• صارفین کی تعداد :
  • 5919
  • 10/28/2008
  • تاريخ :

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا شعراء کی زبانی

حرم مطہر قم ( روضۂ حضرت معصومہ علیہا السلام )

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا شعراء کی زبانی

تاریخ کی رہ گذر میں مکتب امامت و ولایت کی ترویج اور فضائل و مناقب اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے نشر میں اسلامی شاعروں کا ایک اچھا کردار رہا ہے ۔ جن کے حکمت آموز اشعار نے ہمیشہ عاشقان خاندان نبوت و رسالت کے قلوب کو جلا بخشی ہے اور ایک زندہ جاوید سند کی حیثیت سے مکتب لالہ زار علوی اور بے کراں دریائے فضائل اہلبیت علیہم السلام کو اجاگر کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔

 

اسی رہ گزر میں کریمہ اہل بیت علیہم السلام کی عظمت نے ان منا دیا ن حق شعراء کو بارگاہ ملکوتی حضرت معصومہ علیہا السلام میں عرض ادب پیش کرنے پر مجبور کردیا اور اس طرح وہ پر معنیٰ اشعار و قصائد کہنے کے لئے آمادہ ہو گئے ۔

 

زبان فارسی میں تو ان اشعار کی تعداد بے حد و حساب ہے کہ اگر بطور مستقل اس پر کام کیا جائے تو ایک دیوان ہو جائے گا ۔ لیکن مولف محترم نے چند برگزیدہ اشعار کو کتاب میں جمع فرمایا ہے اور اسے ایک فصل قرار دیا ہے ۔

واضح ہے کے اردو داں افراد کے لئے یہ شعری مجموعہ سود مند نہ ہوگا لہٰذا یہ طے پایا کہ ان اشعار کی جگہ اردو زبان کے شعراء کے اشعار پیش کئے جائیں ۔ لیکن افسوس ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں قدیم شعراء کے اشعار دستیاب نہ ہو سکے بلکہ جہاں تک حقیر کی معلومات ہے ہمارے قدیم شعراء نے اس موضوع پر طبع آزمائی نہیں فرمائی ہے ۔

بنابرین زمانہ حاضر کے جن شعراء کے اشعار دستیاب ہو سکے ہیں انھیں اس فصل میں ذکر کر رہا ہوں ۔

 

ہم اس کتاب کے ذریعہ تمام شعراء کرام کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس موضوع پر اشعار کہہ کر ہمیں روانہ کریں تا کہ آئندہ اڈیشن میں ہم مناسب اشعار کو کتاب میں مزین کر سکیں ۔

 

برگزیدہ از قصیدہ در مدح نورین نیرین حضرت فاطمہ زہرا و فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہما

نتیجہ فکر : امام خمینی قدس سرہ

ترجمہ : مولانا ابن علی صاحب قبلہ واع

عیسیٰ ڈیوڑھی پہ اس کی درباں ہیں
عبد درگاہ ابن عمراں ہیں

 

ایک ہے دیدہ بان بر سردار

خادم در ہے ایک عصا بر دار

 

یا کہ دو طفل در حریم جلال

پئے تکمیل نفس ہیں بے حال

 

حفظ انجیل پر کسے یہ کمر

اس کو تورات ہو چکی از بر

 

نہ کریں دعوئے امامت اگر

موسیٰ جعفر ، از پئے داور

 

میں یہ کہہ دوں کہ یہ ہیں پیغمبر

معجزہ اس پہ آپ کی دختر

 

ایسی دختر نہیں بجز زہرا

ایسا صلب پدر ، نہ رحم ہوا

 

ان دو کی ایسی اب کوئی دختر

نہ ہوئی اور نہ ہوگی تا محشر

 

وہ ہے امواج علم کا مظہر

یہ ہے افواج حلم کا مصدر

 

لطف سے اس کے سامنے ہے وجود

اور عدم اس کے قہر سے مفقود

 

انبیا کے لئے وہ تاج سر

یہ سر اولیا کا ہے مغفر

 

