• صارفین کی تعداد :
  • 4428
  • 3/30/2016
  • تاريخ :

سعودی سازشیں ناکام

سعودی سازشیں ناکام


تیل کی کم قیمتیں تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی معیشتوں کو بدستور نقصان پہنچارہی ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ رواں برس میں تیل کی قیمت تقریبا چالیس ڈالر فی بیرل یا اس سے بھی کم ہی رہے گی۔ دوہزار چودہ سے تیل کی قیمتوں میں تقریبا پچہتر فیصد گراوٹ آئی ہے ۔ تیل کے ایک بیرل کی قیمت ایک سو چالیس ڈالر تھی جو گرکر تیس ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔فرانس کے بینک سوسیتہ ژنرال نے جو یورپ کا ایک بڑا بینک ہے کہا ہے کہ امریکہ اور نئی منڈیوں میں ڈیمانڈ میں اضافہ نہ ہونے کے باوجود عالمی سطح پر تیل کی اضافی پیداوار جاری رہے گی۔ ڈیمانڈ سے زیادہ سپلائی اورتیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک میں ہر ملک کے لئے معین حصہ سے زیادہ پیداوار سے تیل کی منڈیوں کو شاک پہنچا ہے۔ سعودی عرب اور روس نے جو امریکہ کے بعد تیسرے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک ہیں کئی ماہ قبل اتفاق کیا تھا کہ اپنی پیداوار نہیں بڑھائیں گئے، ان ملکوں نے کہا تھا کہ گذشتہ سال کے جنوری کے مہینے کی پیداوار کے برابر تیل کی پیداوار میں کمی لائیں گے لیکن عملی طور سے ان ملکوں نے تیل کی پیداوار میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔
واشنگٹن ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور روس کا معاہدہ تیل کی عالمی منڈی پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہا ہے۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ چین میں تیل کے ڈیمانڈ میں اضافے کے باوجود جو کہ دنیا میں تیل خریدنے والا ایک بڑا ملک ہے چین میں کساد بازاری پھیل چکی ہے جو ایک تشویشناک بات ہے اس سے یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ اقتصادی جمود یا کساد بازاری سے چین میں تیل کی ڈیمانڈ کم ہوجائے گی۔تیل کی قیمتوں میں کمی آنے سے شیل تیل یعنی ریتیلی اور پتھریلی زمینوں سے تیل نکالنے والی کمپنیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بعض نے تو اپنی تیل کی پیداوار بند کردی ہے کیونکہ اس طرح سے تیل نکالنے پر کافی خرچ آتا ہے۔
پیٹر سن بین الاقوامی اقتصادی تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ نے گذشتہ مہینے اعلان کیا تھا کہ اس جوے میں جیتنے اور ہارنے کا خطرہ بے حد زیادہ ہے جس سے سعودی عرب نے امیدیں لگارکھی ہیں۔ اس امریکی اقتصادی انسٹی ٹیوٹ نے تیل کے میدان میں سعودی عرب کی غلط پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر بھی شرط بندی کرنا سعودی عرب کی حماقت تھی۔ یہ معاہدہ حسب توقع اس بات کا سبب بنا کہ ایران تیل کی منڈی میں داخل ہوجائے۔پابندیوں کی بنا پر دو ہزار بارہ سے ایران تیل کی منڈی سے غائب تھا لیکن آج حالات بدل چکے ہیں اور اس مرتبہ تیل کی منڈی میں ایران کی موجودگی گذشتہ دہائیوں سے کہیں مضبوط ہے۔سعودی حکام کو یہ توقع تھی کہ تیل کی قیمت میں شدید کمی سے ایران کو اقتصادی لحاظ سے نقصان پہنچے۔
اس وقت خلیج فارس کے عرب ملکوں کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ تیل کی متلاطم منڈی سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔تیل کے مسائل کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورتحال کے سیاسی اثرات سعودی عرب اور کویت جیسے ملکوں کے لئے اقتصادی حالات سے خطرناک ہونگے بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ خلیج فارس کے عرب ملکوں نے اربوں ڈالر اپنے فوجی پروگراموں پر لگار رکھے ہیں۔ یہ ممالک ایک شدید بحران کے دہانے پر کھڑے ہیں اور اگر سعودی عرب کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی پیروی کرنا ختم نہیں کریں گے تو انہیں خود کو اس کے خطرناک نتائج کا سامنا کرنے کےلئے آمادہ کرلینا چاہیے۔