• صارفین کی تعداد :
  • 6271
  • 8/18/2008
  • تاريخ :

ایشیا کی مساجد (4)

شاہ فیصل مسجد

شاه فیصل مسجد

بنیادی معلومات

مقام اسلام آباد، پاکستان

معلوماتِ طرزِ تعمیر

ماہر تعمیرات ویدات دلوکے

رخ بجانب قبلہ

سالِ تکمیل 1986ء

تعمیری لاگت 120 ملین امریکی ڈالر

خصوصیات

گنجائش 80 ہزار (بشمول صحن)

تعدادِ مینار 4

بلندئ مینار 90 میٹر

شاہ فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان عبادت گاہ ہے جسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ عظیم مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر کے باعث تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔

شاه فیصل مسجد

تاریخ

شاہ فیصل مسجد کی تعمیر کی تحریک سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے 1966 کے اپنے دورہ اسلام آباد میں دی۔ 1969 میں ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرایا گیا جس میں 17 ممالک کے 43 ماہر فن تعمیر نے اپنے نمونے پیش کیے۔ چار روزہ مباحثہ کے بعد ترکی کے ویدت دالوکے کا پیش کردہ نمونہ منتخب کیا گیا۔ پہلے پہل نمونے کو روایتی مسجدی محرابوں اور گنبدوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں مسجد کی خوبصورت تعمیر نے تمام نقادوں کی زبان گنگ کر دی۔

سعودی حکومت کی مدد سے دس لاکھ سعودی ریال (کم و بیش ایک کروڑ بیس لاکھ امریکی ڈالر) کی لاگت سے 1976 میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ تعمیری اخراجات میں بڑا حصہ دینے پر مسجد اور کراچی کی اہم ترین شاہراہ 1975ء میں شاہ فیصل کی وفات کے بعد ان کے نام سے موسوم کردی گئی۔ تعمیراتی کام 1986ء میں مکمل ہوا اور احاطہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بنائی گئی۔ سابق صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کا چھوٹا سا مزار مسجد کے مرکزی دروازے کے قریب واقع ہے۔

فن تعمیر

شاه فیصل مسجد

مسجد کا اندرونی منظرمسجد 5000 مربع میٹر پر محیط ہے اور بیرونی احاطہ کو شامل کرکے اس میں بیک وقت میں 80ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ یہ دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک اور برصغیر کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ فن تعمیر جدید ہے، لیکن ساتھ ہی روایتی عربی فن تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک بڑا تکونی خیمے اور چار میناروں پر مشتمل ہے۔ روایتی مسجدی نمونوں سے مختلف اس میں کوئی گنبد نہیں ہے اور ایک خیمہ کی طرح مرکزی عبادت گاہ کو چار میناروں سے سہارا دیا گیا ہے۔ مینار ترکی فن تعمیر کے عکاس ہیں جو عام مینار کے مقابلے میں باریک ہیں۔ مسجد کے اندر مرکز میں ایک بڑا برقی فانوس نسب ہے اور مشہور زمانہ پاکستانی خطاط صادقین نے دیواروں پر پچی کاری کے ذریعے قرآنی آیات تحریر کی ہیں جو فن خطاطی کا عیم شاہکار ہیں۔ پچی کاری مغربی دیوار سے شروع ہوتی ہے جہاں خط کوفی میں کلمہ لکھا گیا ہے۔

مسجد کا فن تعمیر عرصہ دراز سے ہونے والے جنوبی ایشیائی مسلم فن تعمیر سے مختلف ہے اور کئی انداز میں روایتی عربی، ترکی اور ہندی طرز تعمیر کا امتزاج ظاہر کرتا ہے۔

محل وقوع

مسجد شاہراہ اسلام آباد کے اختتام پر واقع ہے، جو شہر کے آخری سرے پر مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں ایک خوبصورت منظر دیتی ہے۔ یہ اسلام آباد کے لیے ایک مرکز اور شہر کی سب سے مشہور پہچان ہے۔

 

 

