• صارفین کی تعداد :
  • 3391
  • 9/3/2008
  • تاريخ :

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

احمد فراز

ہمارے درمیان سے ایک اور بڑا شاعر اٹھ گیا ، چونکہ ہمارے ہاں شجر کاری کا رواج نہیں، چنانچہ کسی برگد کے کٹ جانے اور کسی بڑے آدمی کے اٹھ جانے کے بعد اس کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا، احمد فراز جیسا شاعر بھی اب ہمارے درمیان کوئی نہیں۔ احمد فراز نے فیض اور حبیب جالب دونوں کی کمی  کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی مگر فراز کی کمی کون پوری کرے گا کہ وہ صرف اعلیٰ درجے کا شاعر ہی نہیں فوجی آمروں سے ٹکرا جانے والا ایک بہادر آدمی بھی تھا۔

 

ایک وقت تھا کہ فراز اگرچہ میرے پسندیدہ ترین شعراء میں شامل تھا مگر میں اس کی شخصیت کے حوالے سے کچھ غلط فہمیوں میں مبتلا تھا۔1980ء کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں پاک ہند مشاعروں میں شرکت کے لئے میں اور فراز بھارت گئے تو وہاں تقریباً دو ہفتے اکٹھے گزرے اور یوں فراز کی شخصیت کی مختلف پرتیں زیادہ واضح ہو کر سامنے آئیں۔ اس شاعر خوش نوا کے ساتھ بہت طویل نشستیں ہوئیں اور یوں مختلف مسائل پر اس کا نقطہ نظر سامنے آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی عوام دوستی اور وطن دوستی کا نظریہ مجھ سے مختلف تو ضرور تھا مگر اس میں کوئی کھوٹ نہیں تھا، چنانچہ کئی محفلوں میں اس نے کشمیر کی جدوجہد آزادی کی بھرپور حمایت کی ۔ ایک ٹی وی پروگرام میں تو وہ ایک بھارتی وزیر سے باقاعدہ الجھ پڑا۔ اس کے بعد چند برس پیشتر اس نے شدید بارش کے دوران اسلام آباد میں مقیم شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ پیدل مارچ کرتے ہوئے بھارتی سفارت خانے میں آزادی کشمیر کے حوالے سے ایک یاد داشت بھی پیش کی۔ فراز بیسیوں دفعہ بھارت گیا مگر اس نے کسی ایک موقع پر بھی انڈین میڈیا کا وہ”اکھنڈ بھارتی دانہ“نہیں چگا جو وہ اکثر پاکستانی مہمانوں کے سامنے ڈالتے ہیں اور چند بے غیرت قسم کے پاکستانی وہ دانہ چگنے بھی لگتے ہیں۔

 

احمد فراز کی کوئی کتاب

جہاں تک فراز کی شاعری کا تعلق ہے اسے پڑھتے ہوئے حافظ و خیام کی یاد آتی ہے۔ وہی لطافت ا ور وہی سرمتی،شاعری لفظوں کے انتخاب کا نام ہے اور اس کے علاوہ لطف سخن اس کی پہلی شرط ہے۔ فراز کی شعری تربیت میں فارسی لٹریچر نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ اردو کا کلاسیکی ادب اور انگریزی شاعروں کے کلام پر بھی اس کی گہری نظر تھی۔ یہ چیزیں اس کی شاعری کے لئے کھاد کا کام دیتی تھیں لیکن اصل کمال اس کا اپنا تھا۔ وہ اگلے ہوئے نوالے نہیں چبا سکتا تھا۔ ہمار ی کلاسیکی شاعر ی کا محبوب ایک قصائی اور اس کانخچیر ایک میمنے کی صورت نظر آتا ہے۔اس میمنے نے گردن جکائی ہوئی ہے اور قصائی قسم کا محبوب اس کے”چھوڈے“ اتارتا چلا جاتا ہے۔ یہ محبو ب بے وفا ہے اور اس کا عاشق بے ا نا ہے۔ وہ محبوب کی طرف سے ملی ہوئی ذلت کو ناکافی سمجھتے ہوئے ”ہل من مزید“کے نعرے لگاتا ہے جبکہ فراز کی شاعری میں عاشق محبوب کے تھلے لگا ہوا نظر نہیں آتا بلکہ وہ اپنی تمام تر وارفتگی کے باوجود اس معشوق میں عاشقی تلاش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سوز و ساز میں ڈوبی ہوئی فراز کی عاشقانہ غزلیں اردو غزل کی روایت سے ہٹ کر بھی ہیں اور اس کی دین یعنی بہترین کرافٹنگ کا اعلیٰ ترین نمونہ بھی ہیں۔ آپ فراز کی غزل میں سے کوئی ا یک لفظ بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے۔ ان میں جو لفظ بھی جہاں آیا ہے نگینے کی طرح آیا ہے۔ فراز کی تقلید میں بہت سے دوسرے شعراء نے بھی رومانی غزلیں کہنے کی کوشش کی مگر چونکہ وہ فراز نہیں تھے لہٰذا اس طرح کے شعری مجموعوں کو آپ کسی ایسے فراز کی شاعری قرار دے سکتے ہیں جو کسی نشیب میں رہتا ہو۔ فراز کے متعلق اس خیال سے کہ وہ صرف رومانی شاعر ہے اتفاق کرنا بہت مشکل ہے اس کی نظر زندگی کے تمام شعبوں پر ہے وہ شاعری برائے شاعری نہیں کرتا بلکہ اپنے اس ہنر سے وہ اس سے بھی بہتر کام لیتا ہے۔ اس کی اس نوع کی شاعری اس کے اپنے اس شعر کی تفسیر ہے۔

