• صارفین کی تعداد :
  • 1660
  • 2/18/2012
  • تاريخ :

اصول کا يہودي شبہ

بسم الله الرحمن الرحیم

شيعيت پر خطرناک تہمتوں ميں سے ايک يہ ہے کہ ان کي اصل و اساس يہوديت سے منشعب ہوتي ہے اور اس کي جڑ عبد اللہ بن سبا، يہودي کي ہے، جس نے آخري دنوں ميں اسلام کا تظاہر (دکھاوا) کيا تھا اور اس کا نظريہ اس کے شہر سے نکل کر حجاز، شام، عراق، مصر، تک پہنچا اور اس کے باطل عقائد مسلمانوں کے درميان سرايت کر گئے جس کا ايک عقيدہ يہ تھا کہ علي نبي کے وصي تھے-

فريدي وجدي کہتا ہے کہ: ابن سوداء (عبد اللہ بن سبا) درحقيقت يہودي تھا اس نے اسلام کا تظاہر کيا اور اس بات کا خواہاں تھا کہ اہل کوفہ کا محبوب و سردار رہے، لہٰذا اس نے ان لوگوں کے درميان يہ بات کہي کہ اس نے توريت ميں ديکھا ہے کہ ہر نبي کا ايک وصي رہا ہے اور محمد کے وصي علي ہيں-

يہ روايت درحقيقت طبري کي ہے اور سيف بن عمر کے ذريعہ نقل ہوئي ہے، جس کي عدالت محدثين کي نظر ميں شدت کے ساتھ ناقابل قبول ہے-

طبري کے بعد آنے والے مورخين نے اس کو نقل کيا اور يہ روايت شہرت پاگئي اور جديد و قديم فرقوں کے مولفين نے اس پر اندھادندھ بھروسہ کيا اور دقت و تفحص سے بالکل کام نہيں ليا-

ابن حجر نے اس روايت کے بارے ميں کہا ہے کہ: اس کي سند صحيح نہيں ہے-

مولفين حضرات نے اس جانب بالکل توجہ نہيں کي اور صديوں کے ساتھ اس کے سايہ تلے چلتے رہے-

ابن تيميہ کہتے ہيں: جب دشمنان اسلام اس دنيا کي قوت، نفاذ حکومت اور سرعت رفتار سے مبہوت ہوگئے تو حيران و سرگردان صورت ميں کھڑے ہوگئے اس وقت ان کے پاس تلوار کے ذريعہ ابوحاتم نے اس کو متروک الحديث کہا ہے اور اس کي حديثوں کو واقدي کي حديثوں سے تشبيہ دي ہے-

ابو داود نے کہا کہ: يہ حقيقت نہيں رکھتي، نسائي اور دار قطني نے اس کو ضعيف کہا ہے-

ابن عدي نے کہا کہ: اس کي بعض حديثيں مشہور ہيں اور عام طور وہ ناقابل قبول ہيں اور ان کي کوئي پيروي نہيں کرتا-

ابن جبان نے کہا کہ: يہ بات ثابت ہے کہ وہ جعلي حديثيں بيان کرتا تھا اور کہتے ہيں کہ اس کے بارے ميں لوگ کہتے ہيں کہ وہ حديث گڑھتا تھا-

ابن حجر نے ابن جبان کے بقيہ کلام کو يوں نقل کيا ہے کہ: ”‌اس پر ملحد ہونے کا الزام لگايا گيا“

برقاني نے دار قطني کے حوالہ سے کہا ہے: کہ وہ متروک ہے-

حاکم نے کہا کہ: اس پر ملحد ہونے کا الزام تھا، راوي کے اعتبار سے وہ ساقط الاعتبار ہے، تہذيب التہذيب، ج4، ص160- 259

