• صارفین کی تعداد :
  • 3450
  • 12/26/2007
  • تاريخ :

تقيہ ايك فطري، عقلي، دينى اور اخلاقى ضرورت

رز قرمز

 

تقيہ كا جواز اس بات كى بہترين دليل ہے كہ اسلام ايك جامع اور لچك دار دين ہے اور ہر قسم كے حالات سے عہدہ برا ہوسكتا ہے_ اگر اسلام خشك اور غيرلچك دار ہوتا يااس ميں نئے حالات وواقعات سے ہم آہنگ ہونے كى گنجائش نہ ہوتى تو لازمى طورپر نت نئے واقعات سے ٹكراكر پاش پاش ہوجاتا _بنابريں خدانے تقيہ كو جائز قرار ديكر مشكل اور سنگين حالات ميں اپنے مشن كى حفاظت اس مشن كے پاسبان (رسول(ص) ) كى حفاظت كے ذريعے كي_ اس كى بہترين مثال خفيہ تبليغ كا وہ دور ہے جس ميں حضور اكرم(ص) اور آپ(ص) كے اصحاب، بعثت كے ابتدائي دور سے گزرے_

جب دين كے لئے قربانى دينے كا نہ صرف كوئي فائدہ نہ ہو بلكہ دين كے ايك وفادار سپاہى كو ضائع كرنے

كى وجہ سے الٹا دين كا نقصان بھى ہو تو تب دين اسلام كے پاسبانوں كى حفاظت كے لئے دين ميں لچك كى سخت ضرورت محسوس ہوتى ہے _ يوں بہت سے موقعوں پر اسلام كى حفاظت اس كے ان وفادار اور نيك سپاہيوں كى حفاظت كے زير سايہ ہوتى ہے جوبوقت ضرورت اس كى راہ ميں قربانى دينے كيلئے آمادہ رہتے ہيں پس تقيہ كا اصول انہى لوگوں كى حفاظت كيلئے وضع ہوا ہے_

رہے دوسرے لوگ جنہيں اپنے سواكسى چيزكى فكر ہى نہيں ہوتى تو، تقيہ كے قانون كى موجودگى يا عدم موجودگى ان كيلئے مساوى ہے تقيہ اسلام كے محافظين كى حفاظت كيلئے ہے تاكہ اس طريقے سے خود اسلام كى حفاظت ہوسكے تقيہ نفاق يا شكست كا نام نہيں كيونكہ اسلام كے يہ محافظين تو ہميشہ قربانى دينے كيلئے آمادہ رہتے ہيںاور اس بات كى دليل يہ ہے كہ معاويہ كے دورميں خاموش رہنے والے حسين (ع) وہى حسين(ع) تھے جنہوں نے يزيد كے خلاف اس نعرے كے ساتھ قيام كيا:

ان كان دين محمد لم يستقم

الا بقتلى فيا سيوف خذيني

يعنى اگر دين محمد(ص) كى اصلاح ميرے خون كے بغير نہيں ہوسكتى ، تو اے تلوارو آؤ اور مجھے چھلنى كر دو_

پس جس طرح يہاں ان كا قيام دين اور حق كى حفاظت كے لئے تھا بالكل اسى طرح وہاں ان كى خاموشى بھى فقط دين اور حق كى حفاظت كے لئے تھي_ اس نكتے كے بارے ميں ہم نے حلف الفضول كے واقعے ميں گفتگو كى ہے_

يوں واضح ہوا كہ جب حق كى حفاظت كيلئے قربانى كى ضرورت ہوتو اسلام اس كو لازم قرارديتا ہے اوراس سے پہلوتہى كرنے والوں سے كوئي رو رعايت نہيں برتتا_

علاوہ برايں اگر اسلام كے قوانين خشك اورغير لچك دار ہوں توبہت سے لوگ اس كو خير باد كہہ ديں گے بلكہ اس كى طرف بالكل رخ ہى نہيں كريں گے_ وحشى وغيرہ كے قبول اسلام كے بارے ميں ہم بيان كريں گے كہ بعض لوگ اسلئے مسلمان ہوتے تھے كہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب كو قتل نہيں كرتے _

بنابريں واضح ہے كہ اسلام كے اندر موجود اس نرمى اور لچك كى يہتوجيہ صحيح نہيں ہے كہ يہ قانون دين ميں

دى گئي ايك سہولت ہے تاكہ بعض لوگوں كيلئے قبول اسلام كوآسان بناياجاسكے بلكہ اسے تو اسلام ومسلمين كى حفاظت كا باعث سمجھنا چاہئے بشرطيكہ اس سے اسلام كے اصولوں كو نقصان نہ پہنچتا ہو بلكہ ترك تقيہ كى صورت ميں قوت اور وسائل كابے جا ضياع ہوتا ہو اور يہى امر تقيہ اور نفاق كے درميان فرق كا معيار ہے ليكن بعض لوگ تقيہ كو جائز سمجھنے والوں پر نفاق جيسے ناجائزاور ظالمانہ الزام لگانے ميں لطف محسوس كرتے ہيں_

