انسان کی فطرت جستجو و تجسس
انسان کی روحی صفات میں سے ایک ،حقائق اور واقعیات سے متعلق اسکی جستجو و تحقیق ھے ۔ یہ صفت ھر انسان میں اس کے بچپنے ھی سے ظاھر ھو جاتی ھے اور آخر عمر تک جاری رھتی ھے ۔ انسان کی یھی صفت ھے جو اسکو دین سے متعلق مسائل کے بارے میں تحقیق کرنے پر مجبور کرتی ھے اور اس سے کھتی ھے کہ دین بر حق کی شناخت کے لئے اقدام کرے ۔
آیا عالم غیب یا غیر محسوس وجود رکھتاھے؟ وجود رکھنے کی صورت میں آیا عالم غیب اور عالم مادی میں کوئی رابطہ پایا جاتا ھے؟ رابطہ پائے جانے کی صورت میں آیا کوئی ایسی غیر محسوس ذات ھے جس نے اس مادی دنیا کو خلق کیا ھے؟
آیا وجود انسان فقط اسی مادی اور محدود زندگی تک ھی محدود ھے یا ایک دوسری زندگی بھی ھے ؟ دوسری زندگی ھونے پر آیا اس مادی و محدود زندگی اور اس دوسری زندگی میں کوئی رابطہ پایا جاتا ھے ؟ رابطہ ھونے کی صورت میں وہ کون کون سے عامل ھیں جو دوسری زندگی میں موثر ھوتے ھیں ؟ اور ایسی کون سی راہ و روش ھے جس کی بنیاد پر زندگی کا ایک کامیاب اور مناسب دستورعمل حاصل کیا جاسکتا ھے ، ایسا دستور عمل جو انسانی کمال و سعادت کیلئے معاون ھو؟
یہ ایسے سوالات ھیں جو ھمیشہ ھر انسان کو ان کے جوابات کے حصول پر اکساتے رھتے ھیں ۔ ایک دوسرا عامل جو انسان کو حقیقت جوئی پر ابھارتا ھے ، یہ ھے کہ انسان ھمیشہ یہ چاھتا ھے کہ اسکی خواھشات و ضروریات کی تکمیل ھو ۔ ھر چند اسکی یہ خواھشات علمی اور سائنسی پیشرفت کے سائے میںپوری ھوئی جاتی ھیں لیکن دین کا بھی ان ضروریات کی تکمیل اور راہ حق کی نشاندھی میں اھم کردار ھوتا ھے ۔ دین بشر کوبتاتا ھے کہ اسکی کون سی خواھش مناسب ھے اور کون سی نا مناسب ۔ دین انسان کو اس کے حقیقی منافع و مصالح سے آشنا کراتا ھے نیز اسکو نقصانات سے محفوظ رکھتا ھے۔
خدا شناسی ایک فطری خواھش ھے جس کا سر چشمہ بعض ماھرین نفسیات ” حس دینی “ کو قرار دیتے ھیں ۔ اس حس کو حس تجسس ، حس نیکی اور حس زیبائی کے ساتھ ساتھ روح انسان کے چوتھے بُعد سے تعبیر کرتے ھیں ۔ یہ افراد تاریخ اور باستان شناسی کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ھیں خدا پرستی ھمیشہ بنی آدم کا خاصہ رھا ھے ۔ یھی عمومیت ھے جس کی بنا ء پر کھا جا سکتا ھے کہ خدا پرستی ایک فطری شئی ھے۔