• صارفین کی تعداد :
  • 3624
  • 11/16/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع ۔ (52 -50) ویں آیات کی تفسیر

قرآن

 بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اہلبیت اطہار علیہم السلام پر درود و سلام کے ساتھ الہی تعلیمات پر مشتمل " پیام قرآن " میں آج ہم اپنی یہ سلسلہ وار گفتگو سورۂ یوسف (ع) کی پچاسویں آیت کی تشریح و تفسیر سے شروع کررہے ہیں ارشاد ہوتا ہے :

" و قال الملک ائتونی بہ فلمّا جاءہ الرّسول قال ارجع الیٰ ربّک فسئلہ ما بال النّسوۃ الّتی قطّعن ایدیہنّ انّ ربّی بکیدہنّ علیم "


اور شاہ (مصر) نے کہا : اس [ تعبیر دینے والے یوسف ( ع ) ] کو میرے پاس لاؤ ، چنانچہ شاہ کا فرستادہ جب ان [یوسف (ع)]  کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا : اپنے حکمراں کے پاس واپس جاؤ اور پوچھو کہ ان عورتوں کا صحیح واقعہ کیا ہے کہ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے ؟ ان کی مکاری اور حیلے کو میرا مربی اور پروردگار یقینا" اچھی طرح جانتا ہے ۔

عزیزان محترم ! جیسا کہ ہم نے عرض کیا ، بادشاہ کے خواب کی تعبیر ، جس وقت جیل کے مصاحب نے کسی بھی تمہید کے بغیر یوسف (ع) سے پوچھی تھی تو انہوں نے فوری طور پر کسی شرط و شرائط کے بغیر بیان کر دی تھی اور نہ صرف تعبیر دیدی تھی بلکہ قحط اور خشکسالی سے نجات کے لئے منصوبہ بند پروگرام بھی پیش کردیا تھا جس کو سن کر شاہ مصر کو پتہ چل گیا تھا کہ اس کی جیل میں ، کس طرح کا ایک عالم و فرزانہ اہل فراست و تدبیر، قیدی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس نے فورا" قیدی کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم دے دیا تھا مگر اب جبکہ شاہ نے انہیں دربار میں لانے کے لئے اپنا قاصد بھیجا تو حضرت یوسف (ع) نے شاہ کے پیغامبر کی پیش کش کو لوٹا دیا کہ پہلے مجھ کو قید میں ڈالے جانےکی وجہ اور مجھ پر عائد کئے گئے جرم کی تحقیق ہونی چاہئے تا کہ میرا بے قصور ہونا دنیا پر آشکار ہوجائے ورنہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ مجھے محض شاہانہ لطف و بخشش کے تحت آزادی حاصل ہوئی ہے اسی لئے کہتے ہیں " جاؤ شاہ سے پوچھو " انہیں ان عورتوں کے واقعہ کی بھی خبر ہے کہ جنہوں نے اپنے ہاتھ خود کاٹ لئے تھے ؟ عزيز مصر کی بیوی نے کس طرح مصر کی عورتوں کے ساتھ مل کر مکرو فریب کا کھیل کھیلاتھا اور ایک بے گناہ کو قید میں ڈال دیا گیا تھا یہ سب کچھ آشکار ہوجائے تا کہ شاہ کے دل و دماغ پر میرے علم و کمال کا جو نقش ابھرا ہے اس کو یوسف (ع) کے کردار کی حقیقت سے آشنائی اور زیادہ رنگین و خوش نما کردے اور حضرت یوسف (ع) کو اپنی نبوت کے فرائض انجام دینے میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہوجائے پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ایک حدیث میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے حضور اکرم (ص) فرماتے ہیں : مجھے یوسف (ع) کے صبر نے حیرت میں ڈال دیا جس وقت شاہ مصر نے خواب کی تعبیر جاننی چاہی تو یہ نہیں کہا کہ جب تک مجھے آزاد نہیں کرتے میں تعبیر نہیں دونگا لیکن جب ان کو جیل سے آزاد کرنا چاہا تو کہہ دیا : جب تک میرا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہوجائے میں جیل سے باہر نہیں نکلوں گا ۔گویا خدا کے نبی یوسف (ع) نے قید سے عزت اور پاکدامنی کے ساتھ باہر نکلنے کو اہمیت دی تا کہ الہی نبوت کسی بھی رخ سے داغدار نہ ہونے پائے ۔

