• صارفین کی تعداد :
  • 3922
  • 6/10/2008
  • تاريخ :

احمد ندیم قاسمی ، ترقی پسند تحریک کا آخری سپہ سالار

احمد ندیم قاسمی

ادب کو وقار و اعتبار بخشنے والی مقتدر ترین شخصیت احمد ندیم قاسمی اب ہمارے درمیان نہیں رہے ،البتہ ان کی نگارشات یقیناًاردو ادب اور صحافت کو اعتبار بخشنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوں گی۔قاسمی صاحب کا تعلق اردو کے اس قبیلے سے تھا

جس نے ترقی پسندی کی ابتداسے لے کرما بعد جدیدیت تک کا سفر پورے سلیقے اور شان سے کیا اورعصری حسیت سے ہم آہنگی کے ذریعہ ادب و صحافت سے قاری کے رشتے کو مستقل استوار کرتے رہنے کو ترجیح دی

احمد ندیم قاسمی اردو ادب کا ایسا منفرد نام ہے جسے سرحدوں کے حصار میں قید کرنے کی ہر کوشش ناکام رہی اور بین الاقوامی اردو برادری نے ان کی عظمت و اہمیت کا خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ اعتراف کیا بلکہ برصغیر میں ان کی حیثیت کو ایک کہنہ مشق شاعر ،بزرگ ادیب اور بے باک صحافی کے طور پر شمار میں لایا جاتا رہا۔کہا جاسکتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی وادی ادب اورمیدان صحافت دونوں شعبوں میں کامیاب ترین زندگی گزارنے والی چند ایک ممتاز ہستیوں میں سے ایک تھے ، ورنہ صحافت اور ادب کے مابین اس وقت جو سرد جنگ کا ماحول پیدا ہوچلا ہے اس میں صاحبان قلم نے توگویا ان دو شعبوں میں سے کسی ایک کو ہی اپنی جنبش تحریر کے لےے مختص کرلیا ہے

بلا اختصاص یہ ملکہ احمد ندیم قاسمی کوحاصل تھا کہ وہ جس طرح مختلف اصناف ادب پر عبور کامل رکھتے ہوئے ادبی تقاضے کو خوش اسلوبی کے ساتھ برتنے کاہنر جانتے تھے ،اسی نہج پر انہوں نے وادی صحافت کو بھی اپنی جرات مندانہ تحریروں کے ذریعہ زرخیزی عطاکی ۔بیس نومبر1916کوپنجاب کے ایک دور افتادہ علاقے میں پیدا ہونے والے احمد ندیم قاسمی کا ادبی سفر اس وقت شروع ہوا جب برصغیر میں ترقی پسند تحریک ایام طفولیت سے دوچار تھی اور اسے بلوغیت سے ہمکنار کرنے کے لیے ادب نوازوں کا ایک بڑا حلقہ فکری اور تخیلاتی دور سے ہی گزررہاتھا

خواہ پریم چند جیسا سرمایہ کار مخالف صاحب قلم ہو یا فیض جیسا غموں کو پینے والا شاعر،ہرکوئی ترقی پسندفکر کو برتنے کے حوالے سے پس وپیش سے ہی کام لے رہا تھا۔ایسے عہد میں احمد ندیم قاسمی نے سجاد ظہیر،علی سردار جعفری،خواجہ احمد عباس، معین احمد جذبی،فیض احمد فیض اورمجروح سلطان پوری جیسے نقیبوں کے تعاون سے سالاری اور سپہ سالاری کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اس فکر کو تحریک کی شکل دینے کی شعوری کوشش کی جس کے نتیجے میں ہی حقیقتاً ترقی پسند ی کو اردو ادب میں ’تحریک ‘کا درجہ حاصل ہوا

احمد ندیم قاسمی کی کوئی نظم

یہ بات دیگر ہے کہ بعد کو انہوں نے اس تحریکی مشن سے عملاًلاتعلقی اختیار کر لی اور جب ترقی پسند تحریک زوال پذیر ہوگئی تو انہوں نے جدیدیت سے رشتہ استوار کرلیا۔گویا احمد ندیم قاسمی نے ادب میں عصری حسیت سے بیش از بیش کام لیتے ہوئے اپنی فکر کو ارتقائی صورت بخشنا لازمی گر دانا۔احمد ندیم قاسمی کے تعلق سے حالانکہ یہ بات تقریباًپوشیدہ ہے کہ انہوں نے خاموشی کے ساتھ’ تحریک‘سے علیحٰدگی کیوں اختیار کی؟ تاہم ابھی حال میں انہوں نے اپنی ایک تحریر کے دوران ترقی پسند تحریک سے وابستہ چند ایک ہم عصروں سے جس ناراضگی کا اظہار کیا اس سے بخوبی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف بطور خاص فیض سے اس وجہ سے نالاں تھے کیونکہ فیض نے ان کواس طرح سے متعارف نہیں کرایا جس کے وہ مستحق تھے

احمد ندیم قاسمی کا سرمایہ ادب خاصا ضخیم ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی گویا ادب وصحافت کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔انہوں نے مختلف ادب پاروں کی ادارت کا بھی بحسن و خوبی فریضہ انجام دیا

