• صارفین کی تعداد :
  • 2669
  • 2/17/2009
  • تاريخ :

مشرق کا عظیم ستارہ حضرت آيت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي کی نگاہ میں

علامه اقبال لاهوری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ميں خلوص دل سے عرض کررہا ہوں کہ آج حضرت اقبال کي عظمت ميں جلسہ منعقد کيا جا رہا ہے تو يہ ميري زندگي کے پرجوش اور انتہائي يادگاردنوں ميں سے ہے۔

وہ درخشاں ستارہ جس کي ياد ،جس کا شعر ،جس کي نصيحت اور سبق گٹھن کے تاريک ترين ايام ميں ايک روشن مستقبل کو ہماري نگاہوں کے سامنے مجسم کررہا تھا،آج خوش قسمتي سے ايک مشعل فروزاں کي طرح ہماري قوم کي توجہ کو اپني طرف مبذول کيے ہوئے ہے۔

ہماري عوام جو دنیا ميں اقبال کے پہلے مخاطب تھے،افسوس کہ وہ کافی بعد میں اس سے آگاہ ہوئے ،ہمارے ملک کي خاص صورت حال ،خصوصاً اقبال کي زندگي کے آخري ايام ميں ان کے محبوب ملک ايران ميں منحوس استعماري سياست کا غلبہ اس امر کا باعث بنا کہ وہ کبھي ايران نہ آئے۔

فارسي کے اس عظيم شاعر جس نے اپنے زيادہ تر اشعار اپني مادري زبان ميں نہيں بلکہ فارسي ميں کہے ،کبھي اپني پسنديدہ اور مطلوب فضا،ايران ميں قدم نہيں رکھا ،اور نہ صرف يہ کہ وہ ايران نہ آئے بلکہ سياست نے،جس کے خلاف اقبال عرصہ درازتک برسرِ پيکار رہے ،اس بات کي اجازت نہ دي کہ اقبال کے نظريات و افکار کا بتايا ہوا راستہ اور درس ايراني عوام کے کانوں تک پہنچے جسے سننے کیلئے وہ سب سے زيادہ بے تاب تھے۔ اس سوال کا جواب کہ کيوں اقبال ايران نہيں آئے ،ميرے پاس ہے۔

جب اقبال کي عزت و شہرت عروج پر تھي اور جب برصغير کے گوشہ و کنار ميں اور دنيا کي مشہور يونيورسٹيوں ميں انہيں ايک عظيم مفکر، فلسفي، دانشور ،انسان شناس اور ماہر عمرانيات کے طور پر ياد کيا جاتا تھا، ہمارے ملک ميں ايک ايسي سياست نافذ تھي کہ ايران آنے کي دعوت نہ دي گئي اور ان کے ايران آنے کے امکانات فراہم نہ کئے گئے۔ سالہا سال تک ان کي کتابيں ايران شائع نہ ہوئیں ۔حالانکہ يہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک ميں ايراني اور مسلمان کے تشخص کو نابود کرنے کیلئے غير ملکي ادب و ثقافت کا تباہ کن سيلاب رواں تھا۔اقبال کا کوئي شعر اور کوئي تصنيف مجالس و محافل ميں عوام کے سامنے نہ لائي گئي۔

آج اقبال کي آرزو يعني اسلامي جمہوريت نے ہمارے ملکي ميں جامہ عمل پہن ليا ہے ۔ اقبال لوگوں کي انساني اور اسلامي شخصيت کے فقدان سے غمگين رہتے تھے اور اسلامي معاشروں کي معنوي ذلت اور نااميدي کو سب سے بڑے خطرے کي نگاہ سے ديکھتے تھے ،لہذا انہوں نے اپني تمام تر توانائیوں کے ساتھ مشرقي انسان اورخصوصاً مسلمان کي ذات اوروجود کیلیے کام کیا۔ فارسی زبان جس نے اپنے اقبال کے ذہن کے ساتھ زندگي گذاري ہے ،بات کروں تاکہ اس عظيم اجتماع مين اپنے اوپر ان کے عظيم احسان اور اپنے عزيز لوگوں کے ذہن پر ان کے اثرات کے عظيم حق کو کسي حد تک ادا کرسکيں ۔