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی آیت اکیاون میں ارشاد ہوتا ہے :

قال ما خطبکنّ اذ راودتّنّ یوسف عن نّفسہ قلن حاش للّہ ما علمنا علیہ من سوء قالت امرئت العزيز الئن حصحص الحقّ انا راودتّہ عن نّفسہ و انّہ لمن الصّادقین ۔

( یعنی : بادشاہ نے زنان مصر سے ) کہا : جس وقت تم نے یوسف (ع) کو اپنی طرف رجھانے کی غرض سے دعوت دی تھی تمہارے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا ؟ ( زنان مصر نے ) کہا : خدا جو ہر عیب سے پاک ہے جانتا ہے ، ہم نے ان میں کوئی برائي نہیں دیکھی ( اس وقت ) عزيز مصر کی بیوی ( زلیخا) نے بھی کہا اب جبکہ سچائی سامنے آگئی ہے ( میں اقرار کرتی ہوں کہ ) میں نے ہی ان کی خواہش کے خلاف ان کو اپنی طرف دعوت دی تھی ، وہ تو سچے اور با کردار لوگوں میں ہیں ۔

عزیزان گرامی ! اپنے فرستادہ کے ذریعہ جناب یوسف (ع) کا پیغام سننے کے بعد شاہ مصر نے متعلقہ عورتوں سے یوسف (ع) کو قید میں ڈالے جانے سے متعلق واقعہ کی حقیقت دریافت کی کہ جب تم لوگوں نے یوسف (ع) کو اپنی طرف رجھایا تھا انہوں نے کس طرح کا رد عمل ظاہر کیا تھا کیا وہ بھی نفسانی خواہشوں کا شکار ہوگئے تھے یا جوہر انسانیت کا اظہار کیا تھا ؟ واقعے کی حقیقت کیا ہے ؟ اور شاہ کے استفسار پر مصر کی خواتین نے یوسف (ع) کے کردار کی بلندی کا اعتراف کیا اور خدا کی عزت و عظمت کی قسم کھاتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم کو ان کے یہاں کوئی برائی نظر نہیں آئی اب ظاہر ہے زلیخا کے لئے حقیقت پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں تھا اس نے بھی اپنے معشوق کے جوہر کردار پر بنیاد قائم کرکے اس بات کے اعلان کے لئے موقع غنیمت سمجھا کہ میں نے عزیز مصر کے ساتھ کوئی غیر اخلاقی خیانت نہیں کی ہے ہاں یوسف (ع) کے عشق نے مجھے اس قدر دیوانہ کردیا تھا کہ میں نے اپنی ہوس میں مبتلا ہو کر انہیں غلط الزام کے تحت جیل میں ڈال دیا تھا لیکن آج حقیقت برملا ہوجانے کے بعد دل سے اقرار کرتی ہوں کہ میں ہی قصور وار ہوں وہ یقینا" سچے لوگوں میں ہیں ان کا دامن کردار بالکل پاک و صاف ہے ، گویا یہاں قرآن نے الہی سنت کے تحت تقوی و پرہیزگاری کی وسعتوں کو نمایاں کیا ہے کہ کردار اگر بے داغ ہے تو الزام و اتھام کے جیل سے بھی عزت و سرافرازی کے ساتھ باہر نکلتا ہے ۔الہی فیصلے اور ارادے کے تحت حقیقی مجرم نے گناہ کا اعتراف کا اور یوسف (ع) کی بے گناہی دنیا پر آشکار ہوگئی البتہ اس راہ میں صبر و استقامت ضروری ہے کیونکہ حقائق وقت کے ساتھ خود بخود روشن ہوجاتے ہیں ۔

اور اب سورۂ یوسف  (ع) کی آیت باون ارشاد ہوتا ہے :

