• صارفین کی تعداد :
  • 3047
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

ايران کے اسلامي انقلاب کے خلاف ہر سازش ناکامي ہو گي (10)

ایران کا پرچم

بين الاقوامي سياست ميں ايران کا اسلامي انقلاب گزشتہ 30برسوں ميں مختلف پہلووں سے زير بحث رہا ہے- امريکہ اور ديگر مغربي طاقتوں نے انقلاب کو دبانے اوراسے ناکام کرنے کي مسلسل اور غير معمولي کوششيں کي ہيں- سب سے پہلے 1980ميں امريکہ کے آلہ کار عراق کے صدر صدام حسين کے ذريعہ ايران کے خلاف جنگ شروع کرائي گئي جو 8برس تک جاري رہي - اس جنگ سے نہ صرف ايران بلکہ خطے کے تمام ممالک جو عراق کو امداد دے رہے تھے کمزور ہوگئے- سابق صدر جارج بش نے ايران کي حکومت کو برطرف کرنے اور انقلاب کوناکام کرنے کے لئے 2006ميں باقاعدہ طور پر ساڑھے سات کروڑ ڈالر مختص کئے تھے- اس رقم کا ايران مخالف پروپيگنڈہ کرنے اور ايران کے اندر حکومت مخالف عناصر کوامداد دينے ميں استعمال ہونا تھا-

حال ہي ميں يوم غدير کے موقع پرايران کے روحاني پيشوا اور اسلامي انقلاب کے رہنما آيت اللہ سيدعلي خامنہ اي نے ملک ميںاصلاح پسند رہنما‎ğ  کي شديد تنقيد کرتے ہوئے الزام لگايا کہ اصلاح پسند ايران اوراسلامي انقلاب کے خيرخواہ نہيں ہيں- وہ مغرب کي حمايت سے ايران ميں اقتدارحاصل کرنا چاہتے ہيں- رہبر انقلاب نے سپاہ پاسداران اسلامي سے وابستہ رضاکار فورس بسچ مليشيا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اصلاح پسند ايران دشمن مغرب کے آلہ کار ہيں- واضح رہے کہ يوم غدير ہي بسيج مليشيا کا يوم تاسيس بھي ہے- آيت اللہ خامنہ اي نے مزيد کہا کہ جولائي 2009 ميں صدارتي انتخابات کے نتائج کو تسليم نہ کرکے اور پر تشدد احتجاجي مظاہروں کے ذريعہ اصلاح پسندوں نے يہ ثابت کيا ہے کہ وہ صرف اقتدار کے حريص ہيں - انہوں نے زور دے کر کہا کہ اصلاح پسند گروہ ملک ميں فتنہ اور فساد پيدا کرنا چاہتا ہے اور يہ کہ ايران کو مغربي خطوط پر ڈھالنے کے لئے کوشاں ہے- آيت اللہ سيدعلي خامنہ اي نے اصلاح پسند رہنما ميرحسين موسوي کا حوالہ ديتے ہوئے کہا کہ اصلاح پسندوں نے ايران کے اسلامي نظام اور اسکے مفادات سے منہ موڑليا ہے - ان کے سامنے صرف شخصي مفادات ہيں اور وہ مغربي مفادات کو ايراني مفادات پر ترجيح ديتے ہيں-

واضح رہے کہ 1981ميں ايران کے صدر محمد علي رجائي اور وزير اعظم محمد جواد باہنر کے ايک بم دھماکے ميں مارے جانے کے بعد سيد علي خامنہ اي صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے- اس وقت انہوں نے وزير خارجہ علي اکبر ولايتي کو وزير اعظم کے عہدہ پر نامزد کيا ليکن پارليمنٹ نے انہيں تسليم نہيںکيا - اس کے بعد ميرحسين موسوي کو وزير اعظم کے عہدہ کے لئے نامزد کيا گيا جسے پارليمنٹ نے قبول کر ليا- مير حسين موسوي  1981سے 1989 تک وزير اعظم کے عہدہ پررہے -البتہ جب 1989ميں علي اکبر ہاشمي رفسنجاني عہدہ صدارت کے لئے منتخب ہوئے تو انہوں نے آئين کي ترميم کراکر وزير اعظم کے عہدہ کو ہي ختم کر ا ديا تھا-

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

ايران کے اسلامي انقلاب کے خلاف ہر سازش ناکامي ہو گي (6)