محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی |
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی |
تھا لطفِ وصل اور کبھی افسونِ انتظار |
یوں دردِ ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی |
پرساں نہ تھا کوئی تو یہ رسوائیاں نہ تھیں |
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی |
ہر چند غم بھی تھےمگر احساسِ غم نہ تھا |
درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی |
دن بھی اُداس اور مری رات بھی اداس |
ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی |
دورِ خزاں میں یوں مرا دل بے قرار ہے |
دورِ خزاں میں یوں مرا دل بے قرار ہے |
میں جیسے آشناۓ بہاراں نہ تھا کبھی |
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی |
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی |
بےکیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات |
شاعر کا نام : ناصر کاظمی
پیشکش : شعبۂ تحریرو پیشکش تبیان