• صارفین کی تعداد :
  • 5706
  • 3/20/2014
  • تاريخ :

اعلي خاندان کي اعتقادي ضرورت (حصہ پنجم)

اعلی خاندان کی اعتقادی ضرورت

جب وہ نااہل خاندانوں کي زندگي پر نظر ڈالتے ہيں جن کي بات قرآن ميں ہوئي ہے تو ہميں معلوم ہوجاتاہے کہ جيسے اللہ تک پہنچنے کےليے خاندان کے اراکيں کي ہمراہي بہت اہم ہے ويسے ہي گناہ کرنے ميں ان کي ہمراہي اور ہمدلي ان کے فنا اور بربادي کا باعث بن جاتاہے-ابولہب اور اس کي بيوي ان جوڑوں ميں سے ہيں جو غلط رستے پر ايک دوسرے کو ساتھ دينے کي وجہ سے جہنم کي آگ ميں جل جائيں گے-يہ انہي لوگوں ميں سے تھے جو اللہ کے پيامبر ()کو ستاتے تھے اور اس پر عرصہ تنگ کرنے کي کوشش کرتے تھے اور ان کي آزار اور اذيتيں اتني ہوئي تھيں کہ سورہ مسد ان کے بارے نازل ہوا-13

اور اس مياں بيوي کو جہنم کے آگ کا وعدہ کيا:

تَبَّتْ يدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ مَا أَغْنَي عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ سَيصْلَي نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِّن مَّسَدٍ  14

« کہہ ديجيے: اے کافرو! ميں ان (بتوں) کو نہيں پوجتا ہوں جنہيں تم پوجتے ہو- اور نہ ہي تم اس (اللہ) کي بندگي کرتے ہو جس کي ميں بندگي کرتا ہوں  اور نہ ہي ميں ان (بتوں) کي پرستش کرنے والا ہوں جن کي تم پرستش کرتے ہو  اور نہ ہي تم اس کي عبادت کرنے والے ہو جس ميں عبادت کرتاہوں »

2) اعتقادي نقطہ نظر سے امر به معروف و نهي از منکر

خاندان کي امور ميں امر به معروف و نهي از منکر بہت اہم ہے،  بعض آيات اور روايات ميں اور طريقہ زندگي کے اسلامي نقطہ نظر کے مطابق کچھ ايسے نمونے ملتے ہيں کہ خاندان کے اراکين اعتقادي لحاظ سے ايک دوسرے کو امر به معروف يا نهي از منکر کرتے ہيں، جيسے ابراهيم (عليه السلام) ايسے موحد انسان تھے جنہوں نے صرف اور صرف اللہ کي عبادت کي  اور مورتي عبادت کرنے کي وجہ سے اپنا چجا، آزر، کو ڈانٹتے تھے اور اسے يہ سمجھايا کہ: کيا يہ پست مورتيوں اور يہ بےجان چيزوں کو خود ہي اپنا اللہ چن کر عبادت کرتے ہو؟! بےشک ميں تم کو اور تم جيسے لوگوں کو بٹھکتے ہوئے رستے پر ديکھ رہي ہوں:

وَ إِذْ قالَ إِبْراهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَ تَتَّخِذُ أَصْناماً آلِهَةً إِنِّي أَراكَ وَ قَوْمَكَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ 15

« اور جب ابراہيم نے اپنے باپ (چچا) آزر سے کہا: کيا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ ميں تمہيں اور تمہاري قوم کو صريح گمراہي ميں ديکھ رہا ہوں »

حضرت ابراهيم (عليه السلام) اپني اولاد اور پوتروں کي سرنوشت کو اہميت ديتے تھے اور ان کو وصيت کي تھي کہ اپني عمر کے آخرين لمحوں تک اللہ تعالي کي حکموں پر تسليم ہوں-

و َوَصَّي بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيعْقُوبُ يا بَنِي إِنَّ اللّهَ اصْطَفَي لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ 16

« اور ابراہيم نے اپني اولاد کو اسي ملت پر چلنے کي وصيت کي اور يعقوب نے بھي (اپني اولاد کو يہي وصيت کي) کہ اے ميرے بيٹو! اللہ نے تمہارے ليے يہي دين پسند کياہے، لہٰذا تم تا دم مرگ مسلم ہي رہو .»  (جاري ہے)

 

حوالہ جات:

13- قمي، 1404، ج2، ص 448؛ واحدي نيشابوري، 1411، ص 448 و 449؛ طوسي، [بي تا]، ج 10، ص 427

14- مسد 1-5

15- انعام: 74

16- بقره: 132

 

ترجمہ: منیرہ نژادشیخ


متعلقہ تحریریں:

ذہن پر قابو ہي سکون کا وسيلہ ہے

خوشگوار ازدواجي زندگي کے ليۓ ضروري باتيں (  حصّہ سوّم )