• صارفین کی تعداد :
  • 2457
  • 7/13/2010
  • تاريخ :

آیۃ اللّہ العظمی سید ابوالحسن اصفھانی کے اخلاقی فضائل

بسم الله الرحمن الرحیم

آیت اللہ اصفھانی اسلامی معارف اور علوم میں مرد مجاھد ہونے كے علاوہ اخلاقی صفات و كمالات سے بھی آراستہ اور پیراستہ تھے ۔ انكساری ، تذكیہ نفس ، سادہ زندگی ، ایثار و قربانی ، توكل بر خدا اور ائمہ معصومین سے توسل آیت اللہ اصھانی كے منجملہ فضائل تھے كہ جن پر دوستوں اور دشمنوں سب كو یقین تھا ۔

سنہ ۱۳۲۹ق میں ایك شخص كو آیت اللہ اصفھانی كے ساتھ كسی بنا پر خصومت اور دشمنی ہوگئی تو اس نےحالت نماز میں ان كے عالم و فاضل فرزند ارجمند كو خنجر سے قتل كردیا ، قاتل پكڑا گیا اور قید ہوگیا آیت اللہ اصفھانی نے اپنا نمایندہ قیدخانہ بھیج كر اسے آزاد كرادیا ۔ ان كا یہ عمل سب كے لیے مخصوصا قاتل كے لیے بہت حیرت انگیز تھا ۔

آیت اللہ اصفھانی نہایت ایك سادہ زندگی گزارتے تھے مادیات سے انہیں كوئی لگاؤ نہیں تھا ۔ ابتدائے طالب علمی میں حوزہ علمیہ كے سخت حالات كے ساتھ سازگار تھے ۔ مالی وضعیت بہتر نہ ہونے كی وجہ سے سخت شرائط میں زندگی گزارنا ان كا نصب العین تھا ۔ ایك دفعہ كا ذكر ہے كہ جس گھر میں آپ رہتے تھے اس كی قرادداد تمام ہونے كی وجہ سے مالك مكان نے انہیں گھر سے نكال دیا ان كے پاس اتنے پیسے نہیں تھے كہ كوئی دوسرا مكان كرائے پر لیں ، پندرہ دن تك ایك ویران جگہ میں بیوی بچوں كےساتھ رہنے پر مجبور ہوئے اور اس كے بعد ایك مكان كرائے پرلیا ۔ 1

آپ مرجع تقلید كے مقام پر فائز ہونے كے بعد بھی پہلے ہی كی طرح سادہ زندگی گزارتے تھے درحالیكہ شرعی وجوھات یعنی خمس و زكات كا پیسہ آپ كے پاس رہتا تھا لیكن اس كو اپنی شخصی زندگی میں صرف نہیں كرتے تھے ۔ كوئی فقیر یا محتاج اگر آپ كے درخانہ پر آئے تو خالی ہاتھ واپس نہیں كرتے تھے ۔ ایك بار عراق كے رہبر انقلاب آیت اللہ محمد تقی شیرازی جب سید ابوالحسن اصفھانی كی اقتصادی حالت سے مطلع ہوئے تو ۵۰۰ لیرہ سونا ان كے لیے بھیجا تاكہ اس كو بیچ كر اس كے پیسے سے گھر خرید لیں لیكن آپ نے اس كو بیچ كر اس كا پیسہ فقیروں میں تقسیم كردیا اور خود اسی تنگدستی كے عالم میں باقی رہے ۔ 2

دوراندیش

آیت اللہ امینی جبل عاملی آیت اللہ اصفھانی كے بارے میں كہتے ہیں :

سنہ۱۳۵۲ق میں میں نے عراق كا سفر كیا اور جب ان سے ملاقات كی تو میں نے انہیں ایك كھلے ذھن كے مالك اور روشن فكر شخصیت پایا ۔

آپ علم فقہ میں گہری نظر ركھتے تھے ۔ دور اندیش اورموقعیت شناس تھے سب لوگوں پر شفیق اور مہربان تھے ۔ یہی خصوصیات باعث بنیں كہ عالم تشیع كی رہبری كی ڈور آپ كے ہاتھ میں دی گئی ۔ 3

