• صارفین کی تعداد :
  • 5956
  • 11/10/2008
  • تاريخ :

غزوہ خیبر سے حجۃ الوداع

باب الخیبر

خیبر یہودیوں کی مضبوط ترین عسکری اساسگاہ تھی کہ جس میں دس ہزار سے زیادہ جنگجو سپاہی مقیم تھے۔ رسول خدا نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے اس جگہ کو ان کے وجود سے پاک کیا جائے۔ چنانچہ ماہ محرم سنہ ۷ ہجری میں سولہ سو جنگ آزما سپاہیوں کو ساتھ لے کر آپ مدینہ سے خیبر کی جانب روانہ ہوئے اور راتوں رات ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ اس لشکر کے پرچمدار بھی حضرت علی علیہ السلام ہی تھے۔

قلعہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اہل و عیال کو ایک قلعے میں اور ساز و سامان و خوراک دوسرے قلعے میں جس کا نام ”امن“ تھا محفوظ  کر دیں۔ اس اقدام کے بعد انہوں نے ہر قلعے کے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ مسلم سپاہ کو قلعے کے اندر داخل ہونے سے روکیں۔ اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس دشمن سے جو قلعے کے باہر موجود ہے جنگ کریں۔

(مغازی ج۲ ص ۶۳۷)

سپاہ اسلام نے دشمن کے سات قلعوں میں سے پانچ قلعے فتح کرلیے جس میں تقریباً پچاس مجاہدین اسلام زخمی ہوئے اور ایک کو شہادت نصیب ہوئی۔

باقی دو قلعوں کو فتح کرنے کے لیے رسول خدا نے پہلے ابوبکر کو پرچم دیا مگر انہیں اس مقصد میں کامیابی نصیب نہ ہوئی اگلے دن عمر کو سپاہ کی فرمانداری دی گئی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکے۔

تیسرے دن حضرت علی علیہ السلام کو قلعہ فتح کرنے کے لیے مقرر کیا گیا۔ آپ نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوگئے۔

یہود کے بہادروں میں ”مرحب“ کا نام شجاعت و دلیری میں شہرت یافتہ تھا وہ زرہ و فولاد میں غرق قلعے سے نکل کر باہر آیا۔ دو جانبازوں کے درمیان نبرد آزمائی شروع ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے پر وار کرتے اور کاری ضرب لگاتے رہے۔ اچانک حضرت علی کی شمشیر براں مرحب کے سر پر پڑی۔ جس کے باعث اس کے خود اور استخوانِ سر کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ مرحب کے ساتھیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے حوصلے پست ہوگئے چنانچہ فرار کرکے قلعے میں پناہ گزیں ہوئے۔ جہاں انہوں نے اپنے اوپر اس کا دروازہ بھی بند کر لیا اور حضرت علی علیہ السلام نے اپنی روحانی طاقت اور قدرت خدا کی مدد سے قلعے کے اس دروازے کو جسے کھولنے اور بند کرنے پر بیس آدمی مقرر تھے اکھاڑ لیا اور اسے باہر بنی ہوئی خندق پر رکھ دیا تاکہ سپاہی اس پر سے گزر کر قلعے میں داخل ہوسکیں۔

امیرالمومنین حضرت علی نے دشمن کے سب سے زیادہ محکم و مضبوط قلعہ کو فتح کرکے فتنہ خیبر کا خاتمہ کر دیا اور یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس جنگ میں پندرہ مسلمان شہید اور ترانوے یہودی تہ تیغ ہوئے۔

(غازی ج۲ ص ۷۰۰)

بسم الله الرحمن الرحیم

یہودیوں پر فتح پانے کے بعد اگر رسول خدا چاہتے تو تمام خیانت کاروں کو سزائے قتل دے سکتے تھے، انہیں شہر بدر اور ان کے تمام مال کو ضبط کیا جا سکتا تھا۔ مگر آنحضرت نے ان کے حق میں درگذشت اور فراخ دلی سے کام لیا چنانچہ انہی کی تجویز پر انہیں یہ اجازت دے دی گئی کہ اگر چاہیں تو اپنے ہی وطن میں رہیں اور اپنے دینی احکام کو پوری آزادی کے ساتھ انجام دیں۔ بشرطیکہ ہر سال اپنی آمدنی کا نصف حصہ بطور جزیہ اسلامی حکومت کو ادا کریں۔ اور رسول خدا جب بھی مصلحت سمجھیں گے انہیں خیبر سے نکال دیں گے۔

(تاریخ ابن کثیر ج۳ ص ۳۷۵)

غزوہٴ خیبر میں ”حی بن اخطب“ کی دختر صفیہ دوران جنگ مسلمانوں کی قید میں آئی تھیں۔ رسول خدا نے ”غزوہٴ خیبر“ سے فراغت پانے کے بعد پہلے تو انہیں آزاد کیا اور ان سے نکاح کرلیا۔ اسی عرصے میں یہ اطلاع ملی کہ حضرت ”جعفر بن ابی طالب“ حبشہ سے واپس آ گئے ہیں۔ جسے سن کر آنحضرت نے فرمایا کہ ان دو خبروں میں سے کس پر اپنی مسرت کا اظہار کروں۔ جعفر کی آمد پر یا خیبر کے فتح ہونے پر۔

(بحارالانوار ج۲۱ ص۲۵)

فدک

خیبر کے یہودیوں پر فتح پانے کے بعد مسلمانوں کا سیاسی، اقتصادی اور نظامی مقام و مرتبہ بہت بلند ہوگیا۔ اس منطقے میں آباد یہودیوں پر کاری ضرب لگی اور ان پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ گیا۔

رسول خدا کو جب خیبر کے یہودیوں کی طرف سے یکسوئی ہوئی تو آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کو وفد کے ہمراہ فدک کے یہودیوں کے پاس روانہ کیا اور فرمایا کہ یا تو وہ دین اسلام قبول کریں یا جزیہ دیں اور یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔

فدک کے یہودی اپنی آنکھوں سے خیبر کے یہودیوں کی شکست و ریخت دیکھ چکے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ انہوں نے رسول خدا کے ساتھ مصالحت کرلی ہے اسی لیے انہوں نے صلح کو قتل قید و بند پر ترجیح دی۔ اور اس بات کے لیے آمادہ ہوگئے کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے جو خیبر کے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔ رسول خدا نے ان کی درخواست قبول کرلی۔

چونکہ فدک کسی جنگ و خون ریزی کے بغیر فتح ہوگیا تھا اسی لیے اسے خالص رسول کی ذاتی ملکیت میں شامل کرلیا گیا۔ اس جگہ کے متعلق ایسی بہت سی روایات موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کے حکم سے رسول خدا نے فدک اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہ علیہا السلام کو عطا کر دیا۔

(تفسیر البرہان)

غزوہٴ وادی القریٰ

رسول خدا نے یہود کی ”خیبر“ اور ”فدک“ جیسی پناہ گاہوں کو نیست و نابود کرنے کے بعد ”وادی القریٰ“ کی تسخیر کا ارادہ کیا اور یہودیوں کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ قلعہ بند رہنے سے کوئی فائدہ نہیں تو انہوں نے بھی اپنی شکست تسلیم کرلی۔ رسول خدا نے ان کے ساتھ بھی وہی عہد و پیمان کیا جو اس سے قبل خیبر کے یہودیوں کے ساتھ کیا جا چکا تھا۔

”تیماء“ کے یہودیوں نے جو کہ ’ہتیماء یہود‘کے نام سے مشہور تھا اور اس کے باشندے رسول خدا کے سخت دشمن تے۔ جب دوسرے بھائیوں کی یہ حالت دیکھی تو ان سے درسِ عبرت حاصل کیا اور اس سے قبل کہ رسولِ اسلام ان کی گوشمالی کے لیے ان کی جانب رخ کریں وہ خود ہی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ وعدہ کرکے کہ ”جزیہ“ ادا کریں گے رسول خدا سے معاہدہ صلح کرلیا اور اس طرح حجاز میں جتنے بھی یہودی آباد تھے انہوں نے اپنی شکست قبول کرلی اور یہ تسلیم کرلیا کہ اس منطقے کی اصل طاقت اسلام ہی  ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

مکہ کی جانب روانگی

حب حجاز میں اندرونی طور پر امن بحال ہوگیا، اور دشمنوں کو اسلحہ سے بے دخل کرکے شورشوں اور سازشوں کا قلع قمع کردیا گیا نیز صلح ”حدیبیہ“ کو ایک سال گزر گیا تو رسول خدا نے فیصلہ کیا کہ اصحاب کے ہمراہ مکہ تشریف لے جائیں اور زیارت کعبہ سے مشرف ہوں۔ چنانچہ بتاریخ اول ذی القعدہ سنہ ۷ ہجری میں آنحضرت دو ہزار مسلم افراد کے ہمراہ عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔

وہ قافلہ جو عمرہ کرنے کی نیت سے روانہ ہوا تھا اس کے آگے آگے سو مسلح گھڑ سوار چل رہے تھے تاکہ دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ ہو تو وہ ان مسافرین کا دفاع کرسکیں جن کے پاس اتنا ہی اسلحہ تھا جسے عام مسافر وقت سفر ان دنوں رکھا کرتے تھے۔

جس وقت مسلح سپاہ اسلام کا پیش دستہ ”مراء ظہران“ نامی مقام پر پہنچا تو قریش کے سرداروں کو مسافرین کی آمد کا علم ہوا۔ چنانچہ انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ اسلحہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہونا صلح ”حدیبیہ“ کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

 

اس پر رسول خدا نے فرمایا کہ ہم اسلحہ ساتھ لے کر حرم میں نہیں جائیں گے۔ مشرکین نے مکہ خالی کر دیا۔ اور اطراف کے پہاڑوں پر چڑھ گئے تاکہ رسول خدا اور اصحاب رسول خدا کی تبلیغ سے محفوظ رہتے ہوئے ان کی حرکات نیز افعال کا مشاہدہ کرسکیں۔

رسول اکرم خاص جاہ و جلال کے ساتھ مکہ میں تشریف فرما ہوئے۔ جس وقت آپ خانہ کعبہ کی جانب تشریف لے جا رہے تھے تو فضا ”لبیک اللھم لبیک“ کے نعروں سے ایسی گونج رہی تھی کہ جس سے مشرکین کے دلوں پر غیر معمولی رعب و خوف طاری ہوگیا۔

ناقہٴ رسول اکرم کی زمام حضرت ”عبداللہ بن رواحہ“ پکڑ کر چل رہے تھے۔ وہ نہایت ہی فخریہ انداز میں رجزیہ بیت پڑھ رہے تھے۔

