• صارفین کی تعداد :
  • 3071
  • 11/14/2010
  • تاريخ :

کیا کریں کہ محبوب ہو جائیں؟

الله

ہر کسی کا دل کرتا ہے کہ  وہ سب کی آنکھوں کا تارا  بنے  ۔ لوگ دوسرے کے دلوں میں اپنا مقام بنانے کے لیۓ مختلف قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔ کوئی نت نئی ماڈل کی کاریں خرید کر دوسرے  کے دلوں میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی اعلی معیار کا لباس زیب تن کرتا ہے ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر محفل میں جائیں تو ان کے جسم پر بہترین لباس اور زیورات  ہوں ۔  کوئی اس بات میں اپنی بڑائی محسوس کرتا ہے  کہ میں فلاں کی بیٹی  یا فلاں کا بیٹا ہوں ۔ فلاں میرا بھائی ہے اور میرا باپ یہ کام کرتا ہے و غیرہ و غیرہ ۔  غرضیکہ ایسے افراد کو  یہ بہت پسند ہے کہ وہ محبوب ہو جاۓ اور اس کام کے لیۓ وہ ہر ممکن ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے ۔

قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق ذکر آیا ہے کہ

" یوسف کو ہم نے عزیز بنا دیا ۔  حسد کرنے والے اس کے  بھائی جو اسے دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے ، آۓ اور اسے عزیز کا لقب دیا  "

مصر کی عورتیں حضرت یوسف علیہ السلام پر عاشق ہو گئیں اور ان عورتوں نے حضرت یوسف کو اپنے ساتھ آنے کی پیشکش کی ۔ حتی کہ شاہ کی بیوی نے خود کو سنوار کر دروازے بند کر لیۓ ،  یوسف علیہ السلام کے پیچھے دوڑی ۔  جب حضرت یوسف علیہ السلام  نے دیکھا کہ یہ قصّہ ہے تو  بول اٹھے ! 

« قالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنی‏ إِلَیْهِ»

اے خدا میں حاضر ہوں جیل چلا جاؤں لیکن گناہ سے آلودہ نہیں ہونا چاہیتا ۔

 اس جگہ فرمایا  :

«رَبِّ ؛ پروردگارا .

جب  مصر کے بادشاہ بنے اور حکومت مصر اپنے ہاتھ میں لے لی تو پھر بولے : خدایا  !

یوسف علیہ السلام بولے ! خدایا یہ نعمتیں جو میرے نصیب میں آئی ہیں میری عقل و تدبیر  و سیاست سے نہیں ہیں بلکہ ان سب کو تو نے مجھے عنایت فرمایا ہے ۔

« رَبِّ قَدْ آتَیْتَنی‏ مِنَ الْمُلْك »

خداتعالی نے حضرت یوسف کو عزیز بنا لیا کیونکہ مشکل و کٹھن ترین حوادث میں وہ خدا کو پکارتے تھے اور سب چیزیں کو خدا کی  نوازش سمجھتے تھے ۔

بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ آج کون انچارج ہے !  آج جو مقتدر اعلی ہے ۔ اسے کہیں گے جی جناب ، کل جب کوئی دوسرا آ جاتا ہے تو اسے بھی انہیں جی جناب کہنا پڑتا ہے اور یوں وہ اپنی منفعت کی بنیاد پر اپنے حقیقی خدا کو بھلا کر  دنیاوی آقاؤں کی تعظیم میں لگے رہتے ہیں ۔ 

 مومن آباؤ اجداد کی پیروی

حضرت یوسف کو خدا نے  اپنا محبوب بنایا  کیونکہ  وہ چند کاموں میں سے ایک کام  جو کیا کرتے تھے وہ یہ تھا کہ

کہتے ہیں :

« وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائی‏ إِبْراهیمَ وَ إِسْحاقَ وَ یَعْقُوب »

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :

« وَ أَلْحِقْنی‏ بِالصَّالِحینَ »

وہ فرماتے ہیں میں اسی صحیح راستے پر چلوں گا جس پر حضرت ابراھیم چلے ، جو وہ خدا سے چاہتے تھے اور کہتے تھے اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کر ۔

تحریر : سید اسداللہ ارسلان


متعلقہ تحریریں:

احسن انداز سے بات کرنا سیکھیں

بدخلقي

حسن خلق كے اُخروى فوائد

اخلاق حسنہ

آداب نشست

نبی اکرم (ص) کے کھانا کھانے اور آرائش کے آداب

بداخلاقى كا انجام

ظاہرى آرائش، مہمان نوازى اور عيادت  کے آداب

آپ (ص) کے رخصتی اور دوسروں کو پکارنے کے وقت اخلاق

 آنحضرت (ص) كا لوگوں كے ساتھ سلام کرنا