• صارفین کی تعداد :
  • 2119
  • 11/6/2010
  • تاريخ :

دین كی فاسد اخلاق سے جنگ

آگ

قرآن مجید ایك مختصر اور رسا ترین جملہ میں بھت ھی دلچسپ انداز سے غیبت كی حقیقت كو بیان كرتا ھے ”

”كیا تم میں سے كوئی اس بات كو پسند كرے گا كہ اپنے مرے ھوئے بھائی كا گوشت كھائے“

مذھبی رھنماؤں نے جس طرح شرك و بیدینی كا مقابلہ كیا ھے اسی طرح اندرونی صفات كی اصلاح كی طرف بھت زیادہ توجہ دی ھے ۔حضور سروركائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں: مجھے اس لئے نبی بنا كر بھیجا گیا ھے تاكہ مكارم اخلاق كو منزل كمال تك پھونچا دوں، اسی لئے آپ نے بڑی متین منطق اور سعادت بخش پروگرام كے ذریعہ لوگوں كی رھبری فرمائی ھے اور حدود فضیلت سے باھر جانے كو جرم قرار دیا ھے اور بڑی سختی كے ساتھ اس سے روكا ھے ۔ نہ صرف غیبت كا سننا اور غیبت كرنا گناہ ھے بلكہ شارع اسلام نے شخص غائب كی حیثیت كا دفاع كرنا بھی ھر مسلما ن كا فریضہ قرار دیا ھے ۔ چنانچہ ارشاد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ھے: اگر كسی مجمع میں كسی شخص كی غیبت كی جائے تو تمھارا فریضہ ھے كہ جس كی غیبت كی جا رھی ھے اس كا دفاع كرو اور لوگوں كو اس كی غیبت سے روكو اور وھاں سے اٹھ كر چلے جا وٴ ۔

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ھیں:

جو شخص اپنے برادر مومن كی غیبت كا دفاع كرے اللہ پر اس كا حق ھے كہ اس كے جسم كو جھنم سے بچائے ۔

جو شخص بھی اپنے برادر مومن كی عدم موجودگی میں اس كی آبرو كا دفاع كرتا ھے خدا اس كو عذاب جھنم سے بچا لیتا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ھیں: جو شخص كسی مسلمان كی غیبت كرتا ھے خدا چالیس دن تك اس كی نماز اور اس كے روزے كو قبول نھیں كرتا ۔ ھاں جس كی غیبت كی گئی ھے اگر وہ معاف كر دے تب قبول كر لیتا ھے، ایك اور جگہ ارشاد فرماتے ھیں: جو شخص كسی مسلمان كی ماہ رمضان میں غیبت كرتا ھے خدا اس كے روزے كے اجر كو ختم كر دیتا ھے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واقعی مسلمان كی پھچان بتاتے ھوئے فرماتے ھیں: وھی شخص مسلمان ھے جس كی زبان اور جس كے ھاتہ سے تمام مسلمان محفوظ رھیں ۔بھت ھی واضح سی بات ھے كہ غیبت كرنے والا حصار فضیلت سے باھر ھو جاتا ھے ۔ اور اپنے كو انسانیت كی نگاہ میں ذلیل كر لیتا ھے مسلمانوں كا اجماع ھے كہ غیبت گناہ كبیرہ ھے كیونكہ غیبت كرنے والا علاوہ اس كے كہ دستور الٰھی كی مخالفت كرتا ھے وہ حق خدا كی بھی رعایت نھیں كرتا ھے اور حقوق مردم پر تعدی كرتا ھے ۔

جس طرح مردہ جسم اپنا دفاع نھیں كر سكتا اور نہ اپنے بدن پر ھونے والے ظلم كو روك سكتا ھے بالكل اسی طرح شخص غائب اپنی آبرو كی حفاظت نھیں كر سكتا اور نہ اس كا دفاع كر سكتا ھے جس طرح مسلمان جان كی حفاظت ضروری ھے اسی طرح اس كے آبرو كی بھی حفاظت ضروری ھے ۔

غیبت و بد گوئی كی علت روحانی دباؤ اور رنج و غم ھوتا ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: كمزور و ناتوان شخص كی انتھائی كوشش غیبت كرنا ھے ۔

