• صارفین کی تعداد :
  • 815
  • 2/1/2012
  • تاريخ :

دور حاضر ميں  اقبال کے فلسفہ خودي کي اہميت ( حصّہ سوّم )

اقبال لاہوری

علامہ اقبال نے اپني جواني کا ايک حصّہ يورپ ميں گزارا اور يوں ان کي فکري و شعري کاوشوں پر  مشرقي اثرات کے ساتھ ساتھ مغربي اثرات  کو بھي واضح طور پر محسوس کيا جاتا ہے - ان کي ايک خاص بات يہ تھي کہ انہوں نے نظريہ حيات کے ساتھ کامل وابستگي تو رکھي مگر حکمت و دانش کے سرچشموں سے فيض ياب ہوتے ہوۓ کسي تہذيبي تفاوت کو اپنے رستے ميں حائل نہيں ہونے ديا - يہ اس بات کي نشاندھي ہے کہ ان کے افکار کو مشرق اور مغرب ميں ہر طرح سے عزت افزائي ملي اور انہيں کسي علاقائي شخصيت سے بالا تر ہو کر عالمي سطح پر پذيرائي نصيب ہوئي -

اقبال جيسا مفکر ، مصلح اور پيامبر جو فلسفے کو بھي خون جگر سے لکھنے کا قائل ہو ، وہ فکر عصري صداقتوں اور معروضي حقيقتوں سے بيگانہ  رہ کر محض فني اور جمالياتي تقاضوں کي تکميل کا وسيلہ نہيں بن سکتا - اقبال کے فلسفہ خودي کا محرک اگر ملت اسلاميہ کي محکومي ، غلامي اور زبوں حالي تھي تو اس کي غايت فکري بيداري ، سياسي آزادي ، وقار کي بحالي اور اسلامي نشاط  نو کي حصولي  ہي کو قرار ديا جا سکتا ہے -

 دنيا کے مختلف خطوں پر قائم رہنے والے برطانوي راج نے بہت ساري سابقہ تہذيبوں کے آثار تقريبا مٹا کر رکھ ديۓ - انہيں تہذيبوں ميں ہماري اسلامي تہذيب بھي تھي جو فرنگي کے ظلم و بربريت کا شکار ہوئي - مسلم معاشرے ميں موجود غلامانہ  ذہنيت کے لوگوں نے بڑي تيزي کے ساتھ مغربي معاشرے کي تقليد شروع کر دي -  ڈاکٹر برہان احمد فاروقي اسي سامراجي تناظر ميں يہ سوال اٹھاتے ہيں کہ ايسے کمزور ذہنوں نے يہ سوچنا بھي گوارا نہ کيا کہ اگر اسلام اور مسلمان واقعي طور پر کمزور ، ختم شدہ يا زوال پذير قوت ہيں تو ہمارے خلاف بين الاقوامي سطح پر اتني مخالفت کيوں ہے ؟

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان