• صارفین کی تعداد :
  • 2893
  • 3/16/2010
  • تاريخ :

 سورۂ یوسف (ع) کی  55 ویں آیت کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

قال اجعلنی علی خزاین الارض ، انّی حفیظ علیم

یعنی [ یوسف (ع) نے ] کہا : مجھ کو سرزمین (مصر) کے خزانوں کا ذمہ دار بنادے میں محافظ بھی رہوں گا اور علم و دانائي سے بھی کام لوں گا ۔

مصرکے بادشاہ ولید ابن ریان نے یوسف (ع) کو جب اپنا مشیر و امین بنالیا تو جناب یوسف (ع) نے بھی " شاہ کے خواب اور اس کی تعبیر کو پیش نظر رکھ کر " شاہ کے سامنے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے خود کو سرزمین مصر کا خزانہ دار بنا دینے کی تجویز پیش کی کیونکہ انہیں اپنی صلاحیتوں پر یقین تھا اور الہی امداد پر بھی بھروسہ تھا جانتے تھے کہ وہ ملک میں آئندہ سات برسوں کے بعد قحط اور خشکسالی کا جو دور آنے والا ہے اس کے لئے ابھی سے منظم منصوبے کے تحت کام کرسکتے ہیں ۔ سات سال تک گیہوں خوشوں کے ساتھ اس طرح ذخیرہ کرنا کہ اناج خراب نہ ہو اور پھر سات سال تک ملک میں اس طرح تقسیم کرنا کہ کہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے آسان کام نہیں تھا اسی لئے حضرت یوسف (ع) نے خود کو خزانہ دار بنانے کی تجویز رکھی اور شاہ مصر نے بھی ان کی امانت داری پر اعتماد کرتے ہوئے اس تجویز کو قبول کرلیا ۔ ظاہر ہے، عوام الناس کی بھلائي اور آرام و آسائش کے پیش نظر، کسی عوامی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے آمادگي کا اظہار نہ تو خودستائی کہی جا سکتی اور نہ ہی منصب و اقتدار کی ہوس کا الزام عائد کیا جا سکتا ۔ چنانچہ تاریخی روایات میں آیا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے قحط و خشکسالی کے سات سال جب تمام ہوگئے تو شاہ مصر سے کہا تھا : سرکاری عہده و مقام اور مال و منال کی صورت میں جو کچھ بھی میرے پاس ہے میں تجھے واپس کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ حکومت میرے لئے لوگوں کی نجات کا وسیلہ تھی اور اب تم سے بھی میری یہی خواہش ہے کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آنا۔

 اور اب زير بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ : 

  ہمیں خود کو خطا و انحراف سے محفوظ نہیں سمجھنا چاہئے ، کسی کا بھی اپنی پاکدامنی پر اترانا اور اکڑنا مناسب نہیں ہے کیونکہ شیطانی حملے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے اور خدا ہی اس سے بچا سکتا ہے ۔

  انبیاء ؤ اولیا علیہم السلام کو بھی نفسانی خواہشات سے تحفظ کے لئے الہی لطف و رحمت کی پناہ میں رہنا پڑتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف (ع) نے بے عفتی کے ماحول میں اللہ کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کی تھی۔

خدا کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، نفسانی خواہشوں کی یلغار سے بھی خدا نجات عطا کرسکتا ہے ۔

 حکومت کی اہم ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لئے تجربے اور لگن کے ساتھ احساس ذمہ داری اور صداقت و امانت داری بھی ضروری ہے اور کسی ذمہ داری کے ساتھ قوت و اقتدار بھی سپرد کرنا لازم ہے ۔

 سچے اور امانت دار افراد سبھی کی نگاہوں میں محترم ہوتے ہیں شاہ اور فقیر سب اس کا احترام کرتے ہیں جبکہ جھوٹے ، خائن اور بد دیانت افراد معاشرے میں اپنی ساکھ کھودیتے ہیں چاہے شاہ سے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہوں ۔

جہاں لازم ہو اپنی قوت و صلاحیت کے اظہار میں کوئی عیب نہیں ہے عہدۂ و منصب کا حصول خدمت کے لئے ممدوح اور اقتدار کی ہوس کی صورت میں مذموم ہے ۔

  ذمہ داریاں سپرد کرتے وقت قوم قبیلے اور زبان کو معیار بنانا صحیح نہیں ہے ، قوت و صلاحیت کو بنیاد بنانا چاہئے  ، حضرت یوسف (ع) مصر کے نہیں تھے اور بظاہر ایک بردہ کی حیثیت سے شہر میں لائے گئے تھے لیکن شاہ مصر نے جب علم و دانش اور تدبر و فراست کا اندازہ لگالیا اپنے ملک کی اہم ترین ذمہ داری انہیں سونپ دی ، قرآن کی اس نصیحت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے ۔

اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

سورہ یوسف ۔ع ۔ (44,49) ویں آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (44,45) ویں آیات کی تفسیر