اس کا مقابلہ کرنے کي قوت نہيں تھي لہٰذا انھوں نے دوسرا حيلہ حربہ اور مکر کا استعمال کيا اور وہ تھا اسلام ميں نفاق کا نفوذ و دخول، اور اندر سے اسلام کي بيخ کني اور فتنہ کے ذريعہ اسلامي وحدت ميں پھوٹ ڈالنا-

جس نے اس بات کي فکر و تدبير اپنائي پھر اس کو لوگوں کے سامنے پيش کيا وہ عبد اللہ بن سبا اور کے پيروکار تھے-

ان دو اہم صورتوں کي جانب توجہ ضروري ہے جو عبد اللہ بن سبا کي شخصيت کو واضح کرتي ہيں:

1- دائرہ اسلام ميں برپا ہونے والے فتنوں کو اس کي جانب نسبت دينا-

2- خليفہ سوم عثمان بن عفان کے دور حکومت ميں پيدا ہونے والي مشکلات کو اس کے سر مڈھنا جس کي اصل و اساس طبري کي روايت ہے جو ابھي ابھي ذکر ہوئي ہے اور ابن سبا کو خيالي کردار عطا کرتي ہے اور نيک صحابہ کي ايک بڑي تعداد کو اسلام کا لبادہ اوڑھے اس يہودي کا تابع قرار ديتي ہے جبکہ دوسرا رخ يہ فرض کرتا ہے کہ عبد اللہ بن سبا، خيالي شخص ہے کيونکہ طبري کي اس سے نقل کردہ يہ روايت ضعيف ہے-

بعض تاريخوں نے اس کے وجود کا اعتراف کيا ہے ليکن اس شخصيت کي طرف نسبت ديئے جانے والے عظيم کردار کا انکار کيا ہے، کيونکہ منابع ميں موجود روايات اس بات کي تاکيد کرتي ہيں کہ اس شخص کا وجود حضرت امير کے دور خلافت ميں ہوا اوراس نے آپ کي شان ميں اس حد تک غلو کيا کہ آپ کو خدا جانا، اور اس انحرافي عقيدہ ميں اس کے کچھ پيروکار بھي مل گئے ليکن اس کي يہ تحريک اس درجہ اہميت کي حامل نہ تھي جس طرح بعض مورخين و محققين نے ذاتي مقاصد کے حصول کے لئے پيش کيا-

اگر عبد اللہ بن سبا اتني اہميت کا حامل ہوتا تواہل سنت کي احاديث کي کتابيں خاص طور سے صحاح اس بات کي جانب ضرور اشارہ کرتيں جبکہ يہ کتابيں اس کے تذکرے سے خالي ہيں-

(1)بعض مستشرقين و سيرت نگاروں نے اس بات کو بھانپ ليا کہ ابن سبا کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پيش کرنے کے کچھ سياسي مقاصد تھے تاکہ شيعوں سے بدلہ ليا جاسکے-

فلہوزن کہتا ہے کہ: سبئيہ کا لقب صرف شيعوں کے لئے بولا جاتا تھا، ليکن اس کا دقيق استعمال صرف شيعہ غلاة کے لئے صحيح ہے، جبکہ ذم (مذمت) کا لفظ شيعہ کے تمام گروہ پر برابر سے صادق آتا ہے-

ڈاکٹر محمد عمارہ کہتے ہيں: کہ جو ہمارے موضوع، يعني تشيع کي نشو و نما کي تاريخ سے مربوط ہے (اس سلسلہ سے عرض ہے) کہ عبد اللہ بن سبا کا وجود (اگر اس نام کا شخص تھا) تو اس بات کي دليل نہيں ہوسکتا کہ شيعيت اس کے دور ميں وجود ميں آئي اور شيعوں نے اس سے اس طرح کي کوئي چيز نقل نہيں کي ہے، لہٰذا يہ بات کہنا بالکل درست نہيں کہ شيعوں کے معروف فرقہ کي نشو و نما اس کے زمانے ميں ہوئي-