یہ موقع اس بات کا نہیں کہ یہاں ترقی پسند تحریک کے آخری سالار احمد ندیم قاسمی کی ادبی وصحافتی زندگی کے جملہ خدمات کا احاطہ کیا جائے کیونکہ موصوف نے اپنی زندگی کو کچھ اس طرح ان دونوں شعبوں سے وابستہ کر رکھا تھاکہ ان کی مکمل تفصیل پر خامہ فرسائی کسی ایک اور مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔غالباً یہی وجہ رہی کہ زندگی کے بیشترایام انہوں نے مختلف اصناف ادب پرطبع آزمائی میں گزارنے کے ساتھ ہی ساتھ وادی صحافت میں بھی خوب خوب اپنے جوہر دکھائے

ان کا تعلق چونکہ مغربی پنجاب سے تھا لہٰذا تقسیم ہند کے بعد بھی انہوں نے پاکستان میں ہی باقی ماندہ زندگی گزار نے کو ترجیح دی۔یہ صحیح ہے کہ احمد ندیم قاسمی اعلیٰ پائے کےصاحب قلم تھے اور ان کی نگارشات میں پائی جانے والی فکری پختگی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انہیں صحافت کا جو بے پناہ تجربہ تھا اوراسے پاکستان کے سیاسی حالات کو ذہن میںرکھتے ہوئے انہوں نے جس طرح برتا اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے

احمد ندیم قاسمی کو جہاں ایک طرف مختلف شعری اصناف پردسترس حاصل تھی وہیں دوسری جانب انہوں نے ایک کامیاب مدیر کی حیثیت سے بھی اپنا خاصا وقت گزارا ۔ کئی برسوں تک ’ادب لطیف‘کے مدیررہے،جبکہ 1947میں ’سویرا‘ کے چند ابتدائی شماروں کے مدیر کے طور پر بھی انہوں نے کام کیا۔ جب محمد طفیل نے ’نقوش‘ کا اجراکیا تو احمد ندیم قاسمی اس کے مدیر بنے تاہم جلدہی وہ اس سے الگ ہو گئے

1963 میں انہوں نے اپنے ادبی رسالہ ’فنون‘ کا اجراءکیا جواب تک شائع ہو رہاہے۔ احمد ندیم قاسمی نے غزل اور نظم دونوں صنفوں میں شاعری کی ۔ وہ کچھ عرصہ امتیاز علی تاج کے رسالے ’پھول اور تہذیب نسواں‘ سے جڑے رہے اور بعد میں ترقی پسند اردو اخبار ’امروز‘ کے لئے فکاہی کالم لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں وہ عبدالمجید سالک کو اپنا استاد مانتے تھے

کوئی کتاب احمد ندیم قاسمی کی شاعری کےبارےمیں

احمد ندیم قاسمی کا کالم پنج دریا کے عنوان سے طویل عرصہ تک امروز میں شائع ہوتا رہا۔ بعد میں وہ اس اخبارکے مدیربھی مقررہوگئے لیکن جب 1959میں اس ادارے کو جنرل ایوب خان نے سرکاری انتظام میں لیا تو وہ اس سے الگ ہوگئے۔ تاہم اس کے لئے ’عنقا‘ کے نام سے کالم لکھتے رہے

امروز کے بعد احمد ندیم قاسمی روزنامہ جنگ اور بعد میں کراچی سے نکلنے والے روزنامہ حریت میں بھی کالم لکھتے رہے۔ ان دنوں وہ روزنامہ جنگ سے کسی حد تک وابستہ تھے۔ وہ گزشتہ 32 سال سے لاہور میں ادبی ادارہ مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر کے عہدہ جلیلہ پر بھی فائزرہے۔ احمد ندیم قاسمی نے1937سے شاعری اور افسانہ نگاری شروع کی اور ان دونوں اصناف سخن کے تقاضوںکو بخوبی نبھایا ۔ وہ 1949 میں مختصر مدت کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سکریٹری بھی بنائے گئے۔1951میں موصوف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کئے گئے۔ 1954 میں انہوں نے انجمن کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا

بعد ازاں وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے بھی دور ہوگئے۔ایک بار ہی نہیں متعدد مرتبہ احمد ندیم قاسمی سے پاکستانی روزنامہ ’جنگ‘کی وساطت سے راقم کو رابطے کا موقع ملا۔ دراصل ان کی کئی ایسی تحریریں باصرہ نواز ہوئیں جو پاکستانی ارباب اقتدار کی نظروں میں یقینا قابل گرفت گردانی جاسکتی تھیں

چنانچہ جب انہیں ان کی اس بے باکی پر مبارک باد دےنے کا موقع ملا تومجھے حیرت اس بات کی ہوئی کہ انہوںنے نہ صرف یہ کہ خندہ پیشانی کے ساتھ اس حقیرذات کے مراسلے کا جواب عنایت کیا بلکہ انہوں نے صحافتی تقدس کے حوالے سے بڑی مفید اور کارآمد مشوروں سے بھی نوازا۔ احمد ندیم برادری کے لئے ان کی موت صدمہ عظیم کا درجہ رکھتی ہے۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے


متعلقہ تحریریں:

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای (دامت برکاتہ)

حضرت آیت اﷲ العظمیٰ خامنہ ای " دام ظلہ " کی مختصر سوانح حیات

حضرت عمار بن ياسر