خلوا بنی الکفار عن سبیلہ خلوا فکل الخیر فی رسولہ

”اے کفار کی اولاد رسول خدا کے کے لیے راستہ صاف کر دو۔ انہیں آگے آنے کے لیے راستہ دو کیونکہ آنحضرت ہر خیر کا منبع اور ہر نیکی کا سرچشمہ ہیں۔“

رسول خدا پر اصحاب رسول پروانہ وار نثار تھے۔ چنانچہ آپ ان کے حلقے میں خاص رعب و دبدبے کے ساتھ داخل مکہ ہوئے۔ اور طواف کرنے کے لیے ”مسجد الحرام“ میں تشریف لے گئے۔

اس سیاسی عبادی سفر سے جس قدر ممکن ہوسکتا تھا فائدہ اٹھانے کی خاطر رسول خدا نے فرمایا کہ زائرین زیادہ سے زیادہ اپنی دینی قوت کا مظاہر کریں۔  نیز جس وقت طواف کریں تو حرکت تیزی کے ساتھ کی جائے۔ احرام کے کپڑے کو اپنے جسم کے ساتھ اس طرح لپیٹیں کہ قوی و تنومند بازو لوگوں کو نظر آئیں تاکہ دیکھنے والوں پر ان کی ہیبت طاری ہو جائے۔

 (ابن کثیر ج۳ ص ۴۳۲)

ظہر کے وقت حضرت ”بلال“ کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا کہ وہ خانہ کعبہ کی چھت پر جائیں اور اذان دیں تاکہ خداوند تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول خدا کی عظمت مجسم کا اہل مکہ عینی مشاہدہ کرسکیں۔ اور جو لوگ فرار کرکے پہاڑوں پر چلے گئے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ اب وقت فرار گزر چکا ہے۔ واپس آجاؤ نماز اور فلاح و بہبود کی جانب آنے میں جلدی کرو۔

بسم الله الرحمن الرحیم

حی علی الصلواة حی علی الفلاح

حضرت باب کی اس آواز نے قریش کے سرداروں پر ہر کچل دینے والی ضرب اور ہر شمشیر براں سے زیادہ اثر کیا۔ اور انتہائی طیش و غضب میں آ کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے باپ دادا اس غلام کی آواز سننے سے پہلے ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے اور انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

اس طرح ”عمرة القضا‘و ادا ہوا۔ جس کے ذریعے خانہ کعبہ کی زیارت بھی ہوگئی اور عبادت بھی۔ اس کے ساتھ ہی کفر کو اسلام کی طاقت کا اندازہ اور آئندہ سال فتح مکہ کا میدان بھی کامیابی کے ساتھ ہموار ہوگیا۔ چنانچہ اس کے بہت سے سیاسی، عسکری اور ثقافتی اثرات نہ صرف اہل مکہ اور اطراف کے قبائل پر مترتب ہوئے۔ بلکہ خود مسلمانوں کے قلوب پر نقش ہوئے۔

 

یہ سیاسی، عبادی تحریک قریش سرداروں کے دلوں پر ایسی شاق و گراں گزری کہ انہوں نے تین دن بعد ہی رسول خدا کی خدمت میں اپنا نمائندہ بھیجا اور کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے مکہ سے چلے جائیں۔

اس سفر میں رسول خدا نے مکہ کی ”میمونہ‘و نامی خالون سے رشتہ ازودواج قائم کیا تاکہ قریش کا تعلق آپ کے ساتھ مستحکم اور دشمنی و عداوت کا جذبہ کم ہو جائے۔ کیونکہ قریش سرداروں سے قرابتداری تھی۔ یہی نہیں بلکہ رسول خدا نے یہ بھی چاہا کہ شادی کی رسومات مکہ ہی میں انجام پذیر ہو جائیں اور آپ قریش کو دعوت ولیمہ میں مدعو فرمائیں اگر یہ کام انجام پزیر ہو جاتا تو اہل مکہ کو اپنی طرف مائل کرنے میں موثر اقدام ہوتا۔ مگر افسوس اہل مکہ نے اس تجویز کو قبول نہ کیا۔ چنانچہ رسول خدا نے یہ رسم مکہ سے واپس آتے وقت ”سرف“ نامی مقام پر ادا کی۔

جنگ موتہ

خیبر، فدک، وادی القریٰ اور تیماء جیسے یہود کے مراکز اور اہم مقامات مدینہ کے شمال اور مدینہ و شام کی شاہراہ کے درمیان واقع تھے ان کا قلع قمع ہونے کے ساتھ ہی اسلام کے لیے سیاسی و معنوی میدان شمالی سرحدوں کی جانب مزید فراہم ہوگئے۔

 

اس منطقے کی اہمیت اولاً اس وجہ سے تھی کہ وہ عظیم ترین تمدن جو اس زانے میں سیاسی، عسکری، اجتماعی اور ثقافتی اعتبار سے انسانی معاشرے کا اعلیٰ و برجستہ ترین تمدن شمار کیا جاتا تھا۔ یہیں پرورش پا رہا تھا۔ دوسری وجہ اس کا سرشچمہ آسمانی آئین و قانون تھا۔ یعنی وہ آئین و قانون جس کی دین اسلام سے بیشتر واقفیت و ہم آہنگی ہونے کے علاوہ اس کے اور اسلام کے درمیان بہت سی مشترک اقدار تھیں اور یہ مقام دیگر مقامات کی نسبت بہتر طور پر اور زیادہ جلدی حالات کو درک کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ جگہ مدینہ سے نزدیک تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ رسول خدا نے فتح مکہ سے قبل روم کی جانب توجہ فرمائی۔

 

رسول خدا نے حضرت ”حارث بن عمیر“ کے ہاتھ خط ”بصرہ“ کے بادشاہ کے نام جو ”قیصر“ کا دست پروردہ تھا روانہ کیا۔ جس وقت رسول خدا کا یہ ایلچی ”موتہ“ نامی گاؤں پہنچا تو ”شرجیل غسانی“ نے اسے قتل کر دیا۔ یہ واقعہ رسول خدا پر انتہائی شاق گزرا۔ اور آنحضرت نے فوراً یہ فیصلہ کرلیا کہ اس کا سدباب کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے ماہ جمادی الاول سنہ ۸ ہجری میں تین ہزار سپاہ پر مشتمل لشکر ”موتہ“ کی جانب روانہ کر دیا۔

 

اس وقت تک مدینہ سے باہر جتنے بھی لشکر روانہ کئے گئے ان میں یہ سب سے بڑا لشکر تھا رسول خدا اسے رخصت کرنے کے لیے مسلمانوں اور سپاہ کے قرابت داروں کے ہمراہ مدینہ کے باہر تک تشریف لائے۔ حضرت ”زید بن حارث“ کو فرماندار کل نیز حضرت ”جعفر بن ابی طالب“ و حضرت ”عبداللہ بن رواحہ‘و کو حضرت زید کا معاون اول و دوم مقرر کرنے کے بعد آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ جس معرکہ کو سر کرنے کے لیے جا رہے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی آنحضرت نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔

 

لشکر اسلام شام کی جانب روانہ ہوا۔ ”معان‘و نامی مقام پر اطلاع ملی کہ قیصر کے دو لاکھ عرب اور رومی سپاہی ”قاب“ نامی مقام پر جمع ہوگئے ہیں۔

(معجم البلدان ج۵ ص ۱۵۳)

بسم الله الرحمن الرحیم

یہ خبر سننے کے بعد مسلمانوں میں تردد پیدا ہوگیا۔ اور یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ واپس چلے جائیں یا وہیں مقیم رہیں اور پورے واقعے کی اطلاع رسول خدا کو پہنچائیں۔ اسی مختصر سپاہ کو ساتھ لے کر اس فرض کو انجام دیں جس پر انہیں مقرر کیا گیا ہے اور سپاہ روم کے ساتھ جنگ کریں۔

اس اثناء میں حضرت ”عبداللہ بن رواحہ“ اپنی جگہ سے اٹھے سپاہ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انہیں یہ ترغیب دلائی کہ اپنے فرض کو وہ ادا کریں اور سپاہ روم کے ساتھ نبرد آزما ہوں۔ ان کی تقریر نے سپاہ کے اندر ایسا جوش و ولولہ پیدا کیا کہ سب نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ سپاہ روم کے ساتھ جنگ کی جائے۔ چنانچہ اس کے بعد وہ لشکر موتہ میں ایک دوسرے کے مقابل تھے۔

حضرت زید نے پرچم سنبھالا اور جان پر کھیل کر دوسرے مجاہدین کے ساتھ شہادت کے شوق میں بجلی کی طرح کوندتے ہوئے سپاہ دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ دشمن تجربہ کار اور جنگ آموزدہ تھا۔ اس کا لشکر نیزوں، تلواروں اور تیز رفتار تیروں سے آراستہ تھا۔ اور اس طرف کلمہ توحید، جسے بلند و بالا کرنے کے لیے سپاہ اسلام نے ہر خطرہ اپنی جن پر مول لیا۔ اور سپاہ روم پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے دین و آئین اور مقدس مقصد کو فروغ دینے کی خاطر جان تک دینے کے لیے دریغ نہیں کرتے ہیں۔

 

دشمن کا رخ سپاہ اسلام کے پرچمدار کی جانب تھا۔ اس نے اسے اپنے نیزوں کے حلقے میں لے کر زمین پر گرا دیا۔ حضرت ”جعفر بن ابی طالب“ نے فوراب ہی پرچم کو لہرایا اور دشمن پر حملہ کر دیا۔ جس وقت انہوں نے خود کو دشمن کے نرغے میں پایا اور یہ یقین ہوگیا کہ شہاتد قطعی ہے تو اس خیال سے کہ ان کا گھوڑا دشمن کے ہاتھ نہ لگے اس سے اتر گئے اور پیدل جنگ کرنے لگے یہاں تک کہ ان کے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے۔ آخرکار تقریباً اسی (۸۰) کاری زخم کھا کر شہادت سے سرخرو ہوئے۔ حضرت جعفر کی شہادت کے بعد حضرت عبداللہ رواحہ نے پرچم اسلام کو سنبھالا اور سپاہ روم کے قلب پر حملہ کر دیا۔ وہ بھی دلیرانہ جنگ کرتے کرتے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔

 

”خالد ابن ولید حال ہی میں مشرف بہ اسلام ہوا تھا وہ بڑا ہی دلیر و جنگجو انسان تھا۔ سپاہ کی تجویز پر انہیں فرماندار کل مقرر کر دیا گیا۔ جب انہیں جنگ کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہ آیا تو انہوں نے اب جنگی حربہ جس کی وجہ سے رومیوں میں تردد پیدا ہوگیا اور اس نے اپنی فوج کو یہ سوچ کر پیچھے ہٹا دیا کہ آیا جنگ کی جائے یا نہیں؟ اور اپنی اس حکمت عملی سے انہوں نے دشمن کے دو لاکھ سپاہیوں سے سپاہ اسلام کو نجات دلائی۔ اور واپس مدینہ آ گئے۔ (مغازی ج۲ ص ۷۵۵)