اقبال تاريخ اسلام کے نماياں ،عميق اور اعلي شخصيتوں ميں سے ہيں کہ ان کي خصوصيات اور زندگي کے صرف ايک پہلو کو مد نظر رکھا جا سکتا اور ان کے صرف اس پہلو اور اس خصوصيت کے لحاظ سے تعريف نہيں جا سکتي ۔ اگر ہم صرف اسي پر اکتفا کريں اور کہيں کہ اقبال ايک فلسفي ہيں اور ايک عالم ہيں تو ہم نے حق ادا نہيں کيا ۔ اقبال بلاشک ايک عظيم شاعر ہيں اور ان کا بڑے شعراء ميں شمار ہوتا ہے ۔اقبال کے اردو کلام کے بارے ميں اردو زبان و ادب کے ماہرين کہتے ہيں کہ بہترين ہے،شايد يہ تعريف، اقبال کي بڑي تعريف نہ ہو کيونکہ اردو زبان کي ثقافت اور نظم کا سابقہ زيادہ نہيں ہے ليکن اس بات ميں کوئي شک نہيں کہ اقبال کے اردو کلام نے بيسويں صدي کے ابتدائي برسوں ميں برصغير کے افراد پر(خواہ ہندو ہوں یا مسلمان )گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کو اس جد وجہد ميں اس وقت تدريجي طور پر بڑھ رہي تھي ،زيادہ سے زيادہ جوش دلايا ہے۔ خود اقبال بھي مثنوي اسرار خودي ميں کہتے ہيں :

 

باغبان زور کلامم آزمود
مصرعي کاريد و شمشير ي درود

 

اور ميرا استنباط يہ ہے کہ وہ يہاں پر اپنے اردو کلام کے بارے ميں کہتے ہيں جو اس وقت برصغير کے تمام لوگوں کے لئے جانا پہچانا تھا۔

اقبال کا فارسي کلام بھي ميرے نزديک شعري معجزات ميں سے ہے ۔ہمارے ادب کي تاریخ ميں فارسي ميں شعر کہنے والے غير ايراني بہت زيادہ ہيں ليکن کسي کي بھي نشان دہي نہيں کی جا سکتي جو فارسي ميں شعر کہنے ميں اقبال کي خصوصيات کا حامل ہو۔

اقبال فارسي بات چيت اور محاورے سے ناواقف تھے اور اپنے گھر ميں اور اپنے دوستوں سے اردو يا انگريزي ميں بات کرتے تھے ۔ اقبا ل کو فارسي مضمون نگاري اور فارسي نثر سے واقفيت نہيں تھي اور اقبال کي فارسي نثر وہي تعبيرات ہيں جو انہوں نے ،اسرا ر خودي ،اور رموز بے خودي کي ابتداء  ميں تحرير کي ہيں اور آپ ديکھتے ہيں کہ ان کا سمجھنا فارسي زبان والوں کے لئے مشکل ہے۔

اقبال نے ايام طفلي اور جواني ميں کسي بھي مدرسے ميں فارسي نہيں پڑھي تھي اور اپنے والد کے گھر ميں اردو بولتے تھے لہذا انہوں نے فارسي کا انتخاب صرف اس لئے کيا کہ وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے افکار اور مضامين اردو کے سانچے ميں نہيں سما تے تھے اور اس طرح انہوں نے فارسي سے انسيت حاصل کي۔

انہوں نے سعدي اور حافظ کے ديوان اور مثنوي مولانا اور سبک ہندي کے شعراء  مثلاً عرفي،نظيري اور غالب دہلوي نيز ديگر شعراء کے کلام کو پڑھ کر فارسي سيکھي۔اگرچہ وہ فارسي ماحول ميں نہيں رہے اور انہوں نے فارسي کي پرورش گاہ ميں کبھي زندگي نہيں گزاري تھي ليکن انہوں نے لطيف ترين ،دقيق ترين اور ناياب ترين ذہيني مضامين کو اپني طويل (بعض نہايت اعليٰ) نظموں کے سانچے ميں ڈھال کر پيش کيا اور يہ چيز ميري رائے ميں اعليٰ شعري استعداد اور صلاحيت ہے۔اگر آپ ان لوگوں کے اشعار کو ديکھيں جو ايراني نہيں تھے ليکن انہوں نے فارسي کلام کہا تھا اور ان کا اقبال سے موازنہ کريں تو آپ سامنے اقبال کي عظمت واضح تر ہوجائیگي۔

اقبال کے بعض مضامين جن کو انہوں ايک شعر ميں بيان کرديا ايسے ہيں کہ اگر انسان چاہے کہ نثر ميں بيان کرے تو نہيں کر سکتا اور ہميں ايک مدت تک زحمت اٹھاني پڑے گي کہ ايک شعر کو جس کو انہوں نے آساني کے ساتھ بيان کرديا ہے ،فارسي نثرميں جو ہماري اپني زبان بھي ہے ،بيان کريں۔

ميں جناب ڈاکٹر مجبتوي کا ان اشعار کیلئے جو انہوں نے پڑھے ہيں ممنون ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ آپ اقبال کے کلام کو زندہ کيجئے کيونکہ اقبال کو متعارف کرانے کا بہترين ذريعہ ان کا کلام ہے اور اقبال کو کوئي بھي بيان متعارف نہيں کرا سکتا۔