 

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

 

چنانچہ اس شاعر بے بدل نے اپنے حصے کی کئی شمعیں جلائیں اور یوں معاشرے کو اپنے حصار میں لئے ہوئے اندھیروں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ وہ شاعری کے علاوہ اپنے تند و تیز جملوں سے اس سٹیبلشمنٹ کے بھی پسینے چھڑا دیتا تھا جس کے کچھ ارکان اس کی شاعری کے مداح ہونے کی وجہ سے ذاتی سطح پر اس کے دوست بھی تھے بلکہ اس پر کوئی برا وقت آنے والا ہوتا تھا وہ درپردہ اس کی مدد بھی کرتے تھے لیکن جب وہ اپنی آئی پرآتا تھا تو پھر کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ فراز سے زیادہ بذلہ سنج شاعر بھی میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ اس کے جملے قہقہہ آور ہوتے تھے۔ وہ بات پر بات پیدا کرنے میں یکتا تھا۔ اس کی صحبت میں گزرا ہوا وقت انسان رخت سفر کی طرح ہر جگہ اپنے ساتھ لئے پھرتا تھا۔ فراز ہر کھرے آدمی کی طرح بےحد منہ پھٹ تھا۔ وہ اگر کسی کو ناپسند کرتا تھا تو اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اس کے منہ پر کرتا تھا اوراکثر اوقات برسرِ محفل بھی کردیتا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات وہ بہت پست قامت لوگوں سے بھی الجھ پڑتا تھا۔ ایسے لوگ جو کے ٹخنوں کے برابر بھی نہیں آتے تھے ۔میں فراز سے کہتا تھا کہ آپ اپنے برابر کے لوگوں کے ساتھ چونچیں لڑایا کریں جب آپ ان کو ڈو قسم کے لوگوں کے منہ آتے ہیں تو یہ کسی کے کاندھے پر بیٹھ کر آپ پر حملہ آور ہوتے ہیں اور پھر خود کو عالم چنا سمجھنے لگتے ہیں، مگر فراز اپنی طبیعت سے مجبور تھا۔ دو چار بار مشورہ دینے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ایسے معاملات میں فراز کومشورہ دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

 

میں نے پوری زندگی میں فراز سے زیادہ مقبولیت کسی شاعر کی نہیں دیکھی۔ خصوصاً حسیناؤں میں اس کی ”مانگ“بہت زیادہ تھیں۔ میں نے دس برس قبل کینیڈا میں اشفاق حسین کے مشاعرے کے بعد ایک ایسا منظر دیکھا کہ فراز پر غصہ آنے لگا ۔ دو خواتین ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑگئی تھیں مگر موصوف انہیں پلا نہیں پھڑا رہے تھے اور نہ ہی اپنی دلچسپ گفتگو سے کسی مستحق دوست کی طرف انہیں ملتفت ہونے دیتے تھے۔ اس روز مجھے شک گزرا کہ سوشلزم پر فراز کا ایمان مکمل نہیں ہے ورنہ سوشلزم میں تو ملکیت کی بجائے مساوی تقسیم پر زور دیا جاتا ہے۔ فراز کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے یہ ایک ادھورا کالم ہے کیونکہ تھوڑی دیر پہلے شبلی فراز سے میری فون پر بات ہوئی ہے۔ آج شام چھ بجے میں نے فراز کے ہزاروں مداحوں کے ساتھ اسے اسلام آباد سے عدم آباد کی طرف الوداع کہنا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد کا بذریعہ کار سفر ساڑھے چار گھنٹے کا ہے۔ سو میں اس وقت روانگی کے مرحلے میں ہوں۔ مجھے یہ افتخار حاصل ہے کہ فراز لاہورآتے تھے تو کبھی کبھار میرے گھر پربھی دو ایک دن گزارتے تھے۔ سو میں اس وقت انہیں اپنے گھر میں چلتا پھرتا دیکھ رہا ہوں، مگر دو چار گھنٹوں کے بعد جب اسلام آباد میں فراز سے ملاقات ہوگی تو یہ بلبل ہزار داستان خاموشی سے کفن اوڑھے لیٹا ہوگا ۔اب رہتی دنیا تک صرف اس کی شاعری ہم سے باتیں کرے گی۔

                                                                   تحریر: عطاء الحق قاسمی


متعلقہ تحریریں:  

 پطرس بخاری بحیثیت مزاح نگار 

 صادق ہدایت