بادشاہی مسجد

بادشاهی مسجد

بنیادی معلومات

مقام لاہور، پاکستان

معلوماتِ طرزِ تعمیر

رخ بجانب قبلہ

سالِ تکمیل 1673ء

خصوصیات

گنجائش 60 ہزار افراد

لمبائی 804 فٹ (بمعہ صحن)

چوڑائی 612 فٹ (بمعہ صحن)

بلندی 50.5 فٹ

تعدادِ گنبد 3

بلندئ گنبد (بیرونی) مرکزی گنبد: 49 فٹ

دیگر گنبد: 32 فٹ

قطرِ گنبد (بیرونی) مرکزی گنبد: 65 فٹ

دیگر گنبد: 51.5 فٹ

تعدادِ مینار 4

بلندئ مینار 176 فٹ 4 انچ

بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔

تاریخ

ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مزہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مضفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 سے لیکر 1673 تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔

مرمات

جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔

خاص واقعات

دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر، جو کہ لاہور میں 22 فروری، 1974 کو ہوئی، 39سربراہان مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔

لال مسجد پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے قلب میں آبپارہ کے علاقہ میں [1]1965 میں تعمیر کی گئی ہے۔ سرخ پتھر سے تعمیر کے باعث یہ "لال مسجد" کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے قریب وزات ماحولیات اور وزارت مذہبی امور کی عمارتوں کے علاوہ ایک عالی شان ہوٹل بھی واقع ہے۔

پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا صدر دفتر مسجد سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ مسجد اور مدرسے کے مہتمم دو بھائی غازی عبد الرشید اور مولانا عبد العزیز ہیں جن کے والد مولانا عبداللہ تھے۔ مولانا عبد اللہ سابق صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کے قریب تھے۔ [2] پرویز مشرف کے دور میں مسجد کی انتظامیہ نے ملحقہ سرکاری زمین پر قبضہ کر کے مدرسہ تعمیر کر لیا۔ مبصرین کی نظر میں اس کھلی قبضہ واردات میں ان کو حکومتی ایجنسیوں کی آشیرباد حاصل تھی۔

وجہ شہرت

لال مسجد کا سب سے پہلے باقی ملک کے لوگوں نے اس وقت نام سنا جب اکتوبر دو ہزار ایک میں افغانستان پر حملے کے بعد یہاں سے طالبان کی حمائت میں جلوس نکلنے شروع ہوئے۔لیکن یہاں کے منتظمین نے سیاسی طاقت کا پہلا بھر پور مظاہرہ 2007 میں کیا جب مسجد سے متصل مدرسے کی طالبات نے غیر قانونی مساجد کے انہدام کے جواب میں بچوں کی لائبریری پر قبضہ کرلیا۔لیکن حکومت نے جس طرح اس مسئلے پر مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ کی شرائط مان لیں اسکے بعد حوصلے اور بڑھے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں لال مسجد والوں نے یہ کاروائی اس بات سے توجہ ہٹانے کے لیے کی کہ انہوں نے سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کر کے جامعہ حفصہ کی تعمیر کی اور کچھ زمین لال مسجد کے احاطہ میں شامل کی۔ لال مسجد والے زمین پر ناجائز قبضہ سے انکار نہیں کرتے بلکہ اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اور لوگوں نے بھی سرکاری زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا ہے کہ لال مسجد تنازعہ کے پس منظر میں انہوں نے حکومت سے کہا ہے کہ غیر قانونی اور قابض جگہ پر تعمیر کردہ مساجد بھی غیر قانونی ہوتی ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

