• صارفین کی تعداد :
  • 3885
  • 5/9/2009
  • تاريخ :

حضرت شاہ اسماعیل شہید (حصّہ سوّم )

مزار مقدس شاه اسماعیل شهید

اسی اثنا میں شاہ اسماعیل نے حضرت مولانا سید احمد بریلوی کی بیعت کی۔ آپ وقت کے امام اور مجدد مانے جاتے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے ان کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا اور روحانیت کے مختلف مدارج طے کئے۔ آخر کار آپ اپنے روحانی پیشوا کے ساتھ پنجاب تشریف لائے، اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ ان کا مقصد سکھوں کو غلام بنانا نہیں تھا، بلکہ وہ خدا کی حکومت قائم کر کے ظلم اور استبداد کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔

حضرت شاہ اسمٰعیل شہید نے یہ عقیدہ اپنے دادا بزرگوار اور عم محترم سے حاصل کیا جنہوں نے آخری مغل بادشاہ کی موجودگی میں ہی ہندوستان کو دارالحرب قرار دے دیا تھا۔

میرا یقین محکم ہے کہ شاہ اسمٰعیل شہید اور ان کی جماعت خدا کی حکومت قائم کر کے امن، انصاف اور سچائی کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔

اس ضمن میں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی انقلابی سرگرمیوں کے لئے پنجاب کو کیوں منتخب کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کو سر کرنے کے بعد صوبہ سرحد کو فتح کیا جا سکتا تھا، اور اس طرح اسلامی صوبوں کی تبلیغ بلا کسی رکاوٹ کے ہو سکتی تھی۔

 دوسرے پنجاب میں سکھوں کے مظالم کے باعث بہت بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی مذہبی روایات خطرے میں تھیں۔ شاہ شہید اور ان کی جماعت اس بارود میں چنگاری پھینکنے کا انتظار کر رہی تھی۔ انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا، اور رنجیت سنگھ کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔

میدان جنگ میں حضرت شاہ شہید کی بہادری اور دلیری و استقامت نے حضرت خالد بن ولید، حیدر کرار اور طارق بن زیاد کی یاد تازہ کر دی۔ ابتدا میں بہت سے مقامات فتح ہوئے لیکن قدرت کو مسلمانوں کی بدبختی کا خاتمہ منظور نہ تھا۔

ان کی قسمت میں مصائب تکالیف کے امتحانات ابھی باقی تھے۔ چنانچہ اس اسلامی تحریک کا بھی وہی حشر ہوا جو میسور میں ٹیپو سلطان اور بنگال میں سراج الدولہ کا ہوا تھا۔ دوسری تحریکوں کی طرح اس تحریک کی ناکامی کے اسباب میں بھی مسلمانوں کی غداری کا ہاتھ نمایاں تھا۔

فتح و شکست تو نصیب کی بات ہے اور یہ خدا کو معلوم ہے کہ اس شکست میں کونسی مصلحت پوشیدہ تھی۔ لیکن اگر شاہ شہید کی شاندار کوششوں پر نظر ڈالی جائے تو آپ سے بڑا ہیرو دکھائی نہ دے گا۔ ایک طرف وہ غیر اسلامی رسوم و عقائد کے خلاف قلمی اور لسانی جہاد میں مصروف تھے۔ اور دوسری طرف میدان جنگ میں تلوار لئے گھوڑے پر سوار۔ ایسی پاکیزہ صفات کا ذات واحد میں مجتمع ہونا بہت نادر چیز ہے۔

شاہ شہید کو شہرت اور دولت سے محبت نہ تھی۔ وہ حقیقی خدائی خدمت گار تھے۔ وہ خدا کے جھنڈے کو بلند کرنا چاہتے تھے۔ رضائے ایزدی کی اطاعت اس درجہ موجود تھی کہ معرکہ کارزار میں جب آپ کا سر جسد مبارک سے علیحدہ ہوا تو خون کا ہر قطرہ زبان حال سے پکار رہا تھا:

   جان دی دی ہوئی اس کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

بشکریہ:  جناب مولانا سعید احمد اکبر آبادی ایم اے