ابن ہشام نے اس جنگ میں شہداء کی تعداد بارہ اور واقدی نے آٹھ نفر بیان کی ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

جنگ موتہ کے نتائج

جنگ موتہ بظاہر مسلمانوں کی شکست اور فرمانداروں کی موت پر تمام ہوئی اور قریش نے اسے اپنی دانست میں مسلمانوں کی زبونی و ناتوانی سے تعبیر کیا۔ اس جنگ کے بعد وہ ایسے دلیر ہو گئے کہ انہوں نے قبیلہ ”بنی بکر“ کو اس وجہ سے مدد دینی شروع کر دی کہ اس کی ان لوگوں کے ساتھ ساز باز ہو چکی تھی۔ جس کے پس پشت یہ فیصلہ تھا کہ وہ ان کے اور قبیلہ ”خزاعہ“ کے درمیان اس بنا پر کشت و کشتار کا بازار گرم کرا دیں کہ اس قبیلے کا رسول خدا کے ساتھ دوستی کا عہد و پیمان ہے، چنانچہ انہوں نے قبیلہ ”خزاعہ“ کے چند افراد کو قتل کر دیا اور صلح نامہ حدیبیہ سے بھی روگرداں ہو گئے نیز رسول خدا کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ جب ہم اس جنگ کی اہمیت و قدر کے بارے میں غور و فکر کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ جنگ سیاسی طور پر اور دین اسلام کی اشاعت کے لیے نہایت سود مند و کارآمد ثابت ہوئی۔

 

 کیونکہ اس وقت ایران اور روم جیسی دو بڑی طاقتوں کا اس عہد کی دنیا پر تسلط و غلبہ تھا۔ ان کے علاوہ جو بھی دوسری حکومتیں تھیں وہ سب انہی کی دست پروردہ تھیں۔ اور ان کے ساتھ ہم چشمی و برتری حاصل کرسکیں گی۔ ان دونوں حکومتوں میں بھی رومیوں کو ایرانیوں پر اس وجہ سے برتری حاصل تھی کہ انہوں نے ایران سے جنگ و نبرد میں مقابلہ کرکے مسلسل اور لگاتار فتوحات حاصل کی تھیں۔

 

جزیرہ نما عربستان کو ایران نے شرقی جانب سے اور روم نے مغرب کی طرف سے اس طرح اپنے حلقے اور نرغے میں لے رکھا تھا کہ جیسے انگوٹھی کے درمیان نگینہ اور ان دونوں ہی بڑی طاقتوں کے اس غطہ، ارض سے مفادات وابستہ تھے اور انہوں نے یہاں اپنی نو آبادیات بھی قائم کر رکھی تھیں۔

جنگ موتہ نے ان دنوں بڑی طاقتوں بالخصوص روم کو یہ بات سمجھا دی کہ اس کے اقتدار کا زمانہ اب ختم ہونا چاہتا ہے اور دنیا میں تیسری طاقت ”اسلام“ کے نام سے  منظر عام پر آ چکی ہے۔ اور اس کے پیروکار ایمان کے زیر سایہ اور اس خلوص و عقیدت کی بنا پر جو انہیں اس دین اور اس کے قائد سے ہے اپنے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کر لیتے ہیں اور اس کی حصول کی خاطر وہ دشمن کی کثیر تعداد اور سامان جنگ کی فراوانی سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہوتے، چنانچہ یہی وہ کیفیت تھی جس نے ان بڑی طاقتوں کے دلوں پر اسلام کا رعب و دبدبہ قائم کر دیا۔

 

دوسری طرف ان لوگوں کو جو جزیرہ نما عرب میں ان طاقتوں کے دست پروردہ تھے عملی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ وہ انگشت شمار لوگ جو مقصد وارادے میں مضبوط و محکم ہیں روم جیسی بڑی طاقت سے جس کی سپاہ کی تعداد کل مسلمانوں کی تعداد سے ساٹھ گنا زیادہ ہے ٹکر لے سکتے ہیں۔ اور ان کے گھروں میں گھس کر انہیں ذلیل و خوار تک کرسکتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ اب دشمنانِ اسلام اس کی عسکری طاقت کا اعتراف کرنے لگے اور اس کی عظمت کا جذبہ ان کے دلوں میں پیدا ہو گیا۔ اور اب انہیں یہ بخوبی اندازہ ہوگیا کہ آئندہ مسلمان ان کے سامنے زیادہ قوی و حوصلہ مندی کے ساتھ اب سے زیادہ وسیع و کشادہ تر میدانوں میں نبرد آزما ہونے کے لیے نمایاں طور پر منظر عام پر آنے لگیں گے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

غزوات فتح و حنین اور طائف

رسول اکرم کے لیے صلح ”حدیبیہ“ کے بعد یہودیوں کے خطرات دور کرنے اور مدینہ کے شمال میں آباد عرب قبائل کے درمیان عراق، شام کی حدود تک اشاعت اسلام کو وسیع کرنے کے امکانات روشن ہو گئے۔ قلمرو اسلام میں اب تنہا جو طاقت باقی رہ گئی تھي اور جس کا وجود عربستان کے باہر ترویج اسلام کے لیے خطرہ بنا ہوا تھا وہ قریش مکہ تھے۔ دشمن کی اس اساسی پائگاہ کی دو اہم ترین خصوصیات تھیں۔ پہلی تو یہ کہ یہ شہر بہت سے مسلمانوں نیز رسول خدا کا وطن تھا۔ اور دوسری وجہ یہ بھی کہ کعبہ ابراہیم علیہ السلام یعنی اساسی مرکز توحید اور ان کا قبلہ اسی شہر میں واقع تھا۔ ان دو وجوہ کے علاوہ مسلمانوں نے اپنی اسلامی زندگی کے دوران جو صدمات برداشت کئے ان میں سے اکثر و بیشتر اسی شہر کے لوگوں نے انہیں پہنچائے تھے۔ مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر مکہ کا شمار ان اہم ترین مراکز میں ہوتا تھا جنہیں رسول خدا جزیرہ نما عرب میں دشمن کے وجود سے پاک و صاف کر دینا چاہتے تھے۔ اور یہی منصوبہ عرصے سے آنحضرت کے پیش نظر تھا۔

 

غزوہٴ ”حدیبیہ“ اور ”عمرة القضا“ دو ایسے بڑے کامیاب معرکے تھے کہ جن کے باعث قریش کی عسکری بالادستی اور مکہ پر اجارہ داری ختم ہوگئی اور مسلمانوں کے لیے مکہ واپس آنے، مناسک حج ادا کرنے اور اشاعت دین کے لیے راہیں ہموار ہو گئیں مگر اس کے باوجود قریش کی سیاسی و ثقافتی برتری اور لعنت شرک و بت پرستی اب بھی مثل سابق وہاں موجود تھیں۔

قریش کے خلاف تیسرا اور آخری قدم اٹھانے کے لیے اب مسلمانوں کے سیاسی حالات و عسکری انتظامات قطعی طور پر موافق و سازگار تھے اور جو چیز اس راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ رسول خدا کسی قسم کی عہد کشنی نہیں کرنا چاہتے تھے مگر قریش نے اپنی طرف سے عہد و پیمان توڑنے میں چونکہ پیش دستی کی اور قبیلہ ”بنی بکر“ کی حمایت میں انہوں نے قبیلہ ”بنی خزاعہ“ کے بیس افراد کو محض اس بنا پر بے دردی سے قتل کر ڈالا کہ ان کا رسول خدا کے ساتھ باہمی معاہدہ تھا لہٰذا یہ دشواری بھی دور ہوگئی۔

 

 چنانچہ اب وہ وقت آن پہنچا کہ رسول خدا اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور مکہ پر تسلط حاصل کرکے کعبہ کو بتوں سے پاک کریں اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنائیں۔ تاکہ شرک کی سب سے بڑی اساسگاہ کے وجود اپنی قوم سے نیست و نابود کر دیں۔ بالخصوص ان حالات میں جبکہ قبیلہ خزاعہ کا سردار اپنے ہم قبیلہ افراد کو ساتھ لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہو چکا تھا اور اس نے ان رقت انگیز واقعات کو بیان کرکے جو اس کے قبیلے کے لوگوں پر گزرے تھے قریش کی عہد شکنی کا ذکر کیا اور ان کے خلاف اس نے آنحضرت سے مدد کی درخواست کی۔

رسول خدا نے عمرو کو کوچ کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی آنحضرت نے مکہ کی جانب اپنے ایلچی روانہ کئے تاکہ انہیں بھی اس میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے۔

کوچ کا حکم ملتے ہی دس ہزار سپاہی جمع ہو گئے اور یہ ایسی کثیر تعداد تھی جو اہل مدینہ نے کبھی اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی۔

رسول خدا نے قریش کو غفلت میں ڈالنے کے لیے تمام حفاظتی اقدامات کئے۔ ابتداء میں آپ نے اپنے قصد و ارادے کو کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ وہ تمام راستے جو مکہ کی طرف جاتے تھے ان کی سخت ناکہ بندی کر دی گئی۔ لوگوں کو دوسری جانب متوجہ کرنے کے لیے رسول خدا نے سپاہ کا ایک دستہ ”ابو قتادہ“ کی فرمانداری میں ”اضم“ نامی مقام کی جانب روانہ کیا تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ آنحضرت کا رخ اسی جانب ہے۔ اس کے بعد آپ نے بارگاہ ایزدی میں التجا کی کہ قریش کی آنکھوں اور ان کے کانوں پر غفلت کا پردہ پڑ جائے اور ہوش انہیں اس وقت آئے جب وہ اچانک سپاہ اسلام کو اپنے سروں پر مسلط پائیں۔

(مغازی ج۲ ص ۷۹۶)

 

یہ اقدام اس وجہ سے کیا گیا کہ دشمن اس سے قبل کہ اپنے دفاع کی خاطر اپنی عسکری طاقت کا استعمال کرے خود ہی بغیر کسی تصادم کے حق کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور حرم مکہ یعنی مقدس و معنوی پناہ گاہ ایزدی حتی الامکان خونریزی کے بغیر فتح ہو جائے۔

تمام حفاظتی اقدامات کے باوجود ”حاطب بن ابی بلیغہ“ نامی شخص نے قریش کو خط لکھ دیا اور ”سارہ“ نامی عورت کو خط دے کر قریش مکہ کی جانب روانہ کیا تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول خدا کا احتمالی عزم و اقدام کیا ہو سکتا ہے۔