کعبہ وہ عالم جلالت کا

اور یہ مشعر زمین قدرت کا

 

لم یلد لب نہ کرتا بند اگر

کہتا میں ہیں خدا کی دو دختر

 

اس کی چادر میں بند کون و مکاں

روسری اس کی ستر عفت حق

 

ملک باقی کا ہے وہ تاج سر

یہ ہے برعرش کبریا افسر

 

قطرہ اس کی عطا کا بحر و سما

رشحہٴ فیض کان زر اس کا

 

اس سے خاک مدینہ روشن ہے

اس سے یہ قم کا خطہ روشن ہے

 

قم ہے اس کی شرف سے خلد نظر

اس سے پانی مدینے کا کوثر

 

عرصہ قم ہے رشک خلد عجیب

بلکہ خلد بریں ہے اس کا نقیب

 

عرش پر قم کو ناز ہے زیبا

” لوح“ شاید کہ اس کی ہو ہمتا

 

ہے عجب خاک ،آبروئے جہاں

مرجع دوست ،ملجا ئے غیراں

 

سنتے گریہ قصیدہ ہندی

وہ ادیب و سخنور و سعدی

 

ہوتا نہ طوطی کی طرح اس کی زباں پر

اے بجلالت ز آفرینش برتر

 

اور وہ قمری کی طرح لاقانہ لب پر

اے کہ جہاں زرخ تو گشتہ منور

دختر خورشید

نتیجہ ٴ فکر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی دام ظلہ العالی

ترجمہ جناب مولانا اخلاق حسین صاحب اخلاق پکھناروی

 

زائیدہ خرد ہیں تو خواہر ہیں دین کی
اور گوہر شرف تو جلالت جبین کی

 

عصمت اسیر گیسوے عصمت تری رہی

علم و عمل رہین ترے کوچہ و گلی

 

اے شاخسار عظمت توحید کا ثمر

خورشید ہے اساس تو ہمشیرہ قمر

 

انسانیت کے تاج کی زینت ہے آپ سے

روشن نگین ختم نبوت ہے آپ سے

 

شیطان راندہ ہو گیا قم کے خطاب سے

پھر قم کو بخشی رونق و عزت جناب سے

 

حوا کا یہ مقام تو جنت کا ہے محل

ناموس ایزدی کی نہ ہو کیوں چہل پہل

 

آکے حرم میں عقل و خرد مات ہوتے ہیں

اس خاک سے حیات کے چشمے ابلتے ہیں

 

اک جسم نازنیں کی زمیں راز دار ہے

ہے ایسی جان جس سے جہاں میں بہار ہے

 

خورشید اور ماہ منور کو روشنی

ہے نور قم اور عکس خراسان سے ملی

 

روحوں کی تازگی کا ہے ایران اب سبب

مشکۃ کی صفت میں ہیں یہ دو چراغ رب

 

کیا پوچھتے ہودل بھلا ان دو حرم کی بات

جن کی شعاع نور سے روشن ہے شش جہات

 

ہر کو تمھارے در سے کرم کی امید ہے

محتاج تر سبھی سے گدا بس وحید ہے

 

حریم خدا

نتیجہ فکر سید جعفر احتشام صاحب مرحوم

ترجمہ جناب مولانا اخلاق حسین صاحب اخلاق پکھناروی

 

قم کی زمین عطر و لطافت سے ہے بھری
ذوق و صفا سے گوہر ناسفتہ بھی بنی

 

گوہر کہاں سے لائے تری شان کا جواب

شان علیٰ کو عرش بریں پر ہے برتری

 

بس ہے ترے مقام اجل کو زمین قم

ہیں دفن اس میں دختر موسیٰ بن جعفری

 

تھیں خواہشیں سبھی کی کہ عظمت کو دیں جنم

زہرہ جبیں کے بعد نہ زہرا سی ہو سکی

 

اے فاطمہ حریم خدا بضعۃ رسول

مرضیہ تو کریمہ درگاہ ایزدی

 

کاظم کی بیٹی اخت رضا بالیقین ہیں آپ

گردوں ندید ایسا پدر اور برادری

 

