• صارفین کی تعداد :
  • 3625
  • 11/9/2008
  • تاريخ :

میاں محمد بخش (1824-1907)

میاں محمد بخش

میاں محمد بخش پنجاب میں عربی ، فارسی روایت کے آخری معروف ترین صوفی شاعر تھے۔ ان کی ولادت ۱۸۲۴ء میں میرپور کے علاقہ کھڑی شریف میں ہوئی۔ انہوں نے اس علاقے کی مشہور دینی درسگاہ سمر شریف میں تعلیم حاصل کی ۔ حافظ غلام حسین سے علم حدیث پڑھا۔ حافظ ناصر سے دینی علوم کے علاوہ شعرو ادب کے رموز سے بھی آشنائی حاصل کی۔ جلد ہی عربی اور فارسی زبانوں میں عبور حاصل کر لیا۔ اس کے بعد پنجاب بھر کا سفر کیا اور علماء اور مشائخ سے ملاقاتیں کیں ۔

 

واپس آ کر ضلع میرپورہی میں سائیں غلام محمد کے مرید ہوئے۔ ان کی دانست میں مرشد کامل کا اہم وصف محض صاحب کرامات ہونا ہی نہیں، بلکہ حسن واخلاق کی بلندی کو چھونا بھی ہے۔ میاں محمد بخش حاکمانِ وقت سے دور دور رہتے تھے۔ اکابرین کی سیرت نے ان کی زندگی میں روحانی انقلاب برپا کر دیا تھا۔ وہ موسیقی کے دقیق رموز پر بھی ماہرانی نظر رکھتے تھے۔ اسی لئے ان کی شاعری میں موسیقیت بدرجہ اتم رچی ہوئی ہے۔ انہوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ انہوں نے جس عہد میں آنکھ کھولی، وہ بڑا پر آشوب دور تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، انگریزوں کا کشمیر کو سکھ مہاراجہ کے حوالے کرنا ، سکھوں کے پنجاب بھر میں مظالم انہی کے دور میں ہوئے۔

 

ان کی شاعری ، فکر اورمطالعے کے ڈانڈے قرآن وحدیث، فارسی شعراء عطار ، رومی ، جامی کے علاوہ منصور حلاج اور خواجہ حافظ سے لے کر پنجابی شعراء تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں تصوف ہندی اور ایرانی روایت کو جذب کرکے ذاتی اور اجتماعی سوز و گداز کے فیضان سے فکر انگیز اور دلکش پیرائے میں ڈھالا ہے۔ اور ابن عربی اور مولانا روم کی صوفیانہ روایت ، پنجابی شاعری کی روایت کے اثر سے دو آتشہ ہوگئی ہے۔ ان کی تخلیق کردہ مشہور داستان ”سفر عشق“ جو کہ قصہ سیف الملوک کے نام سے معروف ہے انہی افکاروتخیلات کا پر تو نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کی تین خصوصیات ہیں، سوزوگداز، پندونصائح کے شائبے کے بغیر لطیف پیرا یہٴ اظہار اورتمثیلی انداز۔

 

ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود کی وہ ایسی تعبیر کے حامی ہیں، جو ذرّے ذرّے میں جمالِ حقیقی سے روشناس کرواتی ہے۔ انسان کو تعصبات اور فخر وغرور سے بچاتی ہے۔ اسی رویے نے ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی پیدا کی ہے اور فکر کو وسیع اور ہمہ گیر بتایا ہے۔ انہوں نے خارجی احوال وکوائف کی ترجمانی کے علاوہ من کی دنیا کی سیاحت بھی کی ہے۔ خارجی اور داخلی زندگی ان کی شاعری میں الگ الگ نہیں بلکہ باہم مربوط نظر آتی ہیں۔ ان کے مطابق جیتے جی مرجانا اور مر کر بھی جیتے رہنا ہی فقر ہے۔ عمل پر بہت زور دیتے ہیں، کیونکہ عمل کے بغیر کوئی بھی کام پورا نہیں ہوتا۔ ان کی تصنیف ”قصہ سیف الملوک “ کی ساری کی ساری فضا عمل پر ہی قائم کی گئی ہے۔

میاں محمد بخش کا انتقال ۱۹۰۷میں ہوا ۔

 

                                           راشد متین( اردو پوائنٹ ڈاٹ کام ) 


متعلقہ تحریریں:

 انتظار حسین

خواجہ حافظ شیرازی

 مولوی جلال الدین بلخی

احمد فراز

استاد محمد تقی جعفری