رسول خدا کو وحی کے ذریعے اس شخص کی خیانت کا علم ہو گیا۔ چنانچہ آپ نے فورا ہی حضرت علی علیہ السلام اور زبیر کو اس کام پر مقرر فرمایا کہ اس عورت سے خط حاصل کریں اور اسے واپس مدینہ لے آئیں۔

 (السیرة النبویہ ج۴ ص ۴۱۴)

رسول خدا ۱۰ رمضان سنہ ۸ ہجری کو دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ چنانچہ جب آپ ”مرالطہران“ نامی مقام پر تشریف فرما ہوئے تو دشمن کو آپ کے آنے کا ذرا بھی علم نہ ہوسکا۔

یہاں رسول خدا نے حکم دیا کہ سپاہی وسیع میدان میں منتشر و پراگندہ ہو جائیں۔ اور ان میں سے ہر شخص آگ روشن کرے۔ رسول خدا کے اس حربے نے اہل مکہ کو سخت وحشت و سراسیمگی میں مبتلا کر دیا۔

(مغازی ج۲ ص ۸۱۴)

ابوسفیان کے ہمراہ کچھ قریش سردار مکہ سے نکل کر باہر آئے تاکہ حالات کا جائزہ لیں۔ راستے میں ان کی ملاقات سب سے پہلے رسول خدا کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ) سے ہوئی جو سپاہ اسلام کے پہنچنے سے قبل ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔ اور ان سے حالات کے بارے میں پوچھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول خدا نے تم پر دس ہزار سپاہ کے ساتھ شبخون مارا ہے۔ اب تمہارے لیے راہ نجات یہی ہے کہ دین اسلام قبول کرلو۔ ابوسفیان کے ساتھ ”حکیم بن حزام“ اور بدیل ورقا“ بھی تھے۔ یہی بات انہوں نے ان سے بھی کہی۔

 

یہ بات سن کر قریش کے سرداروں کے اوسان خطا ہوگئے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے اتنا ہی کہا کہ اب ہم آپ کے رحم و کرم پر ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ انہیں رسول خدا کی خدمت میں لے گئے رسول خدا نے ان سے قریش کی وضع و کیفیت کے بارے میں کچھ سوالات کئے اور ضروری اطلاعات حاصل کرنا چاہیں۔ نیز انہیں دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انہیں رسول خدا کی بات تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اور اس رات وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی رہے۔ صبح کے وقت تمام سپاہ نے باآواز بلند اذان دی جسے سن کر ابوسفیان پر خوف طاری ہوگیا اس کے بعد رسول خدا کے حکم سے اسے ایک ٹیلے پر لے جایا گیا۔ سپاہی منظم دستوں کی شکل میں مسلح ہو کر سامنے سے گزرے اور اس نے اسلام کی شان و عظمت اور عسکری معنوی طاقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔

(مغازی ج۲ ص ۸۱۸)

رسول خدا نے اسلام کی طاقت کے جاہ و جلال کا مظاہر کرکے شرک کی استقامت و پائیداری کے ہر ارادے کو پاش پاش کر دیا۔ اور اب آپ نے یہ کوشش کی کہ ابوسفیان کے ذریعے قریش کی استقامت و پائیداری کو بھی چکنا چور کر دیں۔ اور اس موقع سے پورا فائدہ اٹھا لیں چنانچہ اس کے بعد آپ نے ابوسفیان سے کہا کہ وہ قریش کے درمیان جائے اور ان سے کہہ دے کہ جو کوئی اسلحہ زمین پر رکھ کر اپنے گھر میں بیٹھے رہے گا یا مسجد الحرام میں پناہ لے گا اور یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ گزیں ہوگا اسے کسی قسم کی گزند نہیں ہوگی۔

(السیرة النبویہ لابن ہشام ج۴ ص ۴۶ ، ۴۷)

بسم الله الرحمن ارحیم

رسول خدا کا یہ اقدام اس امر کا باعث ہوا کہ قریش کے ان سرداروں نے جو سینہ سپر ہو کر سپاہ اسلام کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے جب ابوسفیان کی یہ کیفیت دیکھی تو انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔

قریش کو زیر کرنے کے جتنے بھی مراحل ہوسکتے تھے وہ اب طے ہو چکے تھے۔ اور وہ وقت آن پہنچا تھا کہ رسول خدا مکہ میں تشریف فرما ہوں۔ رسول خدا کی یہ سعی و کوشش تھی کہ سپاہ اسلام شہر میں اس طرح داخل ہو کر جہاں تک ہوسکے کوئی تصادم و حادثہ پیش نہ آئے۔ چنانچہ اس مقصد کے تحت آنحضرت نے کل سپاہ اسلام کو چار دستوں میں تقسیم کرکے ان میں سے ہر ایک پر ایک فرماندار مقرر فرمایا اور ہر دستے کو یہ حکم دیا کہ اندرون شہر اس راستے سے جائیں جو ان کے داخل ہونے کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔ اور سب کو یہ ہدایت کر دی کہ اس کے علاوہ جو تم سے جنگ کرنا چاہے اس سے جنگ و پیکار نہ کرنا مگر اس کے ساتھ ہی دس ایسے افراد کے نام بھی آپ نے لیے جن کا خون بہانا جائز و مباح قرار دیا گیا۔

(مغازی ج۲ ص ۲۵)

 

اہل لشکر مقررہ راستوں سے مکہ میں داخل ہوئے۔ اندرون شہر ایک دشمن کی مختصر سی جماعت نے ہی استقامت و پائیداری کی کوشش کی مگر جب ان کے بہت سے سپاہی قتل ہو گئے تو ان کی استقامت و پائیداری کا بھی خاتمہ ہو گیا، باقی سپاہ اسلام نے کسی خونریزی کے بغیر مکہ کو فتح کرلیا۔

اہل مکہ بالخصوص شرک کے حامی و طرفدار نہایت ہی اضطراب و بے چینی سے یہ انتظار کر رہے تھے کہ دیکھئے کہ کب انجام کیا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے اوپر اب تک وہ جو مظالم کرچکے تھے انہیں یاد کرکے انہیں اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی۔

رسول خدا نے پہلے تو بتوں کو سرنگوں کیا اور اس کام سے فارغ ہونے کے بعد ان لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی جو وہاں موجود تھے۔ اس فتح و کامیابی پر خداوند تعالیٰ کی حمد و ستائش کرتے ہوئے آپ نے قریش سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

”کہو کیا کہنا چاہتے ہو اور بتاؤ تمہارے دلوں میں کیا گمان و وسوسے ہیں؟ سب نے آہ و زاری کرتے ہوئے آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں آپ سے یہی توقع ہے کہ آپ ہمارے ساتھ خیر و نیکی کا سلوک فرمائیں گے۔ ہمیں یہی عرض کرنا ہے اور اس کے علاوہ ہمارے دلوں میں کوئی خیال و فکر نہیں۔ آپ ہمارے برادر محترم ہیں اور ہم آپ کو اپنے بھائی کا فرزند سمجھتے ہیں۔ باقی آپ کو اختیار ہے۔

(کمغازی ج۲ ص ۸۳۵)

 

رسول خدا نے انہیں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ”میں تم سے اپنے بھائی ”حضرت یوسف کی طرح چشم پوشی کرتا ہوں۔“

لاتثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الراحمین

”آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمہیں معاف کرے وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔“

چنانچہ جب انہوں نے معافی کی درخواست کی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ:

اذھبوا فانتم الطلقاء

(مغازی ج۲ ص ۸۳۵)

”جاؤ تم سب آزاد ہو۔“

بسم‌ الله

جب رسول خدا نے عام معافی کا اعلان کر دیا اور شرک کے حامی و طرفدار لوگوں کے اعمال سے چشم پوشی کی تو مکہ کے لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرنے لگے۔ یہی نہیں بلکہ عرب خواتین نے بھی ان خاص آداب کے مطابق جو مقرر کئے گئے تھے رسول خدا سے بیعت کی چنانچہ قرآن مجید نے اس بے نظیر تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

 

ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا

”اے نبی، دیکھ لو گے کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔“

(تفسیرالمیزان ج۲ ص ۳۷۲)

رسول خدا نے اس خیال کے پیش نظر کہ بت پرستی ہر جگہ سے کلی طور پر نیست و نابود ہو جائے لوگوں کو ہدایت کی کہ جس کسی کے پاس کوئی بت ہو وہ اسے پاش پاش کر دے۔ اس کے علاوہ آپ نے مکہ کے باہر بھی چند افراد کو بھیجا تاکہ جہاں کہیں بھی کوئی بت خانہ ہو اسے ویران کر دیں۔ اور لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں۔

 (مغازی ج۲ ص ۸۷۳)

پیغمبر خدا رسول ہدایت و اصلاح نہ کہ انتقام جو

مسلمانوں کے ہاتھوں شہر مکہ کی تسخیر، مشرکین کے سرداروں کی شکست و ریخت اور ان لوگوں کے ساتھ رسول خدا کے غیر متوقع و بے مثال درگزر و چشم پوشی نے جو بیس سال سے زیادہ عرصہ تک اسلام سے دشمنی میں رسول خدا سے برسر پیکار ہے ثابت کر دیا کہ آنحضرت کا مقصد گمراہ و نادان لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنگ و تصادم کے واقعات پیش آئے ان میں آپ کا عزم ہدایت و اصلاح ہی تھا ناکہ انتقام جوئی اور جاہ طلبی۔ چنانچہ ایسی عظیم الشان فتح کے باوجود صرف وہ دس افراد (چھ مرد اور چار عورتیں) جو سخت و سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے تھے قابل سزا قرار دیئے گئے اور ”مہد ورالدم“ کے عنوان سے انہیں یاد کیا گیا۔

(مغازی ج۲ ص ۸۲۵)

ان میں سے بھی چار افراد کو قتل کر دیا گیا اور باقی کسی نہ کسی بہانے سے امان پانے میں کامیاب ہوگئے۔ اگرچہ ایسے موقعوں پر رہبران انقلاب سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بالخصوص انہیں جو دشمن کے محاذ پر پیش پیش ہوتے ہیں تہ تیغ کر دیتے ہیں۔ لیکن جب ساری دنیا کے پیامبر یعنی ”رحمة العالمین“ سے بعض مسلمان سپاہیوں نے یہ کہا کہ ”الیوم یوم الملحہ“ آج کا دن انتقام لینے اور گھروں کو تہ و بالا کر دینے کا دن ہے تو آنحضرت نے یہ شعار اختیار کیا ”الیوم یوم المرحمہ“ آج کا دن رحمت کا دن ہے چنانچہ اس کیفیت کو استاد حمیداللہ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے۔