فخر امام ہفتم و ہشتم کا یہ شرف

ان کی بہن تو ان کی ہیں بے مثل لاڈلی

 

مریم خدا کی چیدہ چنیدہ سہی مگر

پھر بھی روا نہیں ہے کریں تیری ہمسری

 

الطاف خاص و عام سے اے عصمت الٰہ

ہم عاصیوں کو روز جزا کر دے تو بری

 

صد حیف یہ کہ آپ نہ تھی روز کربلا

زہرا کی بیٹیاں تھیں مصیبت تھی بے بسی

 

وہ اک شکست بازو تووہ اک دریدہ گوش

اور دوسرے کے ہاتھ میں جکڑی تھی ہتھکڑی

 

زینب پکاری رو کے کہ نانا دہائی ہے

سب ہو گئے شہید اسیری کی ہے گھڑی

 

اے فاطمہ عزیز بر ادر کا واسطہ

ہو احتشام کو بھی عطا قصر اخضری

 

ہے گنہگار اور دعا لب پہ ہے یہی

اخلاق کوسدا ہو عطا علم و اگہی

 

گیسوئے جمال رسالت

نتیجہ فکر جناب مولانا اخلاق حسین صاحب اخلاق پکھناروی

 

گلدستہ جناں کی شرافت ہیں فاطمہ
اور لا مکان کا جاہ و جلالت ہیں فاطمہ

 

لا ریب کائنات کی غایت ہیں فاطمہ

سر خیل دین نور شریعت ہیں فاطمہ

 

برج شرف میں گوہر یکتا و لا جواب

خالق کی ذات پاک پہ آیت ہیں فاطمہ

 

جس سے نکھار دین کے گلشن میں آئی ہے

وہ شانہ کرامت و نکہت ہیں فاطمہ

 

جس کی وجہ سے خلد کا پروانہ ملتا ہے

حق کی نگاہ میں وہی الفت ہیں فاطمہ

 

یہ طائر خیال کی پرواز سے پرے

معبود لم یزل کی دلالت ہیں فاطمہ

 

لاشی ء ہے کائنات اگر اس میں یہ نہ ہوں

کون و مکاں کی خاص ضرورت ہیں فاطمہ

 

نا زاں ہے جس کو دیکھ کے خود رب ذو الجلال

وہ گیسوئے جمال رسالت ہیں فاطمہ

 

و الشمس کی قسم رخ روشن ہے بے مثال

دست کرشمہ ساز کی صنعت ہیں فاطمہ

 

دخت نبی کی عظمت و عفت نہ پوچھئے

یہ مظہر صفات کرامت ہیں فاطمہ

 

پل میں بدلتی رہتی ہیں تقدیر کائنات

باب المراد کلک مشیت ہیں فاطمہ

 

مل جائے گی مراد ذرا جا کے دیکھئے

اب مرکز جہان سخاوت ہیں فاطمہ

 

جو ان کے حق کو جان کے زیارت پہ آئے گا

خلد بریں ہے اس کے ضمانت ہیں فاطمہ

 

جھکتے ہیں سر جہاں کے جس در کے سامنے

اس در کی دو جہان میں شوکت ہیں فاطمہ

 

 

شاہکار فاطمہ

نتیجہ فکر : جناب مولانا سید اطہر عباس رضوی صاحب قبلہ اطہر الہ آبادی

ہے خدائے لم یزل مدحت گزار فاطمہ
حیف ہے اب تک نہ تم سمجھے وقار فاطمہ

 

جو نہ سمجھے آج تک عز و وقار فاطمہ

حشر میں سمجھے گا ان سے کردگار فاطمہ

 

لم یشم نفحۃ الجنۃ کا وہ مصداق ہے

جس کے بھی دل میں ہے شمہ بھر غبار فاطمہ

 

سر تو اکثر خود سروں کے سامنے بھی ہیں جھکے

دل جھکے جب سامنے آئے مزار فاطمہ

 

مرتبہ میں ہوگیا قم آج ہم شان نجف

مرکز فقہ و فقاہت ہے دیار فاطمہ

 

