• صارفین کی تعداد :
  • 4806
  • 7/14/2008
  • تاريخ :

ملیریا کا نیا ممکنہ طریقہ علاج

آنوفیل

ملیریا سے ہر سال دس لاکھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں .آسٹریلوی رسرچرز نے ملیریا کے علاج کا ایک نیا ممکنہ طریقہ دریافت کیا ہے جسے ایک اہم سائنسی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے سائنسدان یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ملیریا کی وجہ سے خون کے سرخ خلیات کیسے متاثر ہوتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام ملیریا کے جراثیم اور متاثرہ خلیات کو جسم سے نکالنے یا ’فلش‘ کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔

 

میلبورن کے والٹر اینڈ ایلیزا ہال میڈکل رسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک گوند جیسی شہ کی وجہ سے آلودہ خلیات نسوں کی دیوار سے چپک جاتے ہیں۔

ان کے خیال میں اس جنیاتی دریافت سے ملیریا کے خلاف جنگ میں بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

 

یہ گوند آلودہ خلیات کو سپلین یا تلی میں جانے سے روکتا ہے جہاں مدافعتی نظام عام طور پر انہیں تباہ کر سکتا ہے۔

مچھروں سے حفاظت کا ابھی تک کوئی موثر طریقہ دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔

 

سائنسدانوں نے آٹھ پروٹینز کی نشاندہی کی ہے جن کی وجہ سے یہ گوند آلودہ خلیات سے چسپاں ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی پروٹین کو ہٹا دیا جائے تو اس عمل کو روکا جاسکتاہے۔

رسرچ ٹیم میں شامل پروفیسر ایلن کاون کہتے ہیں کہ یہ دریافت ملیریا کے خلاف ایک بڑا ہتھیار بن سکتی ہے۔

’اگر ہم دواؤں یا ٹیکہ سے ان پروٹینز کو نشانہ بنائیں تو ہم اس عمل کو روک سکتے ہیں۔ اگر ہم نے خلیات کی رگوں میں چپکنے کی صلاحیت ختم کردی تو ملیریا کو روکا جاسکتا ہے۔

 

ملیریا قابل علاج بیماری ہے لیکن وقت پر علاج نہ کیا جائے تو جانلیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ اس بیماری سے ہر سال دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد افریقی بچوں کی ہوتی ہے۔