اقبال مانند آفتاب شاعر ہيں اور ان کے بعض فارسي اشعار اپنے عروج ر پہنچے ہوئے ہيں ۔اقبال نے مختلف طرزوں مثلاً ہندي طرز،عراقي طرز اور حتي کہ خراساني طرز ميں بھي شعر کہے ہيں اور نہ صرف يہ کہ صرف شعر کہے بلکہ اچھے شعر کہے ہيں انہوں نے مختلف شعري قالبوں یعني مثنوي،غزل،قطعہ،دوبيتي اور رباعي کا استعمال کيا ہے۔اور جيسا کہ ميں نے عرض کيا کہ قابل تعريف اشعار ہيں اور اعليٰ مضامين کو باندھا ہے ۔بعض اوقات تو ان کا کلام ساتويں آسمان پر پہنچا ہوا ہے اور نماياں حيثيت رکھتا ہے جب کہ اس شخص کو مروجہ فارسي بولنے کي مشق نہيں ہے اور فارسي گھرانے ميں پيدا نہيں ہوا اور فارسي کے مرکز ميں بھي زندگي نہيں گزاري ۔ يہ استعداد ہے لہذا اقبال کي ايک صرف ايک شاعر کي حيثيت سے تعريف ان کے حق ميں کوتاہي ہے۔

اقبال ايک عظيم مصلح اور حريت پسند شخص ہيں اگرچہ حريت پسندي اور سماجي اصلاح ميں اقبال کا رتبہ بہت زيادہ اہم ہے ليکن اقبال کو صرف سماجي مصلح نہيں کہا جا سکتا کيونکہ اسي برصغير ميں اقبال کے ہم عصروں ميں کچھ ہندو اور مسلمان لوگ ہندوستان کے سماجي مصلح مانے جاتے ہيں جن ميں سے اکثر کو ہم پہچانتے ہيں اور ان کي تصنيفات موجود ہيں اور ان کي جدوجہد واضح ہے ۔

خود مسلمانوں ميں مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا محمدعلي ،مولانا شوکت علي،مرحوم قائد اعظم (محمد علي جناح) جيسي نماياں شخصيتيں موجود تھيں جن کي زندگي کے ايام بھي اقبال کي حيات کے مانند تھے۔اور وہ لوگ ايک ہي نسل سے اور ايک ہي عہد سے تعلق رکھتے تھے اورحریت پسندوں و مجاہدوں ميں شامل تھے ليکن اقبال ان سب سے بڑے اور اعلي مقام ہيں ،اقبال کے کام کي عظمت کا ان ميں سے کسي سے بھي موازنہ نہيں کيا جا سکتا ۔ يعني زيادہ سے زيادہ اہميت اور قدر جو مولانا ابوالکلام کے لئے قائل ہيں جو ايک نماياں شخصيت رکھتے ہيں اور حقيقتاً ان کي اہميت کو کم نہيں سمجھنا چاہئے ،يا مولانا محمد علي يا مولانا شوکت علي کے سلسلے ميں ہم جس اہميت کے قائل ہيں ،يہ ہے کہ يہ لوگ انتھک مسلمان مجاہد تھے جنہوں نے اپنے ملک سے برطانيہ کو نکالنے کیلئے سال ہا سال کوشش کي اور اس سلسلے ميں بہت زيادہ جدوجہد کي۔ ليکن اقبال کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہيں ہے بلکہ اسلامي دنيا اور مشرق کا مسئلہ ہے ۔وہ اپني مثنوي (پس چہ بايد کرد اے اقوام شرق )اس بات کي نشان دہي کرتے ہيں کہ اقبال کي تيز نگاہيں کس طرح اس دنيا کي طرف متوجہ ہيں جو ظلم و ستم کا شکار ہے اور ان کي توجہ اسلامي دنيا کے تمام شعبوں کي جانب ہے۔اقبال کیلئے مسئلہ صرف مسئلہ ہند نہيں ہے لہذا اگر اقبال کوايک اجتماعي مصلح بھي پکاريں تو حقيقت ميں ہم اقبال کي پوري شخصيت کو بيان نہيں کرتے اور مجھے وہ لفط اور عبارت نہيں ملتي جس سے ہم اقبال کي تعريف کر سکيں۔

لہذا آپ ديکھئے کہ يہ شخصيت ،يہ عظمت اور اس عظيم انسان کي ذات اور اس کے ذہن ميں معاني کي گہرائي کہاں اور ہمارے لوگوں کي ان کے متعلق واقفيت کہاں اور حق تو يہ ہے کہ ہم اقبال کي شناخت کے مسئلے سے دور ہيں ۔

