• صارفین کی تعداد :
  • 2971
  • 5/6/2008
  • تاريخ :

مکہ

مکہ معظمہ

مکہ  تاریخی خطہ حجاز میں سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے ۔ مکہ جدہ  سے 73 کلومیٹر دور وادی فاران میں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے ۔ یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔

یہ شہر اسلام کا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقام بیت اللہ یہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کا حج کرنا فرض ہے ۔

 

نام

انگریزی زبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ 1980ء کی دہائی میں حکومت سعودی عرب نے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کردیا۔

معروف مورخ ابن خلدون کے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مورخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے۔ مسلم فقیہ النخائی نے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہ الزہری بھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والا ب دونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاں م میں تبدیل ہوگیا۔ مکہ کو ”ام القراء“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔

 

تاریخ

بیت اللہ مسجد حرام کے اندر قائم خانہ کعبہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا ۔ مورخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میں رومی و بازنطینی سلطنتوں کے لئے زمینی راستے پر تھا اور ہندوستان کے مصالحہ جات بحیرہ عرب اور بحر ہند کے راستے سے یہیں گذرتے تھے۔

کعبة اللہ کی تعمیر تاریخ عہد ابراہیم اوراسماعیل علیہم السلام سے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہرمیں نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اوریہاں پرہی مسجد حرام واقع ہے جو کہ لوگوں کی عبادت کے لئے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :

”اللہ تعالی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لئے برکت و ہدایت والا ہے“    ( آل عمران آیت 96 )

570ء یا 571ء میں یمن کا  فرمانروا  ابرہہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ  وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے ، اپنے سردار عبدالمطلب کی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہزاروں ابابیل چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لئے ہوئے نمودار ہوئے اور انہوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکر منیٰ کے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔

خانہ کعبہ

تواس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالی کے حکم سے تباہ وبرباد ہوگیا اللہ تعالی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :

"کیا تونے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا ؟ کیا ان کی سازش ومکر کو بے کار نہیں کردیا ؟ اوران پرپرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے ، جوانہیں مٹی اورپتھر کی کنکریاں ماررہے تھے ، پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا" (سورہ فیل)

یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا ۔ ان پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اور تبلیغ اسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کرگئے۔

بالآخر 10 رمضان المبارک   8 ھ بمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے ۔ مدینہ ہجرت جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کى قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کو فتح مکہ کے نام سے بھى یاد کیا جاتا ہےـ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام اہلیان شہر کے لئے عام معافی کا اعلان کیا۔

خلافت اسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جو کعبة اللہ سے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے ۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔

مکہ کبھی بھی ملت اسلامیہ کا دارالخلافہ نہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دارالخلافہ مدینہ تھا جو یہاں سے 250 میل دور ہے ۔

مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔

1926ء میں سعودیوں نے مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کو سعودی عرب میں شامل کرلیا۔

جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیارکرتا جارہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہوچکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔

 

اہمیت

مسلمانوں کے لئے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے ۔ حالیہ سالوں میں ماہ ذوالحجہ میں 20سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمان عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔

شہر مکہ میں بنیادی حیثیت بیت اللہ کو حاصل ہے جو مسجد حرام میں واقع ہے ۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گرد طواف کرتے ہیں، حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں اور زمزم کے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی اور منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل بھی کیا جاتا ہے ۔ حج کے دوران میدان عرفات میں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔

مسلمانوں کے لئے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔

غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔

 

متعلقہ تحریریں:

  خانہ کعبہ، حجر اسود اور مسجدالنبی کے دلکش مناظر

   کربلا

  نجف اشرف

  مسجد امیر چخماق ( نئی جامع مسجد) یزد