حضرت عمار ياسر (ع)

عمار کي والد «حضرت ياسر (رض)» اسلام کے پہلے شہيد اور ان کي والدہ «حضرت سميہ (رض)» اسلام کي پہلي شہيدہ ہيں. سورہ نحل کي آيت 106 عمار کے ايمان کي تصديق ميں اتري ہے اور رسول اکرم (ص) نے انہيں فرمايا تھا: «ويحك يا بن سمية تقتلك الفئة الباغية اے سميه کے فرزند! آفرين ہے تم پر! تم کو باغي گروہ قتل کرےگا» اور جب عمار صفين کے مقام پر معاويہ کے سپاہيوں کے ہاتھوں شہيد ہوئے تو بہت سے لوگ جو امام علي عليہ السلام کي حمايت کے حوالي سے دو دل اور متردد تھے بھي علي عليہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض کيا کہ اب حق اور باطل کے درميان فرق واضح ہوگيا ہے اور عمار کے قاتل اہل باطل ہيں.

4- حضرت مقداد بن اسود (ع)

رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر ايمان لانے والوں ميں چھٹے نمبر پر اور سابقين اولين ميں سے تھے.

سيدعلي خان شيرازي اور سيدمحسن امين جبل عاملي جيسے کئي ديگر علماء نے بہت سے صحابہ رسول (ص) کا نام ليا ہے اور لکھا ہے کہ يہ صحابہ کرام علي عليہ السلام کے شيعہ تھے.

صحابہ کے بعد تابعين کي باري آتي ہے اور تابعين وہ مسلمان ہيں جو نسل صحابہ کے خاتمے کے بعد آئے ہيں اور ان ميں شيعيان علي عليہ السلام کي تعداد بہت زيادہ ہوئي يہاں تک کہ ميزان الاعتدال کے مؤلف «ذہني» نے لکھا ہے کہ تابعين ميں پيروان تشيع کي تعداد اتني بڑھ گئي کہ اگر وہ لوگ نہ ہوتے تو پيغمبر اسلام (ص) کے آثار اور ان سے باقيماندہ علمي ميراث نيست و نابود ہوکر رہ جاتي.

رسول اللہ (ص) کي رحلت کے بعد اسلامي سياست کے ميدان ميں دو قسم کي تفکرات ابھر گئے؛ ايک تفکر کا تعلق عقيدہ خلافت پر استوار تھا اور يہ وہي خلافت تھي جس کي بنياد سقيفہ بني ساعدہ ميں رکھي گئي اور اس تفکر کے حاميوں نے سياسي اقتدار ابوبکر بن ابي قحافہ کو سونپا. يہ تفکر امامت کے تفکر کے مدمقابل کھڑا ہوگيا اور تفکر امامت کي بنياد «حديث ثقلين» اور حديث غدير پر مبني ہے. اس تفکر کے پيروکار نص صريح کي بنياد پر حضرت امير المؤمنين علي عليہ السلام کي امامت و خلافت کا عقيدہ رکھتے تھے.

يہ دو تفکرات گوناگوں نشيب و فراز کے ساتھ آج تک اور ايک دوسرے کے آمنے سامنے ہيں.

بشکريہ: ابنا ڈاٹ آئي آر

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

اصول کا يہودي شبہ