جب رسول خدا کسی شہر کا فاتح ہو تو اس سے اس عظمت و بزرگواری کے علاوہ اور کوئی توقع رکھنی ہی نہیں چاہیے۔(رسول اکرم در میدان جنگ)

غزوہٴ حنین و طائف

شرک کی جب سب سے عظیم اساسگاہ کا قلع قمع ہو گیا اور ”سواع، مناہ“ اور ”عزہ“ جیسے بت کدے مسلمانوں کے ہاتھوں ویران ہو گئے  تو اسلام کا عسکری و سیاسی اثر نفوذ تمام ”جزیرہ نما عرب“ پر چھا گیا۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ اکثر و بیشتر مشرکین قبائل نے اسلام کی اطاعت قبول کرلی اور اپنے عجز و انکساری کا اقرار کرلیا۔ ہوازن ”اور ثقیف“ ایسے دو قبیلے تھے جو اسلام سے نفرت کرنے میں پیش پیش اور جنگجوئی میں سب پر فوقیت رکھتے تھے۔

 

اس کے علاوہ ان کے پاس اسلحہ جنگ بھی سب سے زیادہ رہتا تھا۔ انہیں یہ علم ہوا کہ مسلمانوں کو مشرکین پر فتح و نصرت حاصل ہوئی ہے تو وہ سخت سراسیمہ و پریشان خاطر ہوئے اور اب انہیں یہ خوف لاحق رہنے لگا کہ قریش کو مغلوب کرنے کے بعد سپاہ اسلام انہیں اپنے حملے کا نشانہ بنا لیں گی۔ چنانچہ انہوں نے خود ہی پیشرفت کی اور مسلمانوں کے ساتھ برسر پیکار ہونے کا ارادہ کر لیا، ہوازن اور ثقیف کے لوگوں نے چند دیگر قبائل سے بھی عہد و پیمان کرلیا تھا۔

 

چنانچہ سب نے مجموعی طور پر طاقتور سپاہ کی شکل اختیار کرکے ”مالک بن عوف“ کی فرمانداری کے تحت رسول خدا کے ساتھ جنگ و نبرد کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے۔

دشمن نے اس خیال کے پیش نظر کہ محاذ جنگ کی پشت سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور مسلمانوں کے ساتھ جان توڑ کر جنگ کرے، اپنی عورتوں، بچوں اور مال وغیرہ کو اپنے سے دور کر دیا رسول خدا کو جب دشمن کے ارادے کی اطلاع ہوئی تو آپ بتاریخ ۶ شوال سنہ ۸ ہجری میں بارہ ہزار سپاہیوں کا لشکر لے کر جس میں دس ہزار افراد مدینہ کے اور دو ہزار نو مسلم شامل تھے، دشمن کی جانب روانہ ہوئے۔

دونوں لشکروں کا مقابلہ ”حنین“ نامی مقام پر ہوا۔

مشرکین کا لشکر پہلے ہی وادی حنین میں اتر چکا تھا اور اس نے سارے ناکوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ وہ سپاہ اسلام کے اس پیش ہراول دستے پر جس کا فرماندار ”خالد بن ولید“ تھا اچاک حملہ آور ہوا اور اس دستے کو منتشر و پراگندہ کردیا۔ باقی مسلمانوں نے جب یہ کیفیت دیکھی تو راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ صرف دس ہزار ہی ایسے تھے جو رسول خدا کے دوش بدوش رہے۔

 (تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۶۲)

ابوسفیان اور وہ قریش جو چند روز قبل ہی مسلمان ہوئے تھے مسلمانوں کی اس شکست پر بہت مسرور ہوئے اور اس پر تمسخر کرنے لگے۔

(تاریخ طبری)

اگرچہ پیغمبر اکرم اس وقت تنہا رہ گئے تھے لیکن ان چند اصحاب کے ساتھ جو اس وقت آپ کے ساتھ تھے میدان جنگ میں پوری استقامت و پائیداری کے ساتھ اپنی جگہ پر رہے اور جو لوگ فرار کرنے لگے تھے انہیں واپس آنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! کہاں بھاگے چلے جا رہے ہو؟ واپس آ جاؤ، میں محمد بن عبداللہ رسول خدا تمہیں بلا رہا ہوں۔

 (السیرة ابن ہشام)

رسول خدا کے ایماء پر حضرت ”عباس بن عبدالمطلب“ نے آنحضرت کا پیغام باآواز بلند لوگوں تک پہنچایا جسے سن کر مسلمان ایک ایک کرکے واپس آنے لگے۔ رسول خدا نے انہیں ازسر نو مرتب کیا اور میدانِ جنگ دوبارہ شعلہ ور ہوگیا۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سب سے زیادہ جوش و خروش میں تھے اور دشمنوں کو خاک و خون میں ملا رہے تھے۔ یہاں تک کہ قبیلہ ہوازن کے چالیس افراد آپ  کی شمشیر سے ہلاک ہوئے۔ دوسرے مسلمانوں نے بھی شکست کی تلافیاں کیں اور چند لمحہ فرار رہنے کی وجہ سے جو خفت ہوئی تھی اسے دور کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ بالخصوص اس وقت جب کہ انہوں نے یہ دیکھا کہ ”ام عمارہ، ام سلیم، ام سلیط“ اور اور ام حارث“ جیسی دلیر خواتین بھی میدان کارزار میں اتر آئیں ہیں اور رسول خدا کا مردانہ وار دفاع و تحفظ کر رہی ہیں۔

 (مغازی ج۲ ص ۹۰۳)

رسول خدا نے سپاہ میں مزید جوش و خروش پیدا کرنے کی خاطر اعلان فرمایا کہ ”جو کوئی کسی کافر کو قتل کرے گا وہ مقتول کے لباس و اسلحہ کا مالک ہوگا۔“

(السیرة النبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۶۲۰)

اس وقت ہوازن کا پرچمدار ”ابوجردل“ سرخ اونٹ کے اوپر سوار بلند نیزہ ہاتھ میں لیے سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ وہ اپنے لشکر کے پیش پیش چل رہا تھا۔ ان عوامل کے باعث اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں اس کے قتل کی وجہ سے دشمن کے لیے فرار کے علاوہ کوئی چارہ ہ رہا۔ چنانچہ فتح و ظفر اسلام کو نصیب ہوئی۔

 

اس جنگ میں چھ ہزار سپاہی قید ہوئے ان کے علاوہ چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بھیڑ اور وزن میں چار ہزار اوقیہ (تقریباً ۸۵۰ کلوگرام) چاندی بطور مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہات آئی باقی جو سپاہ بچی تھی وہ بھگا کر ”طاف“ ”نخلہ“ اور ”اوطاس“ کی طرف نکل گئی۔

(طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۵۱،۵۲)

رسول خدا نے ”بدیل بن ورقا“ کو اس کام پر مامور فرمایا کہ وہ مالِ غنیمت کو ”جعرانہ“ نامی مقام پر لے جائیں اس کی حفاظت کریں تاکہ جنگ ختم ہونے کے بعد اسے تقسیم کیا جا سکے۔ اور آپ بذاتِ خود سپاہ اسلام کو ساتھ لے کر ”طائف“ کی جانب روانہ ہوئے۔ کیونکہ ”مالک بن عوف“ ثقیف کے دیگر لشکروں کے ہمراہ بھاگ کر اس طرف نکل گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر آپ نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔

قلعہ طائف کا محاصرہ تقریباً بیس روز تک جاری رہا۔ دشمن کی استقامت و پائیداری کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں نے منجنیقیں اور جنگی گاڑیاں بھی استعمال کیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ قلعے کے استحکام، اسلحہٴ جنگ اور سامان خوراک کے ذخیرے کی وجہ سے دشمن کی استقامت و پائیداری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

رسول خدا نے صحابہ کے مشورے سے محاصرہ جاری رکھنے کا خیال ملتوی کر دیا اور جعرانہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (مغازی ج۳ ص ۸۳۷)

اس فیصلے کی شاید یہ وجہ تھی کہ رسول خدا نے دشمن کے وسائل و اسلحہ کا جائزہ لینے کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا کہ طائف کو فتح کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے۔ اور مدینہ سے آنحضرت کوسوں دور تھے۔ اس کے علاوہ مختلف افکار و خیالات کے بارہ ہزار سپاہیوں کو کافی عرصے تک قلعہ طائف کے اطراف میں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ کیونکہ ایک طرف تو لشکر کے لیے سامان خوراک کم ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اور دوسری طرف ماہ حرام اور حج کا زمانہ قریب چلا آ رہا تھا۔ اس کے علاوہ چھ ہزار جنگی قیدیوں کے مسئلے کے بارے میں بھی غور کرنا تھا۔

 

مالِ غنیمت کی تقسیم

رسول خدا جب ”جعرانہ“ واپس تشریف لائے تو ”ہوازن“ کا وفد آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے دین اسلام قبول کرنے کے بعد رسول خدا سے درخواست کی کہ قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے۔ رسول اکرم نے مسلمانوں کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد اور ان کی دل جوئی کی خاطر ہوازن کے چھ ہزار قیدیوں کو فدیہ لیے بغیر آزاد کر دیا۔ اور باقی مالِ غنیمت کو آپ نے قریش کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اور وہ لوگ جو حال ہی میں مشرف با اسلام ہوئے تھے ان کے سرداروں کو آپ نے بیشتر حصہ عطا کیا تاکہ اس طریقے سے ان کے دل اسلام کی جانب بیشتر مائل ہو سکیں۔

جو لوگ چند روز قبل ہی مسلمان ہوئے تھے ان کے سرداروں کے ساتھ آنحضرت کی داد و دہش بعض افراد بالخصوص انصار کو ناگوار گزری۔ (اگرچہ اس مالِ غنیمت میں رسول خدا کا حصہ ”خمس“ پانچواں تھا) لیکن جب انہوں نے رسول خدا کی پند و نصائح سنیں اور اس کی حکمت کے بارے میں انہیں علم ہوا تو وہ آنحضرت کے اس اقدام سے مطمئن ہوگئے۔ (ارشاد ص ۷۶، ۷۷)

رسول خدا نے عمرہ کرنے کے ارادے سے ”جعرانہ“ میں احرام باندھا، عمرہ کرنے کے بعد آپ نے ”عتاب بن اسید“ کو مکہ کا فرماندار مقرر فرمایا اور حضرت ”معاذ بن جبل“ کو احکام دین کی تعلیم دینے کے لیے متعین فرمایا اور خود آنحضرت واپس مدینہ تشریف لے آئے۔

(تاریخ ابوالفدا ج۱ ص ۱۴۸)

غزوہ حنین کی ابتدا میں شکست کے عوامل اور آخر میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب و علل۔

