• صارفین کی تعداد :
  • 6353
  • 10/4/2014
  • تاريخ :

بچوں کي تربيت….والدين کي اصل ذمہ داري

بچوں کی تربیت….والدین کی اصل ذمہ داری

اولاد ماں باپ کے پاس اللہ تعا ليٰ کي امانت ہوتي ہيں- اللہ کي اس لطيف ، خوبصورت اور معصوم سي نعمت کو حاصل کرنے کے ليے بڑے بڑے پيغمبروں نے بھي دعائيں کي ہيں- جيسے ذکريا نے صالح اولاد کے لئے دعا فرمائي جو سورہ آل عمران ميں اس طرح موجود ہے- ”‌ اے ميرے رب مجھے اپنے پاس سے پاکيزہ اولاد عطا فرمابے شک تو دعا سننے والا ہے- “ اسي طرح ابراھيم  سے صالح اولاد کي دعا کرتے ہيں جو حضرت اسماعيل کي صورت ميں پوري ہوئي - حضرت اسماعيل کي فرماں برداري ، اللہ کي اطاعت اور قرباني کا جذبہ امت مسلمہ کے لئے اپني اولاد کي تربيت دينے کے ليے مثال ہے- بچوں کي اچھي تربيت کرنا ماں باپ کي سب سے اہم ذمہ داري ہے- قرآن ِ پاک ميں ارشاد ہواہے - ”‌ اے ايمان والو! بچاو آ؟ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عيال کو جہنم کي آگ سے- “

بچہ جب پيدا ہوتا ہے تو فطرتاً توحيد پر پيدا ہوتا ہے- ابتدائي عمر ميں بچے کي تربيت کا خاص خيال رکھنا چاہئے- ليکن بد قسمتي سے ابتدائي عمر ميں بچوں کي تربيت کو جس قدر اہميت ملني چاہئے اسي قدر اس عمر ميں اس چيز کو نظر انداز کيا جاتاہے- والدين چاہتے ہيں کہ اس کي اولاد دنيا ميں کامياب زندگي بسر کرے اور ہر جگہ ان کي شہرت کا چرچہ ہو جس کي وجہ سے وہ اپنے بچوں کے ليے دنياوي تعليم کو ديني تعليم سے زيادہ ترجيح ديتے ہيں اور بچوں کو ايسے اسکولوں ميں داخلہ کراتے ہيں جہاں ديني تعليم کا نام و نشان تک نہيں ہوتا-

اولاد کا بگڑنا اور بننا ان کے بچپن کي تربيت پر منحصر ہے- والدين کا فرض ہے کہ بچے کو ابتدا سے ہي بہادر ، صالح اور نيک بنانے کي کوشش کريں- بچے کي تربيت محض کھلانے ، پلانے اور لاڈ پيار سے ہي نہيں ہوني چاہئے بلکہ بچے کے چال و چلن اور اخلاق سنوارنے کا حوصلہ ان کے اندر پيدا کرنا چاہئے- بچے اپنے والدين کا اثر خاص طور پر قبول کرتے ہيں کيونکہ اس کے سامنے اس کے والدين ہي پہلے نمونہ ہوتے ہيں - والدين کو چاہئے کہ اولاد کے سامنے نيک عمل کرنے اور بچے کو بھي کرنا سکھائيں- بچے ان والدين کا اثر قطعي قبول نہيں کرتے جو نيکي کي تلقين تو کرتے ہيں ليکن خودا س پر عامل نہيں ہوتے- بلکہ وہ ان کاموں پر غور اور عمل کرتا ہے جو اس کے والدين اس کے سامنے کرتے ہيں- اگر ماں نماز پڑھے تو بچہ بھي اس کے ساتھ خود نماز پڑھتا ہے- کيونکہ وہ ديکھتا ہے کہ اس کي ماں کيا کرتي ہے ٹھيک ٹھيک اسي پر عمل کرتا ہے- اور اگر ماں خود نماز نہ پڑھے اور بچے کو نماز پڑھنے کے لئے کہے تو بچہ اس کي بات نہيں سنتا ہے اور نہ اسکي بات پر عمل کرتا ہے- اس طرح بچہ اپنے ماں باپ کے کردار کے سانچے ميں ڈھلتا ہے-

بچے کي تربيت کے لئے ماحول کا اسلامي حوالے سے پاکيزہ ہونا بہت ضروري ہے کيونکہ بچوں پر والدين کے علاوہ ماحول کا بھي بہت اثر پڑتا ہے- والدين کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے اچھے ماحول کا انتخاب کريں-بچوں کو ابتدائي عمر سے ہي حيا کا احساس دلائيں- ان کے سامنے اچھے الفاظ کا استعمال کريںاور اگر ان کے سامنے گالي گلوچ ، بے ہودہ گانے، ٹي وي، فلموں وغيرہ کا ذکر کريں تو رفتہ رفتہ يہ الفاظ جو ناسمجھي ميں ادا ہوتے ہيں بچوں کي گفتگو کا حصہ بن جاتے ہيں- اسلئے ايسي گفتگو جو ايماني حالت کو تباہ کرنے کا باعث بنے اور شيطاني اثرات رکھتي ہو اس سے بچنا اور بچانا ايک مسلسل تربيت کا تقاضا کرتاہے- بچوں کو لبا س کے بارے ميں آگاہ کريں ،اس کي اہميت بتائيں کہ يہ اï·² تعاليٰ کي ايک نعمت ہے اور جس سے حيا ظاہر ہوتي ہے- والدين کے ليے ضروري ہے کہ بچپن سے ہي لڑکي کو لڑکي کے کپڑے اور لڑکے کو لڑکے کے کپڑے پہنانے کا عادي بنائيں- اپنے جسم کو چھپانے اور اس کي حفاظت کرنے کي عادت ڈالي جائے- مغربي لباس سے زيادہ اسلامي لباس پہنايا جائے- مغربي اور غير شرعي لباس سے بچوں ميں نفرت اور نا پسنديدگي کا جذبہ بيدار کيا جائے-

بچے کا مستقبل ماں کے ہاتھ ميں ہوتا ہے - اگر ماں دين دار ہو ، متقي اور پرہيز گار ہو اور خدا سے ڈرنے والي ہو تو وہ اپنے بچے کي تربيت بھي اسي ڈھنگ سے کرے گي او ر ايسي ہي ماو آ؟ں کي کوکھ ميں عالم ، فاضل اور مجاہد پلتے ہيںاور ايسي ہي مائيں خوش نصيب کہلاتي ہيں-


متعلقہ تحریریں:

مستقل زندگي کا اصل مزہ

نوجوان کي اصلاح معاشرے کے ليۓ ضروري