ذالک لیعلم انّی لم اخنہ بالغیب و انّ اللہ لا یہدی کیدالخائنین

( یعنی یوسف علیہ السلام نے زلیخا کی زبان سے اپنےگناہ کے اعتراف کی خبر کے بعد کہا ) یہ سب کچھ اس لئے میں نے کہا کہ (عزیز مصر ) اچھی طرح سمجھ لے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کی ہے اور سب کو یہ بھی ( پتہ چل جائے ) کہ اللہ خیانت کرنے والوں کی مکاریاں چلنے نہیں دیتا ۔

ظاہر ہے حضرت یوسف (ع) کو شاہ کے پیغامبر نے واقعہ سے متعلق تمام تفصیلات بتائیں تو دربار میں آکر حضرت یوسف (ع) نے اپنی جیل سے رہائی اور دربار شاہ میں حاضری سے متعلق شرط کی وضاحت ضروری سمجھی اور کہا : یہ سب کچھ میں نے اس لئے چاہا تھا کہ عزیز مصر پر اچھی طرح واضح ہوجائے کہ میں نے ان کے حق میں کوئی خیانت نہیں کی ہے میں نے جیل میں رہ کر " بے گناہی " کی سزا کاٹی ہے اور لوگ یہ سمجھ لیں کہ جرم و خیانت کرنے والے اپنے مکر میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے انہیں بالآخر اپنے گناہ کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے ۔یہاں آیت کے سلسلے میں بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ قول یوسف (ع) نہیں ہے خود زلیخا نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ " میں گناہ کا ارادہ رکھتی تھی مگر یوسف (ع)  کی سچائی نے مجھے باز رکھا اور میں نے اپنے شوہر کے حق میں کوئی خیانت نہیں کی ہے ۔بہر صورت ، زلیخا نے گناہ کا اعتراف کیا اور حضرت یوسف (ع) عزت و وقار کے ساتھ جیل سے آزاد کردئے گئے اسی لئے حضرت یوسف (ع) نے کہا ہے کہ اللہ نے حقائق روشن کردئے تا کہ شاہ مصر کو معلوم ہوجائے کہ دنیا کے تمام حادثات میں الہی فیصلہ اہم ترین کردار ادا کرتا ہے ۔

اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

ارباب حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ علماء اور دانشوروں سے ملک و معاشرے کی فلاح و بہبود میں تعاون حاصل کریں حتی اگر اس طرح کے افراد کسی وجہ سے جیل میں ڈال دئے گئے ہوں تو بھی ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو انصاف دلانے کی کوشش کریں ۔

آزادی اسی وقت قدر و اہمیت رکھتی جب بے گناہی ثابت ہوجائے اور انسان عزت و آبرو کے ساتھ رہائی پائے کیونکہ گناہ کے ساتھ آزادی بھی کسی قید سے کمتر نہیں ہے ، ضمیر کی ملامت نے ہی زلیخا کو اعتراف گناہ پر مجبور کردیا تھا ۔

حق ہمیشہ کے لئے نہیں چھپایا جا سکتا کبھی نہ کبھی آشکار ہوکے رہتا ہے اسی طرح باطل کو ہرگز دوام نہیں ہے ایک نہ ایک دن مٹ کررہتا ہے ۔

سماجی رشتوں خصوصا" جنسی مسائل میں تقوی و پاکیزگی ، وہ فضل و شرف ہے جس کا بدکردار افراد بھی اعتراف کرتے ہیں اور زبان سے نہ سہی دل سے ضرور قدر کرتے ہیں ۔اسی طرح

خیانت ، ایک ایسی ناپسند چیز ہے کہ ظالم و کافر بھی حقیقت آشکار ہونے کے بعد سرجھکانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور آنکھ ملاتے ہوئے بھی شرماتے ہیں ۔

اہل ایمان ، اکیلے اور تنہائی میں بھی خدا اور اس کے بندوں کے ساتھ خیانت کرنا عیب سمجھتے ہیں ۔

جو پاک ہے خدا اس کی آبرو کی حفاظت کرتا ہے عفت و پاکدامنی مرد ہو یا عورت دونوں کی زینت و زیور ہے ۔

اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

سورہ یوسف ۔ع ۔ (  41 تا 43 ) آیات کا خلاصہ

سورہ یوسف ۔ع ۔ (41) ویں آیت کی تفسیر