ازدواجی اخراجات
ایک اور مشکل یہ ہے کہ شادی کے اخراجات میں روز بروز اضافہ ھوتا جا رھا ہے ۔ والدین اور سر پرستوں کی توقعات بڑھتی جا رھی ھیں ۔ رسم و رواج اور تکلفات اتنے زیادہ مھنگے ھو گئے ھیں کہ جوان شادی سے گھبراتے ھیں۔ ان غلط رسم و رواج اور بے جا تکلفات کا ذمہ دار کون ہے ؟
مناسب ہے کہ لڑکیاں اور ان کے والدین حضرت رسول خدا (ص) کا یہ پیغام غور سے سنیں ۔ اس کی پیروی کرتے ھوئے حقائق کو سمجھیں اور ھوا و ھوس سے دور رھیں ۔
آنحضرت کا ارشاد ہے :
” اگر کوئی ( خواستگار ی ) کے لئے تمھارے پاس آئے اور تم اس کے اخلاق اور دین سے راضی ھو( اس کو پسند کرتے ھو ) تو اس سے شادی کرلو ۔ اور اگر انکار کرو گے تو زمین میں عظیم فتنہ و فساد برپا ھو جائے گا “ (1)
آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” میری امت کی بھترین عورتیں وہ ھیں جو خوبصورت ھوں اور جن کا مھر کم ھو “ (2)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
” وہ عورت با برکت ہے جو کم خرچ ھو “ (3)
کفو
بے جا توقعات کی ایک وجہ ” کفو “ کے صحیح مفھوم سے نا واقفیت ہے بھت سے لوگ بھت ساری چیزوں کو اپنی شان کی خصوصیت سمجھتے ھیں جن کی حیثیت تکلفات سے زیادہ نھیں ہے وہ کھتے ھیں کہ ھم اپنی لڑکی کی شادی کس طرح کریں ابھی تک ھمیں کوئی آئیڈیل لڑکا نھیں مل سکا یعنی مالدار ھو ، بڑا خاندان ھو ،زندگی کے جملہ وسائل فراھم ھوں ۔
بعض افراد اس طرح کے قیود سے عاجز آچکے ھیں اور معاشرہ کو قصور وار قرار دیتے ھیں اور وہ خود اس بات سے غافل ھیں کہ اس طرح کا سماج خود انھیں نے تشکیل دیا ہے ۔
اسلام میں کفو کا مطلب مال و دولت، جاہ و منصب اور مادیت کی برابری نھیں ہے بلکہ اگر وہ افراد دینی اور اخلاقی اعتبار سے برابر ھیں تو وہ ایک دوسرے کے کفو ھیں ۔
” جویبر “ یمامہ کے رھنے والے تہے مدینہ میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اسلام قبول کیا ۔ کوتاہ قد تہے ۔ محتاج و برھنہ تہے اور کسی قدر کریہ المنظر تہے ۔ پیغمبر اسلام آپ کو کافی تسلی دیتے تہے اور آنحضرت کے حکم کے مطابق جویبررات کو مسجد میں سوتے تہے ۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ان مھاجروں اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ھو گیا جن کا ٹھکانہ بس مسجد تھی ۔
پیغمبر اسلام پر وحی نازل ھوئی کہ ان لوگوں کو مسجد کے باھر جگہ دی جائے ۔ رسول خدا (ص) نے خدا کے حکم پر عمل کرتے ھوئے حکم دیا کہ پناہ گزینوں کے لئے ایک الگ جگہ معین کی جائے بعد میں اس جگہ کا نام ” صفّہ “ قرار پایا ۔ جو لوگ وھاں رھتے تہے ان کو اسی مناسبت سے اصحاب صفہ کھا جاتا تھا ۔
ایک دن پیغمبر اسلام نے شفقت بھری نگاہ سے جویبر کو دیکھا اور شادی کرنے کی پیش کش کی ۔
جویبر نے کھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کون لڑکی مجہ سے شادی کرنے پر تیار ھو گی خدا کی قسم میرا نہ کوئی حسب و نسب ہے نہ دولت ہے اور خوبصورت بھی تو نھیں ھوں ۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا : اسلام نے جاھلیت کی رسموں کو ختم کر دیا ہے وہ لوگ جو اس زمانے میں پست تہے اسلام لانے کے بعد با عزت ھو گئے وہ لوگ جو جاھلیت میں( دولت ، ثروت ، جاہ و منصب کی بنا پر )اپنے کو با عزت سمجھتے تہے آج وہ ( احکام خدا کی نافرمانی کرنے کی بنا پر ) اسلام کی نگاہ میں ذلیل ھو گئے ھیں ۔
جویبر! تمام انسان، گورے کالے ،عرب عجم سب فرزند آدم ھیں اور خدا نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ، قیامت میں وھی شخص سب سے بھتر ہے جو سب سے زیادہ احکام الٰھی کی پیروی کرنے والا اور پرھیز گار ھو ۔ اس بنا پر کسی بھی انسان کو تم پر فوقیت حاصل نھیں ہے مگر تقویٰ اور پرھیز گاری کی بنیاد پر ۔