ايك دفعہ رسول(ص) الله كے پاس قبيلہ ثقيف كے افراد آئے اور آپ(ص) سے درخواست كى كہ كچھ مدت كيلئے ان كو بتوں كى پوجا كرنے كى اجازت دى جائے نيز ان پر نماز فرض نہ كى جائے (كيونكہ وہ اسے اپنے لئے گراں سمجھتے تھے) اس كے علاوہ انہيں اپنے ہاتھوں سے بت توڑنے كا حكم نہ دياجائے تو اسى معيار كى بناپريہاں ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ حضورنے آخرى بات تو مان لى ليكن پہلى دو باتوں كو رد كرديا_ (1) اسى طرح انہوں نے يہ درخواست بھى كى تھى كہ انہيں زنا، شراب سود اور ترك نماز كى اجازت دى جائے (2) انہيں بھى رسول (ص) خدا نے رد كرديااور اس بات كا لحاظ نہ كيا كہ يہ قبيلہ اسلام قبول كرنے كا ارادہ ركھتا ہے جس سے اسلام كو تقويت ملے گى اور دشمن كمزور ہوں گے_ آپ(ص) نے ان لوگوں كو جنہوں نے سال ہا سال بتوں كى پوجا كى تھى مزيد ايك سال تك بت پرستى كى مہلت كيوں نہ دي؟ جس كے نتيجے ميں وہ اسلام سے آشنا اور قريب ترہوجاتے_ آپ(ص) نے ان كا مطالبہ ٹھكراديا حتى كہ ايك لمحے كيلئے بھى آپ نے ان كو اس بات كى اجازت نہ دي، كيونكہ آپ(ص) ہر جائز وناجائز وسيلے سے اپنے اہداف تك پہنچنے كے قائل نہ تھے، آپ(ص) وسيلے كو بھى ہدف كاايك حصہ سمجھتے تھے جيساكہ ہم ذكر كرچكے ہيں_

ليكن اس كے مقابل اگر كوئي بالفرض آپ(ص) كى بے حرمتى كرتا تو آپ(ص) معاف كرديتے تھے بشرطيكہ اسے يہ احساس ہوجاتا كہ اس نے گناہ كيا ہے اور رسول(ص) خدا نے اس سے درگذر كياہے_ ليكن اگر وہ شخص اپنے غلط عمل كو صحيح سمجھتا تو آپ(ص) كسى صورت ميں بھى اسے معاف نہيں فرماتے_

خلاصہ (3)يہ كہ جب مسلمان كمزور ہوں تو پھر انہيں دشمنوں كے ساتھ سخت لڑائي لڑنے كاحق نہيں جس ميں وہ خود ہلاك ہوجائيں ياان كے ختم ہونے سے عقيدہحق بھى ختم ہوجائے كيونكہ دين اور نظريات وعقائد كو اس قسم كے مقابلے سے كوئي فائدہ نہيں پہنچتا بلكہ كبھى كبھى الٹا نقصان پہنچتا ہے _ نيز اگرحق كا دفاع ايسى قربانى دينے سے پرہيز پر موقوف ہو جو حق كے مٹنے كا باعث ہو، عقل وفكر سے بيگانہ ہو يا وحشيانہ طرز عمل كے ساتھ ہو، نيز ايك نظرياتى جنگ كيلئے مطلوبہ شرائط سے خالى ہو تو پھر اس قربانى سے احتراز كرنا چاہيئے_

يہ بات اسلام كى عظمت، جامعيت اور حقائق زندگى كے ساتھ اس كى ہماہنگى كى ايك اور دليل ہے_

1_ يہاں سے پتہ چلا كہ ''جبلہ ابن ايھم'' سے قصاص لينے پر اصرار ميں عمر كى پاليسى كامياب نہ تھي_ كيونكہ وہ تازہ مسلمان ہوا تھا اور اپنى قوم كا حاكم تھا_ اس نے ابھى اسلام كى عظمت اور ممتاز خوبيوں كو نہيں سمجھا تھا_ حضرت عمر كو چاہئے تھا كہ وہ صورت حال كى نزاكت كے پيش نظر اس مسئلے كو كسى آسان تر طريقے سے حل كرتے_

2_ سيرہ نبويہ دحلان ( حاشيہ سيرہ حلبيہ پر مطبوع) ج3 ص 11 ، المواہب اللدنيہ ج1 ص 236 ، تاريخ الخميس ج 2 ص 135 تا 137 اور ترك نماز كے متعلق ملاحظہ ہو : الكامل فى التاريخ ج 2 ص 284 ، اسى طرح سيرہ نبويہ ابن ہشام ج 4 ص 185 ، سيرہ نبويہ ابن كثير ج4 ص 56 اور البدايہ والنہايہ ج5 ص 30_

3_ يہ خلاصہ علامہ سيد محمد حسين فضل اللہ كے فرمودات سے ماخوذ ہے _ مراجعہ ہو: مفاہيم الاسلاميہ عامہ حصہ 8 ص 127_