• صارفین کی تعداد :
  • 4243
  • 11/8/2008
  • تاريخ :

سلطان باہو (1631-1691)

سلطان باہو

 

پنجاب کے صوفی ۱کابرین میں سلطان باہو کو بھی ممتاز ترین مقام حاصل ہے۔ ان کا تعلق شاہ جہاں کے عہد کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا جس کا تعلق پنجاب کے ضلع جنگ سے تھا۔ ان کے والد بایزید محمد ایک صالح شریعت کے پابند حافظ قرآن، فقیہہ ، دنیاوی تعلقات سے آشنا سلطنت دہلی کے منصب دار تھے۔

 

باہو ۱۶۳۱ ء میں جھنگ کے موضع اعوان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ظاہری علوم کا اکتساب باقاعدہ اور روایتی اندز میں نہیں کیا بلکہ زیادہ ترابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ۔ خود ہی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

”اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کر دی ہے۔“

مرشد کی تلاش میں سرگرداں ہوئے تو ان کی ملاقات شور کوٹ کے نزدیک گڑھ بغداد میں سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ شاہ حبیب اللہ سے ہوئی۔ اور جب مرید مرشد سے بھی آگے بڑھ گیا تو مرشد نے انہیں سید عبدالرحمن کی جانب رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ اورنگز یب کے عہد میں وہ سید عبدالرحمن سے ملنے دہلی پہنچے مگر معروضی حالات کی بنا پر ان کے عالمگیر کے ساتھ تضادات پیدا ہو گئے۔ اسی بنا پر وہ دہلی سے واپس چلے گئے اور بقیہ زندگی روحانی ریاضتوں اور لوگوں کو روحانی فیض پہنچانے میں بسر کی۔ وہ دوسرے صوفیا کی طرح محض درویشانہ زندگی نہیں گزارتے تھے بلکہ ایک بڑے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی زندگی کا انداز بلاشبہ روایتی صوفیانہ زندگی سے مختلف تھا۔ زندگی کے آخری دنوں میں انہوں میں سب کچھ تیاگ دیا تھا۔

 

ان کی تصانیف کی طویل فہرست عربی، فارسی اور پنجابی زبانوں پر محیط ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں نہ صرف مروجہ زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ مذہبی علوم سے بھی کماحقہ فیض یاب ہوتے تھے۔ ان کی شاعری میں ایک سرور انگیز مقدس آواز کی صورت میں لفظ ” ہو“ کا استعمال انہیں تمام صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ بظاہر فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے اور سیدھی سادھی باتیں خطیبانہ انداز میں کہے چلے جاتے، جن کا مطالعہ بلاشبہ ہماری دیہاتی دانش کا مطالعہ ہے۔ ان کی شاعری سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ قادریہ کے دوسرے صوفیا سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

”میں نہ توجوگی ہوں نہ جنگم ، نہ ہی سجدوں میں جا کر لمبی لمبی عبادتیں کرتا ہوں نہ میں ریاضتیں کرتا ہوں ۔ میرا ایمان محض یہ ہے، جو لمحہ غفلت کا ہے وہ لمحہ محض کفرکا ہے۔ جو دم غافل سو دم کافر۔“

سرچشمہ علوم وفیوض ہیں، مشہور ہے کہ انہوں نے ایک سو چالیس کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتابیں امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ناپید ہیں ۔تاہم اب بھی ان کی بہت سی کتابیں دستیاب ہیں اور علمائے ظاہر کے مقابلے میں سلطان باہو فقر کا تصور پیش کرتے ہیں جہاں علما لذتِ نفس ودنیا میں مبتلا ہو کر نفس پروری کرتے ہیں اورلذتِ یا دِالٰہی سے بیگانہ رہتے ہیں ،وہاں فقرا شب وروز یا دِخدا میں غرق ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ترک دنیا اور نفس کشی کے خیالات بکثرت ملتے ہیں۔ان کے نقطہ نظر کے مطابق دین ودنیا دو ایسی متضاد قوتیں ہیں جن کے باہم تفاوت کو حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سلطان باہو کا وصال ۱۶۹۱ ء میں ہوا۔

                                                راشد متین (اردو پوائٹ ڈاٹ کام )


متعلقہ تحریریں:

 احمد فراز

 استاد محمد تقی جعفری