اسکے بعد فرمایا : زیاد بن بشیر اپنے قبیلہ کی محترم شخصیت ہے اس کے پاس جاؤ اور کھو رسول خدا(ص) نے مجہے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ سے آپ کی بیٹی ” ذلفا“ کی خواستگاری کروں ۔
پیغمبر اسلام کے حکم کے مطابق جویبر زیاد بن بشیر کے گھر گئے اجازت طلب کی ، داخل ھوئے اور پیغمبر کا پیغام پھونچایا ۔
زیاد نے تعجب سے پوچھا کیا پیغمبر اسلام نے تمھیںبس اسی کام سے بھیجا ہے ۔
جویبر نے کھا : ھاں میں رسول خدا (ص) کی طرف غلط نسبت نھیں دونگا ۔
زیاد نے کھا : ھم اپنی لڑکیوں کی شادی صرف انھیں سے کرتے ھیں جو ھمارے برابر ھوں اور انصار سے ھوں تم جاؤ۔ میں خود رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ھو کر معذرت کر لوں گا ۔
جویبر یہ کھتے ھوئے واپس چلے آئے کہ آپ کا یہ طریقہ قرآن اور حدیث پیغمبر کے مطابق نھیں ہے ۔
زیاد کی بیٹی ذلفا کنارے کھڑی جویبر کی گفتگو سن رھی تھی اس نے باپ کو بلایا اور دریافت کیا آپ نے جویبر کو کیا جواب دیا ؟
زیاد نے کھا : جویبر تمھاری خواستگاری کے لئے آیا تھا اور کھہ رھا تھاکہ پیغمبر اسلام کے حکم کے مطابق تمھاری شادی اس کے ساتھ کر دوں ۔
ذلفا نے کھا کہ اس کو جلدی واپس بلائیے خدا کی قسم وہ پیغمبر کی طرف غلط نسبت نھیں دے سکتا۔
زیاد نے جویبر کو واپس بلایا اور خود پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ھوئے اور کھا میرے والدین آپ پر قربان ۔ آپ کی جانب سے جویبر اس طرح کا پیغام لایا تھا آپ تو جانتے ھی ھیں کہ ھم اپنی لڑکیوں کی شادی اپنے برابر والوں کے علاوہ کسی اور سے نھیں کرتے ۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا :
جویبرمومن ہے اور مرد مومن زن مومنہ کا کفو ہے اور مسلمان مرد مسلمان عورت کا کفو ہے :” المومن کفو للمومنة و المسلم کفو للمسلمة “ جویبر کو اپنا داماد بنا لو اور اس کو اپنے سے دور کرنے کے لئے بھانہ مت تلاش کرو ۔
زیاد واپس ھوئے جو باتیں رسول خدا (ص) سے ھوئی تھیں ذلفا سے بیان کر دی ۔
ذلفا نے نھایت ایمان و اطمینان سے اپنے والد سے کھا رسول خدا (ص) کے حکم پر عمل کیجئے اگر آپ نا فرمانی کریں گے تو کافر ھو جائیں گے ۔
زیاد نے دیکھا کہ اس کی بیٹی اس شادی پر راضی ہے ۔ جویبر کو اپنے رشتہ داروں کے درمیان بلایا اور ذلفا سے شادی کر دی ۔ چونکہ جویبر کے پاس گھر نھیں تھا لھذا ایک گھر بھی دیا تاکہ جویبر اور ذلفا آسانی کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کر سکیں “ (4)
یہ بات بھی قابل توجہ ہے یہ لوگ جو تحصیل علوم کی طولانی مدت کو شادی کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ھیں وہ اشتباہ کرتے ھیں کیونکہ شادی صرف تحصیل علوم کو متاثر نھیں کرتی بلکہ شادی کے بعد وہ سکون ملتا ہے کہ جس کی بنا پر مزید ذوق و شوق سے بڑھائی کی جا سکتی ہے ۔
جو لوگ یہ کھتے ھیں کہ جب تک جوان ڈگری حاصل نہ کر لے ،اس کی مالی حیثیت درست نہ ھو جائے اس وقت تک شادی نھیں کرنا چاھئے یہ نظریہ بالکل بے بنیاد ہے ۔ کیونکہ یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ اقتصادی پریشانی زیادہ تر غلط رسم و رواج کی بنا پر ہے ۔ اگر گھرانے اسلامی قوانین پر عمل کرنے لگیں اور اپنی توقعات کم کر دیں، خرافات اور اندھی تقلید سے دست بردار ھو جائیں تو وہ شادی جو ایک ھیولیٰ بنی ھوئی ہے اور خطرناک نظر آتی ہے نھایت آسان ھو جائے گی ۔
دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اگر طالب علم اپنی توقعات کم کریں اور واقعی ضرورتوں کو خیالی ضرورتوں سے جدا کریں اور لڑکی کے والدین اسلامی احکام سے واقفیت کی بنا پر غلط رسم و رواج سے دست بردار ھو جائیں تو طالب علم کی شادی کے لئے راہ خود بخود ھموار ھو جائے گی اور آسانی سے شادی ھو سکے گی
حوالہ جات:
1۔وسائل ج۱۴ ص ۵۱
2۔وسائل ج ۱۴ ص ۷۸
3۔وسائل ج ۱۴ ص ۷۸
4۔فروع کافی ج۵ ص ۳۴۱