(الف) ابتائی مرحلے میں شکست

          کثرتِ سپاہ کی وجہ سے احساس تکبر اور غیبی مدد کی جانب سے غفلت و چشم پوشی۔ جس وقت بارہ ہزار افراد پر مشتمل سپاہ اسلام مکہ سے نکل کر چلی اور اس کی شان و شوکت اور طاقت حضرت ابوبکر نے دیکھی تو ان کی زبان پر یہ جملہ آہ گیا کہ طاقت کی کمی کے باعث بھی اب ہم مغلوب نہ ہوں گے۔

اور اس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ:

لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرة و یوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین“

اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔ ابھی غزوہ حنین کے روز اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو اس روز تمہیں اپنی کثرت کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھرا کر بھاگ نکلے۔ (سورہ توبہ)

 سپاہ اسلام میں اہل مکہ کے ایسے افراد کی موجودگی جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض منافق تھے اور بعض محض مالِ غنیمت جمع کرنے کی خاطر سپاہ اسلام کے ساتھ ہو گئے تھے نیز کچھ لوگ بغیر مقصد و ارادہ کے مکہ سے باہر نکل آئے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ ابتدائی مرحلے پر جب دشمن کا اچانک حملہ ہوا تو سب سے پہلے جو سر پر پیر رکھ کر بھاگے وہ یہی لوگ تھے اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے سپاہ اسلام پر عن و طعن شروع کر دی تھی حتیٰ کہ بعض نے تو یہ بھی ارادہ کرلیا تھا کہ رسول خدا کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسے عناصر کی ان حرکات کا باقی سپاہ پر اثر انداز ہونا اور ان کی قوت ارادی و حوصلہ مندی میں ضعف آنا فطری و قدرتی امر تھا۔

(تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۶۲)

  دشمن کے سپاہی جس جگہ جمع تھے نیز جہاں دونوں لشکروں کے درمیان معرکہ ہوا اس جگہ کا محل وقوع، دشمن کی کمین گاہیں، درے اور پہاڑی شگاف، اذان فجر کے وقت جبکہ مطلع صاف و روشن نہیں تھا غنیم کا اچانک حملہ وغیرہ ایسے عوامل تھے جن کے باعث مسلمانوں سے یہ قوت فیصلہ سلب ہوگئی کہ وہ کیا اقدام کریں۔

آخری فتح

     غیبی مدد اور خداوند تعالیٰ کی طرف سے نصرت و کامیابی۔

  اس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے:

ِثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنودالم تروھا وعذب الذین کفروا وذلک جزاء الکفرین

”پھر اللہ نے اپنا سکون اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمایا ہے اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرین حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کرتے ہیں۔

    رسول خدا حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ایثار پسند و جان نثار مردوں نیز عورتوں کی میدانِ کارزار کا میں استقامت و پائیداری اس کے ساتھ ہی میدانِ جنگ میں رسول خدا کا واپس سپاہ کو بلانا اور انہیں ازسر نو منظم کرنا۔

    حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں دشمن کے پرچمدار اور دیگر مسلمانوں کے ہاتھوں دشمن کے سردار ”ورید بن صمہ“ نامی کا قتل کیا جانا۔

غزوہٴ تبوک

جزیرہ نما عرب میں شرک کے عظیم ترین مستقر کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی حجاز کے سرداروں نے بھی رسول خدا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ اور اس طرح جب ملک کی شمالی حدود میں دین اسلام کی اشاعت کے امکانات روشن ہوگئے تو رومی حکومت کے ایوانوں میں وحشت و اضطراب کے باعث لرزہ پیدا ہونے لگا۔ اس کی عظیم ترین عسکری طاقت چونکہ انتہائی مرتب و منظم تھی اور جنگوں میں اپنے طاقتور حریف یعنی ملک ایران پر وہ پے درپے فتوحات حاصل کر چکا تھا لہٰذا اسے اپنی طاقت پر ناز و غرور بھی تھا۔ چنانچہ اپنی اس طاقت کے زغم میں اس نے اپنے مسلح و منظم لشکر سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

 

رسول خدا کو علم ہوگیا کہ شہنشاہ روم ”ہرقل“ نے عظیم لشکر جمع کرکے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی ادا کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سرحدوں پر واقع ”لحم“ ”خذام“ ”عسان“ اور ”عالمہ“ صوبوں کے فرمانداروں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے نیز اس کا ہراول دستہ ”بقا“ تک آن پہنچا ہے۔

 

رسول خدا کو جب یہ اطلاع ملی تو اس وقت موسم انتہائی گرم تھا اور لوگ خرما کی فصل جمع کر رہے تھے۔ ایک طرف راستے کی دوری اور دوسری طرف سپاہ روم کا ازدحام ایسے عوامل تھے جن کے باعث سپاہ کو روانہ کرنا سخت و دشوار کام تھا بالخصوص ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو معرکے موتہ کے موقعے پر پیش آ چکے تھے۔ لیکن ان لوگوں کے لیے جو واقعی مسلمان تھے اسلام کی قدر و قیمت ذاتی آسائش و آرام اور مادی منفعت سے کہیں زیادہ تھی اور وہ اس کی فلاح کی خاطر تمام باتوں کو نظر انداز کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس خیال کے پیش نظر رسول خدا نے صحابہ کو جمع کیا اور مختصر طور پر دشمن کی استعداد اور اس کی عسکری بالادستی کے بارے میں مطلع کیا۔ اس کے ساتھ ہی آنحضرت نے لشکر کی روانگی کے لیے سعی و کوشش شروع کر دیں چنانچہ قبائل کے درمیان اور مکہ کی جانب رسول خدا کے نمائندے روانہ کیے گئے تاکہ وہ لوگوں کو مقدس جہاد میں شرکت کی دعوت دیں۔

ناسازگار حالات کے باوجود تیس ہزار جنگجو سپاہیوں نے جن میں دس ہزار سوار بھی تھے رسول خدا کی پکار پر لبیک کہا۔ (مغازی ج۳ ص ۹۹۰،۱۰۰۲)

رسول خدا نے جنگ کے اخراجات مہیا کرنے کے لیے مالدار لوگوں سے کہا کہ سپاہ کی مال و اسلحہ کے ذریعے مدد کریں۔ اس کے علاوہ جب پیغمبر خدا کی طرف سے یہ اعلان کر دیا گیا کہ اس سفر کے اختیار کرنے کا مقصد کیا ہے تو مسلمان اپنے اس اسلحہ اور ساز و سامان کے ساتھ لشکر کی خیمہ گاہوں میں جمع ہو گئے۔

رسول خدا کے فرمان پر لوگوں کے گوناگوں افکار و نظریات

جب ہم تاریخ کی کتابوں کے صفحات اور ان آیات قرآنی پر نظر ڈالتے ہیں جو اس سلسلے میں نازل ہوئی ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس غزوہ کے بارے میں مسلمانوں کے افکار و نظریات مختلف و گوناگوں تھے۔ جس کی کیفیت ذیل میں درج ہے:

          ان لوگوں کو جو مومن اور اپنے قول کے پابند تھے (اور اکثریت ان ہی پر مشتمل تھی) جیسے ہی رسول خدا کی دعوت کا علم ہوا تو اس ساز و سامان کے ساتھ جو ان کے پاس موجود تھا لے کر رسول خدا کی سپاہ میں شامل ہوگئے۔

          ایک گروہ ایسا بھی تھا جو رسول خدا کے ساتھ جانا تو چاہتا تھا مگر اس کے پاس سواری کے جانور نہ تھے، چنانچہ انہوں نے رسول خدا سے کہا کہ اگر سواری کا بندوبست ہو جائے تو وہ چلنے کو تیار ہیں۔ لیکن جب رسول خدا نے فرمایا کہ سواری کے جانور کا فراہم کرنا تو ممکن نہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ اشک بار اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس چلے گئے۔ (سورہٴ توبہ)

          کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے فرمان رسول کے سامنے سر ہی نہیں جھکایا بلکہ سپاہ کی روانگی میں جس حد تک ممکن ہوسکتا تھا خلل اندازی سے بھی باز نہ آئے۔ چنانچہ وہ مجاہدین جو جنگ میں شرکت کرنا چاہتے تھے ان سے یہ لوگ کہتے کہ اس تپتے ہوئے موسم میں جنگ پر مت جاؤ۔ اس کے علاوہ جو لوگ ان مجاہدین کو مالی مدد دینا چاہتے تو ان کا بھی یہ لوگ مذاق اڑاتے کسی پر یہ ریا کار ہونے کا الزام لگاتے اور کسی کی یہ کہہ کر حوصلہ شکنی کرتے کہ تمہارے پاس سامان سفر بہت کم ہے جنگ پر جا کر کیا کرو گے۔

(تفسیر البرہان ج۲ ص ۱۴۸)

          کچھ لوگ ایسے بھی آرام طلب تھے جو جنگ سے فرار کرنے کی غرض سے رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور کوئی بے بنیاد بہانہ تراش کر آنحضرت سے یہ درخواست کرتے کہ انہیں مدینہ میں ہی رہنے دیا جائے۔

(سورہٴ توبہ آیت:۹۰)

          بعض نے سپاہ اسلام کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے اختلاف کیا۔ لیکن اس اختلاف کی بنیاد میں ان کی بدنیتی شامل نہیں تھی بلکہ اس کا سرچشمہ جنگ کے معاملے میں ان کی سستی و سہل انگاری تھی۔ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے سے زیادہ اپنے درختوں کے میوؤں کے ساتھ دلچسپی تھی اور یہ کہتے تھے کہ ہم فصل جمع کرنے کے بعد ہی جنگ میں شرکت کریں گے۔ (ایضاً آیت:۱۱۸)

بسم الله

تبوک کی جانب روانگی

منافقین کی ہر رخنہ اندازی اور افتراء پردازی کے باوجود رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ اور بتاریخ ۹ رجب سنہ ۹ ہجری قمری اس عظیم لشکر کے ہمراہ، جسے اس دن تک مدینہ میں کسی کی آنکھ نہیں دیکھا تھا۔ آنحضرت نے شمال کی جانب طویل راہ اختیار کرلی۔

تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین اسی وجہ سے مقرر کیا کہ آنحضرت کو عربوں کی بدنیتی کے بارے میں بخوبی علم تھا جن کے ساتھ آپ نے جنگ کی تھی اور ان کے بہت سے رشتہ داروں کو تہ تیغ کیا تھا۔ اس کے علاوہ آپ مدینہ کے ان منافقین کی کارستانیوں سے بھی بے خبر نہ تھے جنہوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس جنگ میں شرکت کرنے سے اجتناب کیا تھا اور یہ احتمال تھا کہ جب رسول خدا کافی عرصے تک مدینے سے باہر تشریف فرما رہیں گے تو آپ کی غیر موجودگی نیز وہ مسلمانوں کی تنہائی کا غلط فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ اور مدینہ پر حملہ کر دیں گے۔ رسول خدا کی طرح حضرت علی علیہ السلام کی مدینہ میں موجودگی دشمنوں کو خوف زدہ رکھنے، ان کی سازشوں کو ناکام بنانے اور مرکزی حکومت کی حفاظت و پابداری کے لیے اشد ضروری تھی۔