ڈاكٹر ھیلن شاختر كھتا ھے: انسان كی جو بھی حاجت پوری نھیں ھوتی وہ رنج و الم كا سبب بن جاتی ھے ۔ اور ھر رنج و غم ھم كو اس كے دفاع و تدبیر پر آمادہ كرتا ھے ۔ لیكن الم و تكلیف كے دور كرنے كا طریقہ ھر شخص كا ایك جیسا نھیں ھوتا ۔ جب انسان دوسروں كو دیكھتا ھے كہ وہ اس كی طرف اس طرح متوجہ نھیں ھوتے جس طرح وہ چاھتا ھے تو وہ گوشہ نشین ھو جاتا ھے ۔ اور اس خوف سے كہ كھیں لوگوں كے درمیان اس كی ذلت و رسوائی نہ ھو جائے وہ ملنے جلنے پر تنھائی اور گوشہ نشینی كو ترجیح دیتا ھے ۔ اور اگر لوگوں كے درمیان بیٹھتا بھی ھے تو مضطرب، پریشان خوفزدہ ھو كر ایك كنارے میں بیٹھتا ھے اور ایك كلمہ بھی نھیں كھتا اورخاموش و ساكت بیٹھا رھتا ھے اور پھر اپنے احساس كمتری كو دور كرنے كے لئے دوسروں سے مسخرہ پن كرتا ھے اور بے جا قھقھے لگاتا ھے ۔ اور یا غیر موجود لوگوں كی بدگوئی كرتا ھے ۔ یا موجود ہ لوگوں سے جھگڑنے لگتا ھے ۔ اور یا دوسروں پر اعتراض كرنے لگتا ھے ۔ ان تمام طریقوں میں سے كسی ایك طریقے كو اپنا كر لوگوں كو اپنی طرف متوجہ كرنے كی كوشش كرتا ھے ۔

ڈاكٹر مان اپنی كتاب ”اصول علم نفس“ میں كھتا ھے: اپنی شكست كا جبران كرنے كے لئے اور اپنے عیوب كی پردہ پوشی كے لئے انسان كبھی اپنے گنا ہ كو دوسروں كے سر منڈہ دیتا ھے اور اس طرح اپنی ذات كے احترام كو اپنی نظر میں محفوظ كر لیتا ھے ۔ اور اگر امتحان میں فیل ھو گیا تو كبھی معلم كو اور كبھی امتحانی سوالات كی ملامت كرتا ھے ۔ اور اگر وہ اپنے حسب منشاء مقام و عھدہ نھیں پاتا تو كبھی اس عھدے كی برائی كرتا ھے ۔ اور كبھی اس شخص كی جو اس عھدے پر فائز ھے ۔ اس كی ملامت كرتا ھے ۔ اور كبھی اپنی شكست كی پوری ذمہ داری ایسے دوسرے لوگوں كے سر ڈال دیتا ھے، جن كا اس سے كوئی واسطہ بھی نھیں ھوتا ۔

ان چیزوں سے یہ نتیجہ نكلتا ھے كہ خود ھمارا فریضہ ھے كہ ایك روحانی جھاد كر كے خلوص نیت كے ساتھ اپنے بلند جذبات كو تقویت پھونچائیں اور سب سے پھلے اپنے نفس كی اصلاح و تھذیب كی كوشش كریں تاكہ نیك بختی كی سر زمین پر قدم جما سكیں اور اپنے معاشرے كی ھر پھلو سے اصلاح كر سكیں ۔


متعلقہ تحریریں:

احسن انداز سے بات کرنا سیکھیں

بدخلقي

حسن خلق كے اُخروى فوائد

اخلاق حسنہ

آداب نشست

نبی اکرم (ص) کے کھانا کھانے اور آرائش کے آداب

بداخلاقى كا انجام

ظاہرى آرائش، مہمان نوازى اور عيادت  کے آداب

آپ (ص) کے رخصتی اور دوسروں کو پکارنے کے وقت اخلاق

 آنحضرت (ص) كا لوگوں كے ساتھ سلام کرنا