اس دوران لال مسجد اور کچھ جامعہ فریدیہ کے طلباء نے وڈیو دوکانوں کے چکر لگانے شروع کردیئے۔لٹھ بازی کی تربیت شروع ہوگئی اور طالبات نے کمانڈو ایکشن کرکے تین عورتوں اور دو پولیس والوں کو پکڑ لیا۔ حکومت نے اس مرتبہ بھی مسجد اور مدرسے کی جانب سے پیش کردہ شرائط پر سمجھوتہ کرلیا۔اس سے مزید حوصلے بڑھے اور پھر نہ صرف شرعی عدالت قائم ہوگئی ہے بلکہ حکومت اور لوگوں کو تائب ہونے اور نفاز شریعت کا بھی الٹی میٹم مل گیا۔ لال مسجد کے طالبان نے کئی بار لوگوں کو یرغمال بنایا ہے۔ بی بی سی کے مطابق 18 مئی 2007 کو انھوں نے چار پولیس والوں کو قابو کر کے لال مسجد میں بند کر دیا۔ حکومت اس مسئلہ پر بظاہر بے بس نظر آتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ شاید یہ ایک ڈرامہ ہے۔  23 جون 2007ء کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے طلبا اور طالبات نے کچھ چینیوں کو بھی اغوا کیا۔ ان پر الزام لگایا کہ وہ فحاشی پھیلاتے تھے اور یہ الزامات ثابت بحی ہوگیے ہیں اہل محلہ کی گواہی سے۔ انہوں نے چینی لوگوں کو مارا پیٹا اور اغوا کر کے لال مسجد کے اندر لے گئے۔ کیونکہ وہ جسم فروشی کے مکروہ کاروبارمیں مبتالا تحا قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ اغوا اور تشدد صوبہ سرحد کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے چین کے انتہائی اہم نوعیت کے دورے سے عین ایک دن پہلے کیا گیا۔

تصادم

جولائی 2007ء میں سرکاری رینجرز اور پولیس نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو گھیرے میں لے کر ان کے خلاف کاروائی کا آغاز کر دیا جس میں 19 کے قریب افراد مارے گئے اور نامعلوم تعداد میں زخمی ہوئے۔ مبصرین نے لال مسجد کی مذہبی قیادت کی افسوسناک تاریخ اور کاروائی کو پرویز مشرف حکومت کی طرف سے کھیلے جانے والا ڈرامہ قرار دیا ہے جس میں دونوں اطراف کو اپنے مقاصد کیلئے آلہ کار بنایا گیا۔[6]چار سے زیادہ دنوں پر محیط اس کاروائی جس میں باقاعدہ فوج کے کمانڈوز نے بھی حصہ لیا، کو مبصرین نے فوجی انتظامیہ کی شدید پیشہ وارانہ نااہلی قرار دیا ہے۔[7][8] 4 جولائی 2007ء کو لال مسجد کے خطیب عبدالعزیز برقع میں فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ وہ برقع پہن کر لال مسجد سے باہر آنے والی طالبات کے جھرمٹ میں عورت کا بہروپ بھر کر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ [9] قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ لال مسجد کے خطیب عبد العزیز کی برقع میں گرفتاری تمام دینی علماء کے لیے ایک باعث شرم عمل ہے۔[10] مسجد کے خطیب عبدالعزیز کے برقع میں عورتوں کی طرح فرار سے ان کے ساتھیوں کو شدید مایوسی ہوئی جن کو وہ مرنے یا شہید ہونے کی تلقین کرتے تھے۔ فوجی ترجمان کے مطابق 7 اور 8 جولائی کی درمیانی شب کو مسجد کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کی فائرنگ سے فوجی کاروائی کے قائد لیفٹینینٹ کرنل ہارون اسلام مارے گئے۔  وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ لال مسجد میں دو سے پانچ دہشت گرد موجود ہیں جو مختلف سنگین مقدمات میں حکومت کو مطلوب ہیں۔ اس کے علاوہ شبہ ہے کہ پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکی دھشت گرد بھی ہوں گے.

10 جولائی سے پہلے کی شب بڑا آپریشن شروع ہونے کے بعد، جو اگلی صبح بھی جاری رہا، آٹھ فوجی اور پچاس افراد ھلاک ہوگئے۔ لیکن مزے کی بات یہ کہ عبدالعزیز پہلے ہی برقعہ میں فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور اس کی بیوی ام حسان نے 10 جولائی کو خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر کے اپنی جان بچائی حالانکہ یہی دونوں معصوم طلبا اور طالبات کو دھشت گردی پر اکسانے والے تھے۔ یوں انہوں نے سینکڑوں بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