 

چنانچہ یہی وجہ تھی جب رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کیا تو اس سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ:

ان المدینہ لاتصلح الابی اوبک

”یعنی مدینہ میرے یا تمہارے بغیر اصلاح پذیر نہ ہوگا۔“

(ارشاد مفید ص۸۳)              

سپاہ اسلام کے سامنے چونکہ اقتصادی راستے کی دوری سواری کے جانوروں کی کافی کمی، سخت گرمی، جھلسا دینے والی ہوا کی تپش جیسی مشکلات تھیں اسی لیے اس لشکر کو ”جیش العسریہ“ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ سپاہ ان تمام سختیوں کو برداشت کرتی ہوئی ”تبوک“ نامی مقام پر پہنچ گئی۔ مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ دشمن کا دور دور تک پتہ نہیں۔ گویا ہرقل کو جب اسلام کی عظیم سپاہ کی روانگی کا علم ہوا تو اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ پسپا ہو کر اپنے ملک کی حدود میں چلا جائے لیکن سپاہ اسلام نے وسیع پیمانے پر انتہائی تیزی کے ساتھ شمالی حدود کے کنارے پہنچ کر اور بیس روز تک وہاں قیام پذیر رہ کر دشمنانِ اسلام کو بہت سے پند آموز سبق سکھا دیئے جن میں سے چند کا ہم یہاں ذکر کریں گے:

  روم کی شہنشاہیت اور اس کے دست پروردہ سرحدی حکمرانوں پر اسلام کی طاقت و عظمت قطعی طور آشکار و عیاں ہوگئی اور یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مسلمانوں کی عظیم عسکری طاقت اس حد تک ہے کہ اگر دنیا کے طاقتور ترین لشکر سے بھی ٹکر لینے کی نوبت آجائے تو اس کا مقابلہ کرنے میں انہیں ذرا بھی باک نہیں۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ بعض سرحدی صوبوں کے فرمانروا اس اطلاع کے ملتے ہی کہ لشکر اسلام سرزمین تبوک پہنچ گیا ہے۔ رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عہد و پیمان کے ساتھ کہ وہ کسی طرح کا تعرض نہ کریں گے۔ یہ بھی وعدہ کیا کہ ہر سال معقول رقم حکومت اسلامی کو بطور خراج ادا کیا کریں گے۔

(السیرة النبویہ ج۴ ص ۱۶۹)

   مدینہ و تبوک کے راستے پر ”دومتہ الجندل“ نامی محکم قلعہ بنا ہوا تھا جس پر ”اکیدر“ نامی عیسائی بادشاہ کی حکمرانی تھی۔ ونکہ اس کے تعلقات ہرقل کے ساتھ خوشوار تھے اسی لیے اس کا شمار ان مراکز میں ہوتا تھا جو مسلمانوں کے لیے خطرات پیدا کرسکتے تھے۔ چنانچہ رسول خدا نے خالد بن ولید کو تبوک سے چار سو بیس سواروں کے دستے کے ساتھ دومة الجندل“ کی جانب روانہ فرمایا تاکہ وہاں پہنچ کر انہیں اسلحہ سے بے دخل کر دے۔ خالد نے دشمن کے اسلحہ پر قبضہ کرنے کے بعد اس منطقے کے فرمانروا کو گرفتار کرلیا اور اسے مال غنیمت کے ساتھ لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول خدا نے اسے اس شرط پر آزاد کر دیا کہ وہ ”جزیہ“ ادا کیا کرے گا۔

(حوالہ سابق)

    اس غزوہ کے باعث دین اسلام و رسول خدا کا نام نامی روم کے عیسائیوں کی زبان پر جاری رہنے لگا۔ اور اس کا چرچا تازہ ترین خبر کی طرح ہر جگہ رہتا۔ چنانچہ ایسا میدان ہموار ہوگیا کہ رومی دین اسلام کو عالمی طاقت سمجھنے لگے۔

   جزیرہ نما عرب میں وہ عرب و مشرکین جو دین اسلام قبول کرنے کی سعادت سے محروم رہ گئے تھے اب انہیں بھی دین اسلام کی قوت کا پوری طرح اندازہ ہونے لگا تھا اور یہ بات اچھی طرح ان کی سمجھ میں آ گئی کہ جب رومیوں کا طاقت ور لشکر اپنے پورے جنگی ساز و سامان کے باوجود لشکر اسلام کا مقابلہ نہ کرسکا تو ایسی زبردست طاقت کے سامنے ان کا سینہ سپر رہنا لاحاصل ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ان قبائل نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اس سے قبل کہ رسول خدا ان کی خبر لینے آئیں وہ خود ہی اپنے نمائندے رسول خدا کی خدمت میں روانہ کر دیں اور چاہا کہ یا تو دین اسلام قبول کرلیں اور یا ایسا عہد و پیمان کریں جس کی رو سے اسلامی حکومت ان کے معاملات میں متعرض نہ ہو۔ چونکہ بیشتر وفد غزوہٴ تبوک کے بعد سنہ ۹ ہجری میں رسول خدا کی ملاقات سے مشرف ہوئے اسی وجہ سے سنہ ۹ ہجری کو ”سنتہ الوفود“ کہا جانے لگا۔

(السیرة النبویہ ج۴ ص ۲۰۵)

اس کے علاوہ رومی لشکر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی چونکہ فرار کرگیا تھا لہٰذا سپاہ کے حوصلے اس واقعے سے بہت زیادہ بلند ہو گئے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے روم پر حملہ کئے تو اس سے بہت سے عمدہ اثرات رونما ہوئے۔

پہلا تو یہی کہ ان کے حوصلے اتنے قوی ہوگئے کہ وہ کسی بھی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور شاید اسی حوصلہ مندی کی وجہ سے انہوں نے یہ اقدام کرنا چاہا کہ اپنا اسلحہ فروخت کر دیں کیونکہ وہ اکثر کہا کرتے تھے ”کہ اب جہاد کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے“ مگر رسول خدا نے انہیں اس اقدام سے منع فرمایا۔

(طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۷)

مدینہ کے رہنے والوں کو جب یہ اطلاع ملی کہ اسلام کو رومیوں پر فتح حاصل ہوئی ہے تو وہ ایسے مسرور ہوئے کہ بقول ”بیہقی“ عورتوں، بچوں اور نوجوانوں نے یہ ترانے گا کر لشکر اسلام کا استقبال کیا:

طلع البدر علینا… من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا… مادعا للہ داع

ایھا امبعوث فینا… جئت بالامر مطاع

’ہم پر بدر نے ثنیات الوداع سے طلوع کیا، جب تک کوئی خدا کو پکارنے والا ہے، ہم پر لشکر واجب ہے، اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی آپ ایسا حکم لے کر آئے ہیں کہ جس کی اطاعت ضروری ہے۔“

دوسرا یہ کہ مسلمان اتنا طویل پر مشقت سفر کرنے کے باعث چونکہ اس کی مشکلات و خصوصیات سے واقف ہو گئے تھے اسی لیے مستقبل میں شام کو فتح کرنے کا راستہ ان کے لیے ہموار ہوگیا۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم کی رحلت کے بعد دیگر ممالک کو فتح کرنے سے قبل مسلمان شام کو فتح کرنے کے جانب متوجہ ہوئے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

نفاق کا چہرہ بے نقاب

صدر اسلام کی دیگر جنگوں کے مقابل ”غزوہٴ تبوک“ سب سے زیادہ منافقین کی جولان گاہ اور ان کے خیانت کارانہ و مجرمانہ افعال کی آزمائشگاہ ثابت ہوا۔ چنانچہ انہوں نے جتنی بھی بداعمالیاں اور بدعنوانیاں کیں خداوند تعالیٰ نے دوسری جنگوں کے مقابل ان کے اتنے ہی برے ارادوں اور ان کے منافقانہ چہروں کو بے نقاب کیا اور شاید اسی وجہ سے اس غزوہ کو ”فاضحہ“ (رسوا کن) کہا گیا ہے۔

(السیرة الحلبیہ ج۳ ص ۱۳۹)

اس سے قبل کہ سپاہ اسلام ”تبوک“ کی جانب روانہ ہو منافقین نے جو بھی مواقع تلاش کئے اور جو بھی خیانت کاریاں ان سے سرزد ہوئیں ان کے بعض نمونے اوپر پیش کئے جا چکے ہیں۔ انہوں نے انہی خیانت کاریوں اور اپنی بداعمالیوں پر اکتفا نہ کی بلکہ جتنے عرصے تک لشکر اسلام غزوہ تبوک پر رہا ان کی سازشیں بھی جاری رہیں۔ چنانچہ ذیل میں ہم اس کے چند نمونے پیش کرتے ہیں۔

   منافقین کے ایک گروہ نے ”سویم“ نامی یہودی کے گھر پر جلسہ کیا جس میں انہوں نے اس مسئلے پر غور و فکر کیا کہ جنگی امور اور لشکر کی روانگی میں کس طرح خلل اندازی کی جائے۔ چنانچہ جب رسول خدا کو ان کے ارادے کا علم ہوا تو آنحضرت نے چند لوگوں کو اس کے گھر کی طرف روانہ کیا جنہوں نے اسے نذر آتش کر دیا۔

(حوالہ سابق ص۱۶۰)

   اس وقت سپاہ اسلام ”ثنیتہ الوداع“ نامی لشکر گاہ میں جمع ہوئی تو منافقین کے سردار ”عبداللہ بن ابی“ نے اپنے ساتھیوں اور ان یہودیوں کے ہمراہ جن سے ان کا معاہدہ تھا کوہ ”رکاب‘کے کنارے اپنا خیمہ لگایا اور رسول خدا کے خلاف اس طرح زہر اگلنا شروع کیا۔

     محمد کو رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کی سوجھی ہے اور وہ بھی اس جھلس دینے والی گرمی میں اور اتنی دور جا کر ادھر سپاہ اسلام کا یہ حال ہے کہ اس میں جنگ کرنے کی ذرا بھی تاب و مجال نہیں۔ رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے کو ہنسی کھیل سمجھ لیا ہے میں تو سمجھتا ہوں کہ محمد کے جتنے بھی ساتھی ہیں سب ہی کل قیدی ہوں گے اور سب کی مشکیں کسی ہوئی نظر آئیں گی۔

