يوم ظہور پرنور خاتون جنت سيدہ النسا (حصّہ ششم)
حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ
سيدہ عالم نہ صرف اپني سيرت زندگي بلکہ اقوال سے بھي خواتين کے ليے پردہ کي اہميت پر بہت زور ديتي تھيں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ ليکن آپ کبھي برقع وچارد ميں نہاں ہو کر بھي اپنے والدِ بزرگوار کے پيچھے نماز جماعت پڑھنے يا اپ کا وعظ سننے کے ليے مسجد ميں تشريف نہيں لائيں بلکہ اپنے فرزند امام حسن عليہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامين سن ليا کرتي تھيں . ايک مرتبہ پيغمبر نے منبر پر يہ سوال پيش کر ديا کہ عورت کے ليے سب سے بہتر کيا چيز ہے يہ بات سيدہ کو معلوم ہوئي تو آپ نے جواب ديا عورت کے لئے سب سے بہتر بات يہ ہے کہ نہ اس کي نظر کسي غير مرد پر پڑے اور نہ کسي غير مرد کي نظر اس پر پڑے۔ رسول کے سامنے يہ جواب پيش ہوا تو حضرت نے فرمايا .
"کيوں نہ ہو فاطمہ ميرا ہي ايک ٹکڑا ہے"
حضرت زہرا(س) اور جہاد
اسلام ميں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے لہذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھي ميدانِ جنگ ميں قدم نہيں رکھا۔ ليکن جب کبھي پيغمبر ميدان جنگ سے زخمي ہو کر پلٹتے تو سيدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتيں تھيں .اور جب علي عليہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دھو کر پاک کرتي تھيں۔ وہ اچھي طرح سمجھتي تھيں کہ ان کا جہاد يہي ہے جسے وہ اپنے گھر کي چار ديواري ميں رہ کے کرتي ہيں . ہاں صرف ايک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئيں اور وہ تھا مباہلے کا موقع کيونکہ يہ ايک پرامن مقابلہ تھا اور اس ميں صرف روحاني فتح کا سوال تھا يعني صرف مباہلہ کا ميدان ايسا تھا جہاں سيدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر ميں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکليں جس کا واقعہ يہ تھا کہ يمن سے عيسائي علماء کا ايک وفد رسول کے پاس بحث ومباحثہ کے ليے آيا اور کئ دن تک ان سے بحث ہوتي رہي جس سے حقيقت ان پر روشن تو ہو گئي مگر سخن پروري کي بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے . اس وقت قران کي يہ آيت نازل ہوئي کہ" اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھي يہ نہيں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاو ہم اپنے بيٹوں کو لائيں تم اپنے بيٹوں کو لاو، ہم اپني عورتوں کو لائيں تم اپني عورتوں کولاو، ہم اپنے نفسوں کو لائيں تم اپنے نفسوں کو اور الله کي طرف رجوع کريں اور جھوٹوں کے ليے الله کي لعنت يعني عذاب کي بد دعا کريں .» "
عيسائي علماء پہلے تو اس کے ليے تيار ہوگئے مگر جب رسول الله اس شان سے تشريف لے گئے کہ حسن عليہ السّلام اور حسين عليہ السّلام جيسے بيٹے فاطمہ زہرا جيسي خاتون اور علي عليہ السّلام جيسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عيسائيوں نے مباہلہ سے انکار کر ديا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے . ( جاري ہے )