جبہ سائی تشنگان علم کرتے ہیں یہاں

اور شہر علم ہے دائر مدار فاطمہ

 

کتنے بے مایہ ہوئے آکر یہاں سر مایہ دار

علم کی صورت مراجع ، شاہکار فاطمہ

 

تیرگی ٴجہل دنیا سے مٹانے کے لئے

ہے ضیائے علم سے روشن جوار فاطمہ

 

بیشتر ابواب جنت کھلتے شہر قم میں ہیں

افتخار قم رہین افتخار فاطمہ

 

آشیانہ اہل بیت پاک کا ہے شہر قم

خلد شرمائے کچھ ایسا ہے جوار فاطمہ

 

ثانی زہرا ہیں زینب ، ثانی زینب ہیں یہ

ہے شعار ثانی زہرا شعار فاطمہ

 

عالم غربت میں مولا کی زیارت کے لئے

آتے ہیں ہر سال لاکھوں جا نثار فاطمہ

 

قبر میں اطہر کو دیکھا تو ملک کہنے لگے

مرحبا صد مرحبا مدحت گزار فاطمہ

 

سدا بھار

نتیجہ فکر :جناب مولانا سید ضرغام حیدر صاحب قبلہ۔نجف الہ آبادی

وہ لطف دولت و قدرت نہ اقتدار میں ہے
مزہ جو لذت علمی کا اس دیار میں ہے

 

کبھی مکیں کی فضیلت کسی قرار میں ہے

کبھی مکاں کی فضیلت کسی مزار میں ہے

 

شرف یہ حضرت آدم کا ہے کہ خلد میں تھے

شرف یہ قم کا کہ معصومہ کے دیار میں ہے

 

کبھی بلائیں ادھر اپنا رخ نہیں کرتیں

یہ شہر قم ہے جو معصومہ کے حصار میں ہے

 

خزاں کی زد پہ مسلسل ہے جامعہ ازہر

فضائے قم کو جو دیکھا سدا بھار میں ہے

 

حرم کے شیخ ذرا حج کے بعد آجانا

فضا جنان کی اسی قم لالہ زار میں ہے

 

نسیم رحمت خالق سے ملتصق ہے وہ

نجف جہاں میں جو معصومہ کے جوار میں ہے

 

قصیدہ در مدح فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

نتیجہ فکر : مولانا محمد رضا خان صاحب قبلہ ۔ رضا جونپوری

 

میں اسیر حب ، محبت میرے دامن گیر ہے
قابل تحسین کس درجہ مری تقصیر ہے

 

قم کے میخانے میں آنا باعث توقیر ہے

کس قدر شفاف ماں کے دودھ کی تاثیر ہے

 

روضہ معصومہ قم دیکھ کر ایسا لگا

در پہ میخانے کے رکھا ساغر تطہیر ہے

 

مدحت معصومہ قم سی نہیں دیکھی شراب

پی کر میخار ازل لگتا جوان و پیر ہے

 

میرے میخانے پہ ہے تہمت کی بارش اس لئے

بے خطا میخار بھی ساقی بھی بے تقصیر ہے

 

کیوں نہ ہوجائے مثال طور شہر قم بھلا

روضہ پر نور کی پھیلی ہوئی تنویر ہے

 

کیوں نہ ہو شام و سحر آخر فرشتوں کا نزول

روضہ معصومہ قم خلد کی تصویر ہے

 

محفل مدحت ہے پڑھنا آج معصومہ کے گھر

اوج پر ہے مرتبہ معراج پر تقدیر ہے

 

ضامن جنت ہیں اقوال ائمہ لا جرم

مشکل برزخ ہماری آپ کی تقصیر ہے

 

زائروں پر آپ کے نار جہنم ہے حرام

آپ کے روضے پہ یہ خط جلی تحریر ہے

 

با وضو ہو کر یہاں آنا رضا صبح و مساء

بنت موسی فاطمہ کی بولتی تصویر ہے

• کتاب کا نام: ساحل کوثر

• مترجم: سید مراد رضا رضوی

• پیشکش: مہدی (عج) مشن