• صارفین کی تعداد :
  • 3708
  • 1/20/2008
  • تاريخ :

پیغمبر اسلام (ص) کے 313 وفادار ساتھي

محمد رسول الله

پيغمبر اسلام (ص) 313 / افراد كے ساتھ جن ميں تقريباً تمام مجاہدين اسلام تھے سرزمين بدركے پاس پہنچ گئے تھے يہ مقام مكہ اور مدينہ كے راستے ميں ہے يہاں آپ كو قريش كے لشكر كى روانگى كى خبر ملى اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كہ كيا ابوسفيان كے قافلہ كا تعاقب كيا جائے اور قافلہ كے مال پر قبضہ كيا جائے يا لشكر كے مقابلے كے لئے تيار ہواجائے؟ ايك گروہ نے دشمن كے لشكر كامقابلہ كرنے كو ترجيح دى جب كہ دوسرے گروہ نے اس تجويز كو ناپسند كيا اور قافلہ كے تعاقب كو ترجيح دى ،ان كى دليل يہ تھى كہ ہم مدينہ سے مكہ كى فوج كا مقابلہ كرنے كے ارادہ سے نہيں نكلے تھے اور ہم نے اس لشكر كے مقابلے كے لئے جنگى تيارى نہيں كى تھى جب كہ وہ ہمارى طرف پورى تيارى سے آرہا ہے _

 

اس اختلاف رائے اور تردد ميں اس وقت اضافہ ہوگيا جب انہيں معلوم تھاكہ دشمن كى تعداد مسلمانوں سے تقريبا تين گنا ہے اور ان كا سازوسامان بھى مسلمانوں سے كئي گنا زيادہ ہے، ان تمام باتوں كے باوجود پيغمبر اسلام (ص) نے پہلے گروہ كے نظريے كو پسند فرمايا اور حكم ديا كہ دشمن كى فوج پر حملہ كى تيارى كى جائے _

 

جب دونوں لشكر آمنے سامنے ہوئے تودشمن كو يقين نہ آيا كہ مسلمان اس قدر كم تعداد اور سازو سامان كے ساتھ ميدان ميں آئے ہوں گے ،ان كا خيال تھا كہ سپاہ اسلام كا اہم حصہ كسى مقام پر چھپاہوا ہے تاكہ وہ غفلت ميں كسى وقت ان پر حملہ كردے لہذا انہوں نے ايك شخص كو تحقيقات كے لئے بھيجا، انہيں جلدى معلوم

ہوگيا كہ مسلمانوں كى جمعيت يہى ہے جسے وہ ديكھ رہے ہيں _

دوسرى طرف جيسا كہ ہم نے كہا ہے مسلمانوںكاايك گروہ وحشت وخوف ميں غرق تھا اس كا اصرار تھا كہ اتنى بڑى فوج جس سے مسلمانوں كا كوئي موازنہ نہيں ، خلاف مصلحت ہے، ليكن پيغمبر اسلام (ص) نے خدا كے وعدہ سے انہيں جوش دلايا اور انہيں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمايا :كہ خدا نے مجھ سے وعدہ كيا ہے كہ دوگرو ہوں ميں سے ايك پر تمہيں كا ميابى حاصل ہوگى قريش كے قافلہ پر يا لشكر قريش پراور خداكے وعدہ كے خلاف نہيں ہوسكتا _

خدا كى قسم ابوجہل اور كئي سرداران قريش كے لوگوں كى قتل گاہ كو گويا ميں اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہوں _

اس كے بعد آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ بدر كے كنوئيں كے قريب پڑا ئو ڈاليں _

رسول اللہ (ص) نے پہلے سے خواب ميں اس جنگ كا منظر ديكھا تھا، آپ نے د يكھا كہ دشمن كى ايك قليل سى تعداد مسلمانوں كے مقابلہ ميں آئي ہے، يہ در اصل كاميابى كى ايك بشارت تھى آپ نے بعينہ يہ خواب مسلمانوں كے سامنے بيان كرديا، يہ بات مسلمانوں كے ميدان بدر كى طرف پيش روى كے لئے ان كے جذبہ اور عزم كى تقويت كا باعث بني_

البتہ پيغمبر اكرم (ص) نے يہ خواب صحيح ديكھا تھا كيونكہ دشمن كى قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زيادہ تھى ليكن باطناً كم، ضعيف اور ناتواں تھي، ہم جانتے ہيں كہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبير كا پہلو ركھتے ہيں، اور ايك صحيح خواب ميں كسى مسئلے كا باطنى چہرہ آشكار ہوتا ہے_