• صارفین کی تعداد :
  • 1228
  • 3/17/2012
  • تاريخ :

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 21

عاشوره

... ليکن امام حسين عليہ السلام کي شہادت کے بعد- اور پيروان آل محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي اکثريت کو خبر بھي ملي تو وہ امام حسين عليہ السلام کي شہادت کي خبر تھي اور ان لوگوں کو پيروان اہل بيت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ميں ہي شمار کيا جاسکتا ہے-

مذکورہ بالا حقائق کو مد نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ کوفہ کے عوام ـ جہاں کي ايک تہائي آبادي بظاہر شيعيان آل محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر مشتمل تھي ـ اس حد تک خواب غفلت سے دوچار ہوگئے تھے کہ انھوں نے امام حسين (ع) اور آپ (ع) کے سفيروں اور اصحاب کي تمام تر صدائيں اور دعوتيں نظرانداز کرديں اور آسائش کي زندگي کو ترجيح دي چنانچہ انھوں نے فرزند رسول صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي مدد کے لئے ايک قدم بھي نہيں اٹھايا اور جو لوگ قطعي طور پر شيعہ تھے اور امام حسين عليہ السلام کي مدد کو جانا چاہتے تھے انہيں ابن زياد نے قيد کرليا تھا جو مرگ يزيد کے بعد جيلوں سے رہا ہوگئے اور توابين کے ساتھ يا پھر مختار کے ساتھ اموي حکمرانوں کے خلاف جہاد ميں شريک ہوئے- بہرحال کوفہ کي اکثريت نے اسلام اور امت اسلامي کو ظلم کي ملوکيت سے بچانے کے سلسلے ميں امام حسين عليہ السلام کي مدد کے لئےنہيں اٹھے-

ان حالات ميں سيدالشہداء عليہ السلام کے خوني انقلاب نے دشمنوں کے تمامتر سياسي سازشوں، منصوبوں اور ان کے خيالات و توقعات کو درہم برہم کرديا اور زمانے کي صورت حال کو دگرگوں کرديا- امام حسين عليہ السلام مسلم معاشرے ميں منفرد شخصيت کے مالک، عالم و دانشور اور مسلمانوں کے پيشوائے علي الاطلاق تھے جو مسلمانوں ميں سب سے افضل و اقدم تھے اور رشتے کے لحاظ سے اور معنوي ربط کے لحاظ سے بھي رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے قريب ترين تھے اور ايک ايسي شخصيت نے جان کا نذرانہ پيش کيا ...

........

تحرير : ف ح مهدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

عاشورا کے سياسي و سماجي آثار و برکات 17