عبد الرشید کا انتقال

لال مسجد کے مہتمم عبدالرشید غازی 10 جولائی کوفوجی آپریشن کے دوران ہلاک ہوگئے۔ اس بات کو وزارتِ داخلہ نے کنفرم کر دیا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق قائداعظم یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے عبدالرشید غازی نے، جو روایتی مولوی نہیں تھے، شیر جیسے کردار کا مظاہرہ کیا جبکہ ان کے بھائی عبدالعزیز، جو اصل میں لال مسجد کے سب سے بڑے مولوی تھے، اور ان کی بیوی ام حسان نے ان جیسے کردار کا مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی جان بچانے کو ترجیح دی۔ البتہ بعض مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ عبدالعزیز نے برقع میں گرفتاری بہت سی جانیں بچانے کے لیے دی۔ لیکن خود عبدالعزیز کے بیان کے مطابق اسلام میں اپنی جان بچانا جائز ہے اس لیے میں نے اپنی جان بچائی۔ مگر بعد میں ایک تبدیل شدہ بیان میں انہوں نے کہا کہ اصل میں وہ بیت اللہ محسود سے ملنے کے لیے برقعہ کا سہارا لے کر جا رہا تھا۔

اخبارات نے یہ بھی لکھا کہ عبدالعزیز نے دعویٰ کیا ہے کہ حضور (ص) تین سو مرتبہ ان کے خواب میں آئے اور جہاد کی تلقین کی مگر عبدالعزیز نے پھر بھی عورتوں کی طرح برقعہ میں فرار ہونے کو ترجیح دی۔  غازی عبد الرشید کا انتقال شام سات بجے کے قریب ہوا۔ ان کے ساتھ ان کی والدہ کی بھی وفات ہوئی جو رپورٹوں کے مطابق بارود کی وجہ سے دم گھٹنے سے ہوئی۔

بعد از فوجی کاروائی

12 جولائی 2007ء کو بالاخر ذرائع ابلاغ کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا دورہ کروایا گیا۔ یہاں فوجی حکومت کے بیانات کے برعکس نہ تو کوئی غار دریافت ہوئی، نہ سرنگ، نہ ہی بڑے دہشت گردوں کا کوئی سراغ۔ تہ خانے جن کا بڑا چرچا تھا (جہاں شدت پسند کے چھپے ہونے کا بتایا جاتا رہا)، میں بھی جنوبی جانب کھڑکیاں تھیں، جس طرف سے فوج نے راکٹ داغے۔ فوجی جوان جوتوں سمیت مسجد میں دندناتے پھر رہے تھے۔ پھر بھی اخبار نویسوں کو عمارات کے تمام حصوں میں نہیں جانے دیا گیا۔

عدالت اعظمٰی

خونی فوجی کاروائی سے پہلے عدالت عظمٰی کے دو رکنی مَحکمہ نے حکومت کو بات چیت کے زریعے حل نکالنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت کی طرف سے چودھری شجاعت حسین نے مذاکرات کیے اور خبروں کے مطاابق ایک معاہدہ کی شرائط پر اتفاق رائے ہو گیا تھا، مگر اطلاعات کے مطابق صدر جنرل پرویز مشرف نے شرائط بدل کر اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ فوجی کاروائی شروع ہونے کے بعد عدالت نے آئین کی رُو سے اس میں مداخلت سے معذوری ظاہر کی۔ کاورائی ختم ہونے کے بعد عدالت نے مدرسہ کے گرفتار شدہ طلباء کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے اور گرفتار شدگان کی فہرست عدالت میں پیش نہ کرنے پر پولیس اور کمشنر اسلام آباد کی سرزنش کی۔ تاہم عدالت نے ہلاک شدگان کی صحیح تعداد کے بارے متضاد دعووں کی تحقیقات کرنے سے گریز کیا۔ جولائی کو عدالت نے حکم دیا کہ لال مسجد میں مرنے، زخمی، اور لاپتہ افراد کی فہرست عدالت کو پیش کی جائے۔ منصفین نے حکومتی حرکتوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے حکومت انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے سینکڑوں طلبہ کا جسمانی ریمانڈ لے کر جیل میں ڈال چکی ہے۔ 28 اگست 2007ء کو عدالت نے حکم دیا کہ جامع حفصہ کی جگہ کوئی دوسری تعمیر فی الحال نہ کی جائے۔