بہرحال يہ سيمينار بہترين کاموں ميں سے ہے جو انجام پائے ليکن اس پر بھي اکتفا نہيں کرنا چاہئے اور ميں ثقافت و تعليمات کے محترم وزير اور يونيورسٹي سے منسلک بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ملک ميں اقبال کے نام پر فاونڈيشن کے قيام اور يونيورسٹيوں ،ہالوں اور ثقافتي اداروں کے ناموں کو اقبال کے نام پر رکھنے کي فکر ميں رہيں ۔اقبال کا تعلق ہم سے ،اس قوم سے اور اس ملک سے ہے جس طرح کہ اس غزل ميں جو جناب ڈاکٹر مجتبوي نے پڑھي اور آپ نے سني ۔اقبال ايراني عوام سے اپنے لگاؤ کو بيان کرتے ہيں اور کہتے ہيں :

 

چون چراغ لالہ سوزم در خيابان شما
اے جوانان عجم جان من و جان شما

اور آخر ميں کہتے ہيں :

 

مي رسد مردي کہ زنجير غلامان بشکند
ديدہ ام از روزن ديوار زندان شما

 

اور يہ ميري اس بات کي تائید ہے جو اقبال کے ايران نہ آنے کي وجہ کے بيان ميں ،پہلے عرض کرچکا ہوں ۔وہ اس جگہ کو زنداں سمجھتے ہيں اور قيديوں سے مخاطب ہو کر بولتے ہيں ۔اقبال کے ديوان ميں بہت سي مثاليں ہيں جو اس بات کي نشان دہي کرتي ہيں کہ وہ ہندوستان سے نااميد ہوچکے ہيں (کم ازکم اپنے زمانے کے ہندوستان سے) اور ايران کي جانب متوجہ ہيں ۔ وہ چاہتے ہيں کہ وہ مشعل جس کو انہوں نے جلا رکھا ہے ايران ميں مزيد روشن ہو اور انہيں اس بات کي اميد ہے کہ يہاں پر کوئي معجزہ رونما ہو ۔ يہ اقبال کا ہم پر حق ہے اور ہميں چاہئے کہ اس حق کا احترام کريں ۔

اب رہي بات اقبال کي شخصيت کي تو اگر ہم اقبال کي شناخت کرنا چاہيں اور اقبال کے پيغام کي عظمت کو جانيں تو ہميں خواہ مخواہ اقبال کے دور کے برصغير کو اور اس دور کو پہچاننا پڑے گا جو اقبال کے دور پر ختم ہوتا ہے کيونکہ اس شناخت کے بغير اقبال کے پيغام کا مفہوم سمجھا نہیں جا سکتا ہے ۔اقبال کے دور ميں برصغير اپنے سخت ترين ايام گزار رہا تھا ۔جيسا کہ آپ کو معلوم ہے اقبال ١٨٧٧ ع ميں پيد ہوئے يعني مسلمانوں کے انقلاب کي انگريزوں کے ہاتھ شکست کے بيس سال بعد ۔

١٨٥٧ع  ميں انگريزوں نے ہندوستان اسلامي حکومت اور برصغير ميں اسلام کي حکم فرمائي پر آخري ضرب لگائي ۔ہندوستان ميں عظيم بغاوت رونما ہوئي اور شايد يہ بغاوت تقريباً دو تين سال تک جاري رہي ۔اس کا عروج ١٨٥٧ئ کے اوسط ميں تھا،انگريزوں نے موقع سے فائدہ اٹھايا اور اس ضرب کو جو تقريباً ستّر اسّي سال سے ہندوستان پر لگا رہے تھے اچانک فيصلہ کن طور پر لگایا اور اپنے خيال ميں وہاں سے اسلام کي جڑوں کو کاٹ ديا ۔يعني اسلامي حکومت اور مسلمانوں کي حکومت تھي جس کو انہوں نے طويل عرصے سے ادھر اُدھر سے کمزور بنا ديا تھا۔اس کے بہادر سرداروں اور عظيم شخصيتوں کو ختم کرديا تاکہ ہندوستان ميں اسلامي تہذيب کي مضبوط جڑوں کو کمزور کرسکيں ۔اس کے بعد يکباريگي اس تناور اور قديمي درخت کو جس کي جڑيں پہلے ہي کمزور کرچکے تھے اور جس کے محافظوں کو ختم کر چکے تھے اور وہ اکيلا رہ گيا تھا کاٹ کر ختم کرديا اور ہندوستان کو برطانوي سلطنت کا جزو بنا ليا۔

علامہ اقبال بين الا قوامي کانفرنس بتاريخ ١٩٨٦ء کو تہران يونيورسٹي ميں خطاب فرمايا

pak.net