    وہ اپنی اس خیانت کارانہ گفتار اور بدکرداری سے چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر دے اور انہیں اس مقدس جہاد پر جانے سے باز رکھے۔ مگر اس کی یہ نیرنگی وحیلہ گری کارگر ثابت نہ ہوئی اور بہت ہی یاس و ناامیدی کی حالت میں مدینہ پہنچا۔

 (مغازی ج۳ ص ۹۹۵)

   سپاہ اسلام جب تبوک کی جانب روانہ ہوئی اور حضرت علی علیہ السلام مدینہ میں قیام فرما رہے تو منافقوں کو اپنی تمام کوششیں ناکام ہوتی نظر آئیں چنانچہ اب وہ اس فکر میں رہنے لگے کہ کس طرح ایسا ماحول پیدا کریں اور اس قسم کی افواہیں پھیلا دیں کہ حضرت علی علیہ السلام مرکزی حکومت سے دور چلے جائیں تاکہ رسول خدا اور حضرت علی علیہ السلام کی غیر موجودگی میں پورے اطمینان کے ساتھ اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

          حضرت علی علیہ السلام نے یہ افواہیں سنیں کہ رسول خدا آپ کو اپنی سرزد مہری اور بے اتفاقی کی وجہ سے محاذ جنگ پر لے کر نہیں جا رہے ہیں تو آپ  رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام واقعات آنحضرت کے سامنے بیان کئے۔ جنہیں سن کر رسول خدا نے فرمایا کہ:

    وہ جھوٹ بول رہے ہیں میں تو تمہیں اس وجہ سے چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہاں جو کچھ ہے تم اس کی حفاظت و نگہبانی کرو، کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے بس میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

  اس کے بعد رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ آپ واپس مدینہ چلے جائیں اور آنحضرت کے جانشین کی حیثیت سے ”دارالھجرہ“ میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ مقیم رہیں۔

   سپاہ اسلام کے خوف سے لشکر روم کی مغلوبی نیز ان فتوحات کے باعث جو آنحضرت کو ”تبوک“ میں مقیم رہنے کے دوران حاصل ہوئیں۔ منافقین کا حسد و کینہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا اسی لیے جس وقت سپاہ اسلام تبوک سے واپس آ رہی تھی تو ان منافقین نے نہایت ہی خطرناک چال چلنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی سازش یہ تھی کہ جب رسول خدا رات کی تاریکی میں بلند درے سے گزریں گے تو منافقین میں سے دس بارہ آدمی آنحضرت کی گھات میں بیٹھ جائیں گے تاکہ جیسے ہی آپ کی سواری کا اونٹ اس راستے سے گزرے تو اسے بھڑکا دیں اور آنحضرت اس گہرے درے میں گر کر ہلاک ہو جائیں۔

    لیکن خداوند تعالیٰ نے آنحضرت کو ان کی سازش سے آگاہ کر دیا۔ چنانچہ جب منافقین نے یہ دیکھا کہ رسول خدا کو ان کی سازش کا علم ہوگیا ہے تو وہ وہاں سے فرار کر گئے اور اپنے ساتھیوں سے جا ملے۔ اگرچہ رسول خدا نے ان سب کو پہچان لیا تھا اور صحابہ نے بھی چاہا کہ انہیں قتل کر دیا جائے مگر رسول خدا نے انہیں معاف کر دیا۔

 (السیرة الحلبیہ ج۳ ص ۱۴۳)

   منافقین اپنے جرائم کی پردہ پوشی کرنے کے لیے ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے کہ ہمیشہ دین کا لباس پہنے رہیں۔ مذہب کے پردے میں اپنے ان مجرمانہ افعال کو جاری رکھنے کے لیے انہوں نے محلہ ”قبا“ میں مسجد کے نام سے ایک سازشی مرکز قائم کیا تاکہ وہاں سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ رسول خدا کی تبوک کی طرف روانگی سے پہلے انہوں نے مسجد کی تعمیر شروع کی اور رسول خدا کو اس کے بارے میں مطلع کر دیا۔ جس وقت آنحضرت واپس تشریف لا رہے تھے تو مدینہ کے نزدیک قاصد غیب وحی لے کر نازل ہوا اور آیات قرآنی کے ذریعے مسجد بنانے والوں کے گمراہ کن ارادوں سے مطلع کر دیا۔ رسول خدا نے حکم صادر فرمایا کہ اس مسجد کو آگ لگا کر خاکستر کر دیں اور جو کچھ وہاں بچ رہے اسے تباہ و برباد کر دیں۔ اور اس جگہ کو ڈلاؤ کے طور پر استعمال کریں۔ (سورہٴ توبہ)

 

غزوہ تبوک میں مسلمانوں کی فتح و نصرت، اس جنگ کے بارے میں منافقین نے جو اندازے لگائے تھے وہ سب باطل ثابت ہوئے جنگ کے دوران ان کی سازشوں کی ناکامی، مسجد ضرار کی ویرانی، اسلام دشمن عناصر کے چہروں سے ریا کی نقاب کشائی اور آیات قرآنی (توبہ) میں ان کے خصوصیات کے بارے میں جو نشاندہی کی گئی تھی ان کے باعث کفر کے پیکر پر پے درپے ایسی سخت ضربات لگیں کہ اس کا سر کچل گیا اور وہ خیانت کار و خطرناک گروہ جو اسلامی معاشرے میں مل رہا تھا منہ کے بل گرا اور وہ لوگ جو محاذ نفاق کی جانب رسول خدا کے خلاف نبرد آزمائی کر رہے تھے سخت مایوسی و ناامیدی کے شکار ہوئے۔ چنانچہ یہ مسلسل ناکامیوں نامرادیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ منافقین کا سرغنہ ”عبداللہ بن ابی“ غزوہٴ تبوک کے ایک ماہ بعد ہی غموں میں گھل گھل کر مر گیا۔

 (مغازی)

سنہ ۹ ہجری کے اواخر میں زمانہ حج کے شروع ہونے سے قبل قاصد پیغام وحی نے سورہ توبہ کی چند ابتدائی آیات رسول خدا کو پڑھ کر سنائیں۔ ان آیات میں خدا اور رسول خدا کی مشرکین سے بیزاری، مسلمانوں کے ساتھ ان کے قطع تعلق اور ان معاہدوں کو منسوخ کرنے کے بارے میں ہدایت کی گئی جو مسلمانوں نے ان کے ساتھ کئے تھے۔

رسول خدا نے ابوبکر کو امیر حج مقرر کرکے انہیں یہ ہدایت فرمائی کہ مشرکین تک سورہ توبہ کی آیات پہنچا دیں۔ لیکن جب وہ روانہ ہوگئے تو دوبارہ فرشتہ وحی نازل ہوا اور یہ پیغام سنایا کہ اس کام کو پیغمبر خدا یا خاندانِ رسالت کے کسی فرد کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا۔ چنانچہ رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور اس کام پر مقرر فرمایا کہ مشرکین تک یہ آیات پہنچا دیں۔

 

حضرت علی علیہ السلام راستے میں ہی حضرت ابوبکر سے جا ملے اور ان سے فرمایا کہ یہ آیات مجھے عنایت کر دیں۔ اور مذکورہ آیات کو لے کر خود مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ جب مناسک حج کا زمانہ آ گیا تو آپ  نے مسلمانوں اور کفار کے مجمع کثیر میں آیات کی تلاوت فرمائیں۔ اور اس کے ساتھ ہی رسول خدا کا پیغام بھی پہنچا دیا اس پیغام میں جو باتیں کہی گئی تھیں وہ یہ ہیں کہ:

     کافر جنت میں داخل نہ ہوں گے۔

    آئندہ مشرکین کو مکہ میں داخل ہونے اور مناسک حج ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

   آئندہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ برہنہ خانہ کعبہ کا طواف کرے۔

 جن لوگوں نے رسول خدا سے عہد و پیمان کئے ہیں وہ مدت معینہ تک ہی معتبر و قابل عمل ہیں۔ اور جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا ہے انہیں چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اس عرصے میں اپنے معاہدے کے بارے میں غور کریں۔ اور جب یہ عرصہ گزر جائے گا تو کسی بھی مشرک کے ساتھ عہد و پیمان نہ کیا جائے گا۔

(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۹۰ ،۱۹۱)

رسول خدا نے جو یہ صریح و قطعی اقدام کیا اس کی شاید وجہ یہ تھی کہ اس وقت سے جب کہ یہ پیغام مشرکین کو پہنچایا گیا نزول رسالت تک تقریباً بائیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اور اس طویل عرصے میں رسول خدا کی تمام تر سعی و کوشش رہی کہ مشرکین راہ راست پر آ جائیں۔

 

 چنانچہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ بت پرستوں کے شرک اور پیغمبر اکرم کے ساتھ جنگ و جدال کی اصل وجہ ان کی ضد اور ذاتی دشمنی تھی۔ اور اب اس چیز کی سخت ضرورت تھی کہ اسلامی معاشرہ جس قدر جلد ہو سکے ایسے عناصر سے پاک ہو جائے۔ اگر کسی زمانے میں پیغمبر اکرم نے سیاسی حالات ک تحت مجبور ہو کر مشرکین کے ساتھ عہد و پیمان کیا تو اس کے بعد آنحضرت کے لیے ضروری نہ تھا کہ اس وقت جبکہ تمام منطقہ دین اسلام کے تحت اثر آ چکا تھا اور اس نے صرف اندرونی ہی نہیں بلکہ بیرونی محاذوں پر عظیم ترین فتح و نصرت حاصل کرلی تھی ایسے عناصر کو اسلامی معاشرے کے اندر برداشت کریں اور وہ توہمات و خرافات اور خلل اندازی کے پردے میں زمین پر فساد بپا کرتے رہیں۔ انہیں چار ماہ کی مہلت اس لیے دی گئی تھی کہ انہیں اپنے بارے میں سوچنے کے لیے کافی وقت مل سکے۔ اور اپنے توہمات و خرافات سے دست بردار ہونے کے بارے میں غور و فکر کرسکیں۔

 

رسول خدا کا قطعی فیصلہ سورہ توبہ کی آیات کا نزول اور مشرکین کے مقابل رسول خدا کا جرأت مندانہ مگر انسان دوستی پر مبنی اقدام بالخصوص چار ماہ کا عرصہ اس امر کا باعث ہوا کہ وہ اپنے بارے میں سوچیں اور موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ اس کے ساتھ ہی دین اسلام کی آسمانی تعلیمات اور اپنے خرافات پر مبنی طور و طریقے کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بعد دین اسلام کی آغوش میں چلے آئیں۔

                                 اسلام ان اردو ڈاٹ کام