ممکنہ اثرات

دونوں طرف کی پارٹیوں کے غلط ہونے کے باوجود اس واقعہ کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جہاں اس کو سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا وہاں یہ عین ممکن ہے کہ یہ امریکہ کی خواہش کے عین مطابق پاکستان میں خانہ جنگی کی ابتداء ثابت ہو۔ یعنی مسلمانوں کی قوت امریکہ کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے آپس ہی میں ضائع ہو جائے۔ صوبہ سرحد میں پہلے ہی مسائل شروع ہو چکے ہیں۔ بٹگرام میں فساد ہو چکا ہے جس میں کئی سرکاری دفاتر جلائے جا چکے ہیں۔ امکان ہے کہ 11 جولائی کو پاکستان میں شدید ردِ عمل سامنے آئے۔ اس کے علاوہ 13 جولائی بروز جمعہ بھی ھڑتالیں، توڑ پھوڑ اور احتجاج متوقع ہے۔

متحدہ مجلس عمل نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ لال مسجد کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔

رد عمل

تمام واقعات مقامی اخبارات سے لیے گئے ہیں۔

14 جولائی۔ پاکستان میں شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک میں ایک خودکش حملے میں 24 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور ستائیس زخمی ہوگئے۔

15 جولائی۔ پاکستان کے علاقہ سوات کے صدر مقام مینگورہ کے قریب حملے میں11 فوجیوں سمیت 14 افراد ہلاک 39 زخمی ہو گئے۔

15 جولائی۔ پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کی پولیس لائینز میں ہونے والے ایک خود کش حملے میں سترہ افراد ہلاک اور پینتیس زخمی ہو گئے

15 جولائی۔ پاکستان کےعلاقے شمالی وزیرستان کے طالبان نےگزشتہ برس حکومت کے ساتھ کیا جانے والا امن معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔علاقے میں گوریلا کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جب سے یہ معاہدہ ہوا تھا ، امریکہ کی شدید خواہش تھی کہ یہ معاہدہ ختم ہو جائے۔

17 جولائی۔ چیف جسٹس افتخار چوھدری کی اسلام آباد کی ریلی میں خود کش حملے سے 17 افراد ہلاک ہو گئے۔

18 جولائی۔ شمالی وزیرستان، پاکستان میں دھشت گردوں کے ایک اور خود کش حملہ میں سترہ فوجی ہلاک اور گیارہ زخمی ہو گئے۔

19 جولائی۔ ہنگو اور حب میں دھماکے، 33 ہلاک۔ حب میں اصل نشانہ چینی شہری تھے جو بچ گئے۔ اس حملہ کے بارے میں واضح نہیں کہ یہ لال مسجد کا رد عمل ہے یا کچھ اور مگر لال مسجد والوں کی مانند یہ بھی چینی شہریوں پر خاص مہربان نظر آتے ہیں۔

19 جولائی۔ کوہاٹ چھاؤنی کی مسجد میں خود کش حملہ۔ چودہ افراد ہلاک

طوبٰی مسجد

طوبی مسجد

طوبٰی مسجد پاکستان کے شہر کراچی میں واقع ایک خوبصورت مسجد جو مقامی سطح پر گول مسجد کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ مسجد طوبیٰ 1969ء میں کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں تعمیر کی گئی۔ یہ کورنگی روڈ کے قریب واقع ہے۔ مسجد طوبیٰ غالباً واحد گنبد کی حامل دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ کراچی کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ مسجد طوبیٰ کو خالص سفید سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے گنبد کا قطر 72 میٹر (236 فٹ) ہے اور یہ بغیر کسی ستون کے صرف بیرونی دیواروں پر کھڑا ہے۔ مسجد طوبیٰ کا واحد مینار 70 میٹر بلند ہے۔ عبادت گاہ کے مرکزی وسیع و عریض کمرے میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