فتوای دینے میں شجاعت كا اظہار

آیت اللہ اصفہانی دینی احكام كو بیان كرنے اور فتوا دینے میں ایك شجاع آدمی تھے اور كسی سے خوف و ہراس نہیں ركھتے تھے چاہے ظاہرا انہیں كو نقصان ہی كیوں نہ پہنچے ۔ وہ اس آیہ كریمہ ( یجاھدون فی سبیل اللہ و لا یخافون لومۃ لائم ) كے مصداق كامل تھے ۔ آیت اللہ اصفھانی كے منجملہ فتاوا كہ جہنوں نے ھنگامہ كھڑا كردیا تھا محرم اور عاشورا كے سلسلے میں ان كا نظریہ تھا كہ قمہ زنی ، زنجیر زنی اور بینڈ باجا وغیرہ ایام محرم میں مخصوصا عاشورا كو شرعی لحاظ سے حرام ہے ۔

ان كا یہ فتویٰ ایك طرف سے لوگوں كی دیرینہ سنت كے خلاف تھا اور دوسری طرف سے بہت سارے علماء كے عقیدوں كے برعكس تھا اس وجہ سے اس فتویٰ كی شدید مخالفت كی گئی اور بعض ذاكروں نے اپنی تقریروں كے اندر ان كی اہانت كی لیكن انہوں نے اپنے اس فتویٰ كو ہرگز واپس نہیں لیا ۔ انہوں نے استعماری طاقتوں كا بھی اسی طریقہ سے مقابلہ كرتے ہوئے فتویٰ دیا كہ ان كے خلاف قیام كرنا سب پر واجب ہے ۔

وفات

آیت اللہ سید ابوالحسن اصفھانی زندگی كے آخری لمحات تك نجف اشرف میں مقیم رہے آخری عمر میں نہایت نحیف ہوچكے تھے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے ۔ گرمی كے موسم میں نجف كی گرمی كو برداشت نہ كرنے كی وجہ سے كاظمین اور سامراء كا سفر كرتے تھے اس دوران دور و نزدیك سے اور دوست و احباب كی طرف سے فقھی مسائل پوچھنے كی غرض سے آئے ہوئے خطوط كے جواب دیتے تھے ۔ طبیعت اتنی ناساز تھی كہ طبیب نے ایك مناسب آب و ھوا كو انتخاب كرنے كی تجویز ركھی ۔ پہلے تو انہوں نے ایران كو انتخاب كیا لیكن جلد ہی اس ارادہ سے منصرف ہو كر لبنان كے شہر بعلبك چلے گئے ۔ جتنی مدت تك رہے حبل عامل ، بعلبك ، بیروت ، دمشق اور شام كی دوسری جگہوں كی علماء اور فضلاء نے ان سے ملاقات كی ۔ طبیعت كسی حد تك بحال ہو چكی تھی لیكن اچانك ایك دن كہیں سے گرگئے جس كی وجہ سے حالت پھر سے ناساز ہوگئی كاظمین واپس لانے كے بعد ۹ ذی الحجہ ۱۳۶۵ق كو ۸۱ سال كی عمر میں انتقال كر گئے ۔

آیت اللہ اصفھانی كے جسد مبارك كو كاظمین سے نجف لایا گیا اور صحن مطہر امیر المومنین (ع) میں ان كے بیٹے شہید سید محمد حسن كے پہلو میں دفن كر دیا گیا.

 

حوالہ جات:

1. وفيات العلماء، جلالى شاهرودى ، ص 240.

2. هكذا عرفتهم، سید محمد تیجانی سماوی، ج 2، ص 114 ـ 115.

3. گنجينه دانشمندان، محمد شريف رازى ، ج 1، ص 220 ـ 221.

 

مصنف : محمد اصغری نژاد  ( شیعہ اسٹیڈیذ  ڈاٹ نیٹ )


متعلقہ تحریریں:

 آیت اللہ بہجت کی یادیں بیٹے اور شاگرد کے زبانی

آیت اللہ علی صافی ـ حیات تا وصال