مشکل يہ ہے کہ ابن سبا کا قضيہ جمہوري عقائد ميں ٹکڑوں ميں بٹ گيا اور جس کے وجود کے سبب سياست متاثر ہوئي-

حيرت انگيز بات تو يہ ہے کہ سعودي رسالوں کے صفحات پر بڑي گھمسان نظرياتي جنگ ہوئي ہے، جيسے صحيفہ رياض وغيرہ اساتذہ اور سيرت نگاروں کے بارے ميں خيالي ابن سبا کے موضوع پر بڑي رد و قدح ہوئي ہے، ايک طرف اس بيچ ہونے والي بحثوں کا مقصد غير منصف سيرت نگاروں کا شيعي عقائد کو اس کي طرف منسوب کرنا تھا تو دوسري جانب بعض انصاف پسند سيرت نگاروں نے ابن سبا کے مسئلہ کو جمہوري عقائد کا جزء تسليم کيا ہے-

ڈاکٹر حسن بن فہد ہويمل کہتے ہيں: کہ ابن سبا کے سلسلہ ميں تين نظريات ہيں:

سطح اول:

اسلام کے سادہ لوح مورخين کے نزديک اس کا وجود ہے اور اس کا زمانہ فتنہ و فساد کا عروج تھا-

مستشرقين اور متاخر شيعہ اس کے وجود کے منکر ہيں اور اس کے کردار کے منکر ہيں، ميں نے جو متاخر شيعہ کہا ہے اس کي وجہ يہ ہے کہ ميں اس مطلب کي طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ متقدم شيعوں نے ابن سبا کے وجود کا انکار نہيں کيا، ہر چند کہ اس کے بعض کردار کے مخالف ہيں-

سطح دوم:

وہ ہے کہ عبد اللہ بن سبا کے وجود کا اثبات اور فتنہ انگيزي ميں اس کے کردار کو کم گرداننا، اس بابت ميں بھي اس کي طرف رجحان رکھتا ہوں-

ڈاکٹر ہلابي اور ان کے بعد حسن مالکي اس شخصيت کے سختي سے منکرين افراد ميں شمار ہوتے ہيں اور ان دونوں کي تحريروں پر جہاں تک ميري نظر ہے اور اس کي من گڑھت شخصيت کے بارے ميں ميرا نظريہ جو قائم ہوا ہے وہ ان دونوں کے خلاف ہے اور ميں اس کي تائيد نہيں کرتا-

کيونکہ اس کے شخصيت کي بيخ کني درحقيقت بہت ساري چيزوں کي بنيادوں کو ختم کرنا اور مٹانا ہے جو بزرگ علماء کے آثار ميں موجود ہے، جيسے شيخ الاسلام ابن تيميہ، ابن حجر، ذہبي اور ان دونوں کے علاوہ ديگر علماء اسلام-

اس لئے کہ عبد اللہ ابن سبا، يا ابن سوداء نے ايک عقيدتي مذہب کي بنياد رکھي ہے اور اگر قبول کيا جائے تو ديگر مواقف بھي معرض وجود ميں آتے ہيں ليکن ہم ايسے زلزلہ سے دوچار ہيں جو بہت ساري عمارتوں کو اپني لپيٹ ميں لے سکتا ہے-

يہاں سے عبد اللہ بن سبا کا وجود اور اس کا افسانوي کردار بعض کے نزديک عقائدي وجود کا حامل ہے-

ابن سبا کے وجود کي بناء پر اس عظيم ميراث کي قداست محفوظ ہو جاتي ہے چاہے ابن سبا کا وجود رہا ہو يا نہ-

جبکہ حقيقت يہ ہے کہ ابن سبا کا مسئلہ در اصل شيعہ مخالف افراد کے پاس ايک ہتھکنڈہ کي حيثيت اختيار کر گيا ہے جس کے ذريعہ ان کا مقصد صرف يہ ہے کہ وہ اپنے عقائد اس ابن سبا کي طرف منسوب کرديں-

مصنف:  صباح علي بياتي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان