• صارفین کی تعداد :
  • 7237
  • 2/21/2016
  • تاريخ :

تشیع کی پیدائش اور نشوونما

بسم الله الرحمن الرحيم


تشیع کی پیدائش، حضرت علی علیہ السلام کو بلا فصل جانشینِ رسول ماننے کے اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے دور حیات سے ہی ہو چکی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی تئیس سالہ تبلیغ کے دوران عمومی طور پر اور بعض جگہ خصوصی طور پر علی علیہ السلام کو اپنے جانشین اور خلیفہ کے عنوان سے پہچنوانا اس بات کا سبب بنا کہ مسلمانوں میں ایک خاص گروہ جو علم و ایمان اور تقویٰ و پرہیز گاری کے اعتبار سے اسلامی سماج کی برجستہ شخصیتوں پر مشتمل تھا اس تفکر کو لے کر آگے بڑھا اور رسول اسلام (ص) کی زحمات کا مثبت جواب دیا۔(۱)
ہم یہاں پر ان موارد کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں جہاں رسول اسلام(ص) نے اس موضوع کو بیان کیا اور لوگوں کو اپنے بعد علی علیہ السلام کی پیروی کرنے کا حکم دیا:
الف:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعثت کے ابتدائی ایام میں جب آپ اللہ کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو دین حنیف کی طرف دعوت دینے پر مامور ہوئے تھے(۲) تو اسی دعوت میں جسے ’’ دعوت ذوالعشیرہ‘‘ کہتے ہیں واضح الفاظ میں فرما دیا تھا کہ جو بھی اس کام میں میری مدد کرے گا، میرا ہاتھ بٹائے گا وہ میرا جانشین،خلیفہ اور وصی ہو گا۔ تین بار رسول اسلام(ص) نے لوگوں کے درمیان یہ مطالبہ رکھا تینوں مرتبہ سوائے علی علیہ السلام کے کسی نے آپ کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا جبکہ علی علیہ السلام کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس تھی۔ علی علیہ السلام نے ہر کام میں دوسروں پر سبقت لی، سب سے پہلے ایمان لائے، سب سے پہلے پیغمبر اکرم(ص) کے وعدوں کو قبول کیا اور سب سے پہلے آپ کی مدد اور نصرت کا وعدہ کیا (۳) عام طور پر یہ چیز محال ہے کہ کسی نہضت اور تحریک کا سربراہ اپنی تحریک کے پہلے دن ہی اپنے جانشین اور وزیر کو مقرر کر دے بغیر اس کے کہ دوسروں کو اس کی پہچان کروائے یا خود اسے پہچانے اور دوسرے اس کی جانشینی پر کوئی اعتراض نہ کریں۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تحریک کا سربراہ اسے روز اول سے پہچانتا ہو اور سامعین بھی اس کے جانشین کو خود تحریک کے سربراہ کی ہوبہو تصویر دیکھتے ہوں ورنہ ابھی تو جانشین نے اپنا کوئی جوہر کمال نہیں دکھلایا کہ لوگ اتنی اہم بات سن کر خاموش ہو جائیں اور زبان درازی نہ کر سکیں۔
ب: شیعہ و سنی راویوں نے متواتر طریقے سے نقل کیا ہے کہ  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد مقامات پر صریح اور واضح الفاظ میں یہ بیان کیا کہ علی علیہ السلام (۴) اپنے قول و فعل میں ہر خطا اور لغزش سے معصوم ہیں۔ جو بات کہیں اور جو عمل انجام دیں وہ دین مبین اسلام کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے چونکہ آپ دینی معارف و احکام کی نسبت سب سے زیادہ آگاہ تھے۔(۵)
ج: علی علیہ السلام نے ایسی ایسی قیمتی خدمات اور حیرت انگیز جانفشانیاں انجام دیں جن کی مثال پوری تاریخ اسلام چھان مارنے سے بھی نہیں ملتی۔ شب ہجرت تلواروں کے سائے رسول اسلام(ص) کے بستر پر سو جانا(۶) بدر و احد اور خبیر و خندق جیسے معرکوں کو بہادری اور شجاعت کے ساتھ سر کرنا اور علمی میدانوں میں بڑے سے بڑے دانشمندوں کے پیچیدہ سوالوں کے آناًفاناً جواب دینا ایسے نمایاں کارنامے ہیں جو صرف اور صرف علی علیہ السلام کی ذات گرامی سے وقوع پذیر ہوئے اور اگر آپ کی ذات والا صفات ان مواقع میں سے کسی ایک موقع پر نہ ہوتی تو اسلام وہی دفن ہو کر رہ جاتا۔ رسول اسلام(ص) کے شانہ بشانہ رہ کر رسول اکرم(ص) کی حفاظت بھی کرنا اور اسلام کو بھی دشمنوں اور منافقوں کے شر سے بچانا صرف اور صرف علی علیہ السلام کے بس کی بات تھی۔(۷)
د: غدیر خم میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھلے عام لاکھوں کے مجمع میں حکم خدا کے مطابق لوگوں پر حجت تمام کرتے ہوئے علی علیہ السلام کو مقام ولایت و امامت کے لیے منصوب کیا اور انہیں اپنے بعد دین اسلام کا حقیقی والی و وارث بنایا۔ (۸) ( جاری ہے )

 


متعلقہ تحریریں:

امام کي ضرورت
امام کا انتخاب اور ذمہ داري